حکومت کا تذبذب اور سنگین معاشی صورتحال

حکومت کا تذبذب اور سنگین معاشی صورتحال

یہ تو غنیمت ہوگیا کہ حکومت اس بات پر تو یکسو ہوئی کہ وہ اگست 2023ء تک اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور انتخابی اصلاحات کے بعد ہی انتخابات کرائے جائیں گے۔ 
مسلم لیگ نواز اور اتحادی جماعتوں نے جب اقتدار سنبھالا تو ڈالر، جس کے دام پر ہی ہماری معیشت چلتی ہے ،چند روز کے لیے روپے کی قدر کے مقابلے میں کمزور ہوا اور اسٹاک ایکسچینج جو سرمایہ دارانہ نظام ایک بڑا ہتھیار ہے اس میں بھی بہتری آئی۔ مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے یوں محسوس ہونے لگا کہ حکومت تذبذب اور ہچکاہٹ کا شکار ہے۔ اس دوران وزیراعظم شہباز شریف نے سب سے بڑا کارنامہ جو انجام دیا وہ اسلام آباد ائر پورٹ تک میٹرو بس سروس کا آغاز تھا۔ قومی معیشت اور سیاست کس رُخ پر ہیں اس پر وہ مخمصے کا شکار تھے۔  ایک نامور صحافی، تجزیہ نگار جو ایک انگریزی ہفت روزہ کے مدیر اعلیٰ بھی ہیںاس ضمن میں یہ بتاتے ہیں کہ ’’ اسٹیبلشمنٹ نے اس نئی حکومت کو یہ کہا ہے کہ آپ معیشت کی بحالی کے لیے سخت فیصلے لیں اور جولائی اگست میں انتخابات کا اعلان کردیں تاکہ اکتوبر تک نئی حکومت اپنی ذمہ داریاں سنبھال لے۔ جس پر حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں اور خاص کر مسلم لیگ نواز پریشانی میں مبتلا ہوگئی۔ مسلم لیگ نواز کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اگر انہوں نے سخت فیصلے کرنے ہیں جس میں سب سے بڑا فیصلہ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا ہے، جس کے نتیجے میں انہیں سخت عوامی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں جب کہ عمران خان جلسے پر جلسے کررہے ہیں اور بظاہر عوامی حمایت اُن کے حق میں نظر آرہی ہے، مسلم لیگ نواز کا فوری انتخابات میں بڑی کامیابی  کے امکانات کم ہوں گے‘‘۔ اس تجزیے میں حقیقت یوں بھی محسوس ہوتی ہے کہ کمیونیکیشن کے اس جدید دور کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف اور ان کابینہ میں شامل مسلم لیگ نواز کے وزراء بھی راتوں رات لندن نواز شریف کے پاس جاپہنچے۔جہاں مشاورت کا عمل ممکن ہوا۔ اسی دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک بھرپور پریس کانفرنس کی اور ملک کی اقتصادی صورتحال میں بہتری کے لیے اہم نکات کی نشاندہی کی۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ جو بات بھی کررہے ہیں وہ نواز شریف کے ساتھ مشاورت کے بعد کررہے ہیں۔ 
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پی ڈی ایم اور حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کی شمولیت سے قومی سیاست میں جو  منظر نامہ تشکیل ہوا ہے اس کی مثال کم ہی  نظر آتی ہے۔ یقیناً تمام سیاسی جماعتیں 
دہائیوں کے تجربات کے بعد بھرپور سیاسی تدبر رکھتی ہیں۔نئی حکومت کی تشکیل میں جس جماعت نے سب سے زیادہ تعاون کیا ہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ جس نے  وفاقی حکومت میں بہت کم حصہ لیا ہے۔ ناقدین کا کہنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ خوب چال چلی ہے کہ تمام مشکل فیصلے اُس کے سر پر ڈال دیئے ہیں اور خود ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھ رہی ہے۔ مگر پیپلز پارٹی کے رہنما قمرالزماں کائرہ نے اس کی تردید گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کردی کہ پیپلز پارٹی تمام فیصلوں میں ذمہ دار اور  حصے دار ہے۔ 
موجودہ صورتحال میں خاص کر مسلم لیگ نواز اور عمومی طور پر دیگر اتحادی جماعتوں کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ انہوں نے اپنی سیاست کو محفوظ کرنا ہے یہ ملک کو بچانا ہے۔ اگرچہ اب حکومت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے گی، لیکن اگر کسی بھی مرحلے پر مسلم لیگ نواز نے حکومت چھوڑی اور اسمبلیاں تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کرائے تو مسلم لیگ نواز عوامی پذیرائی سے کافی حد تک محروم ہوگی۔ 
موجودہ  معاشی صورتحال میں حکومت کو فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرکے قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق کرنی چاہئے اور اشیاء خورونوش پر ٹیکس ختم کرکے غریب اور متوسط طبقے کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دی جانی چاہیے۔ پیٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ حکومت مقامی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے بقایا جات فوری طور پر ادا کرے اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے پی ڈی سی کی مدمیں ڈیزل پر 73 روپے فی لیٹر اور پیٹرول پر 30روپے فی لیٹر کٹوتی ختم کرے۔ جس کی وجہ سے یہ کمپنیاں ڈیزل اور پیٹرو ل کی درآمد میں مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت خود ڈیزل اور پیٹرول منگوا کر ا ن کمپنیوں کو فروخت کرے تاکہ ملک سے پیٹرولیم مصنوعات کی قلت ختم ہوسکے۔اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ ملک کے صنعت کاروں اور تاجروں کو اعتماد میں لے اور ان کی مشاورت سے معاشی فیصلے کرے۔

مصنف کے بارے میں