چین اور امریکا تعلقات کی بہتری کا اندازہ

چین اور امریکا تعلقات کی بہتری کا اندازہ

انڈونیشیاکے جزیرے بالی میں جی 20 سربراہی اجلاس ختم ہو چکا ہے اِ س دفعہ تنظیم کے شرکا نے دنیا کے اصل مسائل ایٹمی عدم پھیلاؤ،ماحولیاتی تبدیلیوں اور دہشت گردی جیسے مسائل پر دھیان دینے کے بجائے روس اور یوکرین جھڑپوں پر زیادہ توجہ دی مگر کیونکہ روس بھی اِس تنظیم کا ممبر ہے اسی لیے کوشش کے باوجودمتفقہ مذمتی قرارداد پاس ہونے کی نوبت نہ آسکی ساری دنیا کی نظریں اجلاس میں شامل امریکی صدربائیڈن کی چینی ہم منصب شی جن پنگ کی ہونے والی ملاقات اور نتائج پر نظریں مرکوز رہیں آغازمیں ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید دونوں صدور کے درمیان مختصر سے ملاقات ہو مگر توقعات سے بڑھ کر دونوں مہمانوں نے گرمجوشی سے نہ صرف معانقہ کیا بلکہ ملاقات میں تمام امورپر کھلے دل سے تبادلہ خیال بھی کیااب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیاایک ملاقات سے امریکہ وچین تعلقات بہتر ہوجائیں گے اور جنوبی چینی سمندر میں آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ ملکر امریکہ اب روس اور چین کے خلاف اتحاد بنانے جیسی سرگرمیوں سے بازآجائے گا؟سفارتی ذرائع بظاہرسوالات کے حوالے سے بہتری کی کچھ زیادہ توقع نہیں رکھتے ہاں یہ ممکن ہے کہ تجارتی حوالے سے کسی حد تک بہتری آجائے کیونکہ مذاکرات سے تصفیہ طلب مسائل کا حل نکلتا ہے اور ناہموار تعلقات بھی ہموار ہوجاتے ہیں۔
جوبائیڈن اور صدر شی کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے جولفظی سوال وجواب شروع تھے بالی ملاقات کے بعد کسی حدتک دونوں طرف نرمی محسوس کی جارہی ہے مگر یہ تصور کر لینا کہ سرد جنگ کا ماحول دوبارہ بننے کاخطرہ ٹل گیا ہے ایسا اندازہ لگانایا توقع رکھنا ابھی قبل ازوقت ہے کیونکہ براہ راست ٹکراؤ کے بجائے دنیا میں پراکسی سے کام لینے کارجحان فروغ پذیر ہے اسی بنا پر امریکہ کی طرف سے سامنے آئے بغیر چین کا گھیراؤ کرنے کی پالیسی پر عمل کرنے کا امکان بڑھ گیا ہے اپنے مہروں کو آگے بڑھا کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنازیادہ سود مند ہوگا کیونکہ وہ براہ راست نقصان اُٹھانے سے محفوظ رہے گا۔
ملاقات سے قبل جوبائیڈن نے کہا کہ امریکہ کو چین کے ساتھ تنازع میں نہیں گھسیٹا جائے گا جواب میں صدر شی نے بھی توقع ظاہر کی کہ ملاقات کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے اور دونوں ممالک کے تعلقات واپس معمول پر آجائیں گے مگر یہ کہنا جتنا آسان ہے عملی طور پر اُس سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ جب صدر شی کہتے ہیں کہ چین و امریکہ روابط اور سفارتی تعلقات قیام سے لیکر آج تک پچاس برس
میں فوائد،نقصانات اور تجربات کے ساتھ کئی نشیب وفراز سے گزرے ہیں اِس لیے ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی طرف نظر رکھنی چاہیے دراصل یہ سبق سیکھنے اور مستقبل پر نظر رکھنے کی بات دوسرے فریق کو سنائی گئی ہے اسی طرح جوبائیڈن نے صدر شی سے اگلی براہ راست ملاقات میں بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے جارحانہ انداز کو سنبھالنے سے متعلق معلومات لینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے انھیں پریشانی یہ ہے کہ ویتنام، تائیوان، فلپائن، ملائیشیا اور برونائی کے آبی علاقوں میں نہ صرف چین نے مصنوعی جزائر تعمیر کرنے کے بعداُن پر فوجی اڈے بھی بنا لیے ہیں اِس حوالے سے انھوں نے اپنے قریبی حامی ممالک جاپانی وزیرِ اعظم فومیوکشید اور جنوبی کوریاکے صدر یون سیوک یول سے الگ الگ ملاقاتوں میں تحفظات سے آگاہی لے لی ہے مگر جزائر اور اڈے بنانے کے حوالے سے چین کا دوٹوک موقف ہے کہ اُس نے کوئی تجاوز نہیں کیا بلکہ اپنے علاقوں پر فوجی موجودگی یقینی بنائی ہے اسی لیے چین و امریکہ تعلقات کی بہتری کا اندازہ غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ایک سے زائد ایسے مسائل ہیں جن پر دونوں ممالک کے مفادات ایک دوسرے کی ضد ہیں مثلاََ چین تائیوان کو پہلی سرخ لکیر قرار دیتے ہوئے اِسے پار نہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے مگر امریکہ ایسا کرنے کے بجائے تائیوان سے ایک آزاد و خود مختار ملک جیسے تعلقات قائم کرنے پر بضد ہے بحرالکاہل میں دونوں ملکوں کے دفاعی اہداف میں دیگربھی تضادات ہیں علاوہ ازیں چین کا مقابلہ کرنے کا امریکی عزم بھی چین و امریکہ تعلقات کی بہتری کے اندازوں کو جھٹلاتاہے نیز چین کے گھیراؤ کے لیے امریکہ کی طرف سے بھارت کوتھپکی بھی دونوں ممالک کے بہتر ہوتے تعلقات کی تائید نہیں کرتی۔
