’’اداس آنکھیں‘‘

’’اداس آنکھیں‘‘

اس وقت سیاسی بحران اپنی انتہا کو پہنچا ہوا نظر آرہا ہے جس سے عوام میں بے حد بے چینی پائی جاتی ہے فریقین ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات عائد کر رہے ہیں ان کی کوشش اور خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ عوام ان کے گرد اکٹھے ہوں اور وہ یہ ثابت کر سکیں کہ وہ مقبول عام ہیں مگر یہ بات کس قدر تکلیف دہ ہے کہ ان میں کوئی بھی عوامی مفاد کو ملحوظ خاطر نہیں رکھ رہا۔ بس یہی رونا رویا جا رہا ہے کہ وہ غلط ہے اور وہ ٹھیک ہے پوتر ہے۔ یہ سیاسی طرز عمل ملکی معیشت پر کاری ضربیں لگا رہا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں نفرتیں بھی پیدا کر رہا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نفرتوں کا ایک جھکڑ چل نکلا ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر دیکھ اور سن رہے ہیں کہ لوگ کس قدر آپس میں الجھے ہوئے ہیں اور سخت ترین جملوں کا تبادلہ کر رہے ہیں جبکہ انہیں تہذیب و شائستگی کا دامن کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہیے انہیں اپنے اپنے سیاسی قا ئدین کو بھی سمجھانا چاہیے کہ وہ ایسا لب و لہجہ نہ اختیار کریں جو فاصلے بڑھاتا ہو کیونکہ سیاست میں اختلاف رائے تو ہو سکتا ہے عداوت نہیں مگر صد افسوس کہ یہاں دشمنیاں جنم لے رہی ہیں گالیاں دے کر دوسروں کو عوام کی نظروں میں گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے لہٰذا یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو تربیت کی ضرورت ہے تا کہ یہ سیاست کریں جنگ نہیں جو ہرگزرتے دن کے ساتھ شدید ہوتی جا رہی ہے جس سے سماج میں ایک خوفناک دراڑ آچکی ہے۔ 
اس صورت حال کے پیش نظر ہر محب الوطن شہری سخت پریشان دکھائی دیتا ہے اب تو وہ مروجہ سیاست سے تنگ آچکا ہے اور اس سے کنارہ کش ہونے کی سوچ رہا ہے کہ اب تک اس نے ہر کسی کا ساتھ دیا ہے تا کہ وہ ایک روشن مستقبل کے حصول کو ممکن بنا سکے مگر ابھی تک وہ اس سے محروم چلا آ رہا ہے جبکہ سیاستدان و حکمران زندگی کی تمام آسائشوں سے مستفید ہو رہے ہیں ان کا ہر لمحہ خواب ناک نظر آتا ہے انہیں کوئی غم فکر نہیں دولت ان کے پاس ڈھیروں پائی جاتی ہے یوں ایک تلخ فضا قائم ہو چکی ہے ہر کوئی بیزار اور اکتایا ہوا ہے کسی کو بھی کسی سے محبت اور خلوص نہیں رہے گویا ایک آپا دھاپی پڑی ہوئی ہے۔ ایسے میں کوئی دلوں سے کدوتوں اور نفرتوں کی جگہ محبت کا الاؤ روشن کرنے کی سعی کرتا ہے تو اسے خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ 
چند روز پہلے ڈاکٹرجاوید اقبال آڈیٹوریم ہال ہائیکورٹ لاہور میں ملک کے معروف قانون دان اور شاعر و ادیب اشتیاق چودھری کے شعری مجموعے ’’اداس آنکھیں‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی تقریب پذیرائی کا انعقاد ہوا جس میں وکلاء، مزدور رہنماؤں، شاعروں ادیبوں، صحافیوں ، لکھاریوں ، دانشوروں، سیاستدانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اشتیاق چودھری نے اپنی شاعری کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ ہمیں جینا ہے تو محبت و پیار کے دیے جلا کر، انہوں نے صنف نازک کو ہی موضوع نہیں بنایا وہ تو ہر انسان سے محبت کرنے کا کہہ رہے ہیں جس کی آنکھیں پیار کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئی ہیں اور اب جب اس ہجوم رہگزر میں کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہورہا تو ان کی ’’آنکھیں اداس‘‘ ہوتی جا رہی ہیں ان کے اندر ایک محبت کرنے والا انسان انہیں کسی محبوبہ کی طرف بھی دیکھنے پر مجبور کر دیتا ہے اور پھر یہی محبت وہ ہر دل میں بھی دیکھنے کے خواہش مند ہیں تا کہ یہ سماج نفرتوں اور کدورتوں کو کہیں دور بھگا دے۔ انسانی حیات بہت ہی دکھ سہہ رہی ہے ہر سمت مصائب و آلام پھیلے ہوئے ہیں جو ہر قدم کو بوجھل بنا رہے ہیں۔ ذہنوں میں سوائے تلخیوں کے اور کچھ نہیں رہا لہٰذا ہر لکھنے والے خواہ وہ شاعر ہے ادیب ہے کسی بھی صنف سے اس کا تعلق ہے سسکتی تڑپتی انسانیت اور جلتے دلوں کو ٹھنڈا کرنے اور ان میں محبتوں کے چاند اتارنے کے لیے اسے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ انسانی معاشرہ ہے اس میں تو امن پیارے کے نغمے بلند ہونے چاہئیںتھے مگر اس میں انگارے بھر گئے ہیں جو تیزی سے لوگوں کو جلا رہے ہیں۔
خیر اشتیاق چودھری نے ’’اداس آنکھوں‘‘ کے ذریعے اپنا کردار ادا کر دیا ہے آئندہ بھی ان کے دل کی دھڑکن میں محبت کی روانی ہر اس شخص کو محسوس ہو گی جو چاہتا ہے کہ یہ سماج گل و گلزار بن جائے اس میں خوشی کے گیت گائے جا رہے ہوں محبتوں کی ایک کہکشاں ہو، پھولوں کی مہک ہو اور بلبلیں چہک چہک پھدک پھدک جا رہی ہوں۔ 
اشتیاق چودھری کہتے ہیں: 
اداس میں ہوں اگر سوگوار تم بھی ہو
مری طرح سے غموں کا شکار تم بھی ہو
احساس تنہا رہنے کا ڈستا رہا مجھے
محفل کبھی سجاؤں گا کچھ انتظار کر 
دنیا میں پیار کی جو علامت بنے گا دوست 
ایسا محل بناؤں گا کچھ انتظار کر 
پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ 
ہے یقیں اک روز انسانیت کے معیار بدلیں گے
مجبور، کمزوروں کے لیل و نہار بدلیں گے 
اک صبح جبر کی یہ دیوار گرے گی
خود غرضی، مادہ پرستی کے افکار بدلیں گے
ہاں ایک روز یہ سب بدل جائے گا اشتیاق چودھری محبت کا ہی نغمہ نہیں الاپتے وہ جبر و ظلم کے ایوانوں سے بھی ٹکراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کچلے ہوئے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے میں مصروف عمل ہیں۔ وہ مزدوروں ، کسانوں کی آواز ہیں۔ وہ طمع و لالچ سے مبرا ہیں انہیں فقط مظلوموں کو انصاف دلانا ہے اس کے لیے وہ اپنا ہر لمحہ وقف کیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ قانونی جنگ لڑتے ہیں تو دوسری جانب اپنے خیالات کو بروئے کار لاتے ہیں جنہیں وہ شعروں میں ڈھال کر بیداری کی لہر ابھارتے ہیں۔ جاوید اقبال آڈیٹوریم میں ان کی تقریب پذیرائی میں اظہار خیال کرنے والوں جن میں جاوید آفتاب ، شوکت چودھری در نجف ، نذیر قیصر، حامد خاں‘ نیلم احمد بشر پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس و دیگر نے ان کی شخصیت کے دونوں پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ ہم نے پہلی بار دیکھا کہ کسی کتاب کی تقریب میں تمام مکتب فکر کی ایک بڑی تعداد موجود ہے: 
رْت گلستاں کی سازگار نہیں
مضطرب آشیاں میں رہتا ہوں
اے وطن تیرے لیے کتنے ہی مصائب جھیلے
حیات موت سے ہو کر امر نکلی ہے
بہرحال جتنی ضرورت اب ہے‘ ادبی مجلسوں اور ادب کی‘ ملکی تاریخ میں اتنی کبھی نہیں تھی کیونکہ مایوسی اور ناامیدی نے ہر کسی کو اپنے حصار میں لے لیا ہے لہٰذا ادیبوں شاعروں اور لکھاریوں یعنی بیدار دماغوں کو اپنے تئیں اہل وطن کو بے مقصد سیاست کے بھنور سے نکال کر ادب کی حسیں دلکش اور روشن وادیوں میں لانا ہو گا کہ ہر دور کا ادیب اپنے ہم وطنوں کو کبھی بھی زندگی سے بیزار نہیں ہونے دیتا وہ انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اشتیاق چودھری اسی راستے پر رواں ہے کہ وہ جہاں محبت کی خوشبو بکھیر رہا ہے تو وہاں اس نظام کو بدلنے کی بھی کوشش کر رہا ہے کہ جس نے ہر کمزور کے ہونٹوں کی مسکراہٹ چھین لی ہے اور اس کی آنکھیں اداس کر دی ہیں۔

مصنف کے بارے میں