چین و امریکہ تعلقات کی بہتری کے اندازے کو بھارت کی دفاعی تیاریاں جھٹلانے کے لیے کافی ہے حالانکہ یہ عیاں حقیقت ہے کہ بھارت و چین کا دفاعی موازنہ درست نہیں کیونکہ چین کو ہر حوالے سے بھارت پر واضح طور پر برتری حاصل ہے مگر روس اور یوکرین کی طرح بھارت و چین ٹکراؤ بھی امریکی تشنہ آرزو ہے اِس حوالے سے نئے علاقائی اتحاد تشکیل دینے کے ساتھ بھارت کو اقتصادی،تجارتی،معاشی اوردفاعی حوالے سے مضبوط تر کیا جارہا ہے اگر جوبائیڈن اور شی جن پنگ کی خوشگوار ماحول میں ملاقات اور گفتگو ہوئی ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جی ٹونٹی اجلاس میں شرکت کے باوجود نریندر مودی اور شی جن پنگ ملاقات طے نہ پا سکی اور دونوں نے کھڑے کھڑے چندلمحے ایک دوسرے کو دیے شنگھائی کانفرنس میں بھی دونوں کی ملاقات کرانے کی کوششیں ناکامی سے دوچارہوئیں اسی بنا پر ایسے قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ امریکہ نے خود سامنے آنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے بطور مہرہ بھارت کو آگے رکھنے کاحتمی فیصلہ کر لیا ہے بھارت بھی اِس پالیسی کو قبول کرچکااور بطور مہرہ کام کرنے پر راضی ہے اور وہ درپردہ اِس کی تیاریوں میں بھی مصروف ہے تاکہ ٹکراؤ کی نوبت آئے تو ماضی کی طرح نقصان اور سُبکی کا سامناکرنے سے بچ جائے۔
چین و بھارت میں بظاہر تجارتی تعلقات فروغ پذیر ہیں اِس کے باوجودمشرقی لداخ میں کشیدگی کے پیشِ نظر خاموشی سے بھارت نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی)کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کے کئی منصوبے مکمل کر لیے ہیں وزارتِ دفاع کے حکم پر بارڈر روڈز آرگنائزیشن (بی آر او)نے ساٹھ کلو میٹر سے زائد سٹرکیں،693مستقل پُل (جن کی لمبائی 53000میٹرہے)بن چکے 19کلومیٹر کے فاصلے کے ساتھ چار سرنگیں بھی بنائی گئی ہیں نئے مکمل ہونے والے منصوبوں میں ایک اہم منصوبہ دس ہزار فٹ بلند9.02 کلومیٹر پر محیط اٹل ٹنل ہے جو ہماچل پردیش کے علاقے منالی کو مغربی لداخ اور زنسکار وادی کو جوڑنے کا متبادل راستہ ہے اِس کے ساتھ 298 کلومیٹر لمبی ایک اور سڑک بنانے کے منصوبے پربھی کام ہورہا ہے یہ سٹرک2026تک مکمل ہوجائے گی اِس حوالے سے بتانے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اِس سڑک کی افادیت بڑھانے کے لیے 4.1 کی جڑواں ٹیوب سرنگ بنانے پر بھی کام جاری ہے جن کی تکمیل سے یہ سڑک ہر موسم میں رابطہ فراہم کرنے کے قابل ہو جائے گی سرنگوں،غاروں کے علاوہ زیرِ زمین گولہ بارود رکھنے کے لیے حفاظت گاہیں بنانے کاکام بھی ہنگامی بنیادوں پر جاری ہے یہ سرگرمیاں امن پسندانہ ہر گزنہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں اور پراکسی کے تاثر کو تقویت دیتی ہیں۔
بھارت آمدہ برس جی ٹونٹی کی صدارت کا منصب بھی سنبھالنے والا ہے حالیہ بالی اجلاس کے دوران انڈونیشیا نے علامتی صدارت اُس کے سپرد کر دی ہے اِس تنظیم کے رُکن ممالک کی آبادی دنیا کا ساٹھ فیصد اور جی ڈی پی میں حصہ 80فیصد ہے اِس کے ممبران میں روس اور چین بھی شامل ہیں اِس لیے بھلے کوئی رُکن ملک اِس تنظیم کی وساطت سے چین کی مذمت تو نہ کر سکے مگر بھارت کسی حد تک فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آجائے گااسی بناپر کہہ سکتے ہیں کہ چین و امریکہ مخاصمت میں عملی طورپر کمی آنے کا امکان کم ہے اور اب امریکہ خود سامنے آئے بغیر بھارت کے کندھے پر رکھ کر محاذ آرائی کی بندوق چلاسکتا ہے۔

مصنف کے بارے میں