چور بھی کہے چور چور

چور بھی کہے چور چور

انسان ہمیشہ سے ہی دوسروں کی خامیاں نکالنے کا دلدادہ ہے،مگر کبھی خود کا موازنہ نہیں کرتا یہ ایک فطری عمل ہے کہ خود کی خامیاں کم اور اچھائیاں زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔جیسے کہ یہ بات بھی سچ ہے کہ انسان کو دوسرے کے منہ کی بدبو بہت بری لگتی ہے اور اپنے منہ کی بدبو محسوس نہیں ہوتی یہ بھی فطری عمل ہے ٹھیک اُسی طرح ہماری سیاست کی دُنیا میں بھی ایساہی ہو رہا ہے۔ہر سیاسی لیڈر کو دوسروں کے کیڑے نظر آتے ہیں مگر اپنی خامیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ہر سیاسی لیڈر کو دوسرا سیاسی لیڈر چور دکھائی دیتا ہے۔یہاں تو یہ حال ہو چُکا ہے کہ جیسے ہم بچپن میں دیکھتے تھے کہ رات کے سناٹے میں جب کسی گلی یا محلے میں چور آجایا کرتا تھا یکدم جب لوگوں کے علم میں آجاتا کہ کوئی چو ر آگیا ہے تو بھگدڑ مچ جاتی تو چور چور کی آوازیں فضا میں بلند ہو جاتیں تو چور بھی اپنے بچاؤ کے لیے اُسی بھیڑمیں شامل ہو کر چور چور کی آوازیں کسنا شروع ہو جاتا تھا صورتحال کچھ ایسی ہی لگ رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہم لوگ توشہ خانے کی مختلف داستانیں سن رہے ہیں اور وہ کہانیاں ابھی تک جاری ہیں۔ پہلے بڑی مشکل سے مجھے کیوں نکالا کی قسط ختم ہوئی پھر چینی چور اور آٹا چور کی اقساط کا آغاز ہواجس کا صرف شور ہی اُٹھا نہ تو کچھ حاصل ہوا اور نہ ہی قومی خزانے میں کچھ جمع ہو سکا۔ٹھیک ماضی کی طرح پچھلے دنوں وکلاء نے گھڑی چور کے نعرے بھی لگائے گئے،یقینا اس بات کا بھی کوئی حل نہیں نکلے گا کیونکہ ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ کہ کوئی بھی سیاسی لیڈر خود کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا نہیں چاہتا۔سب سیاسی لیڈر خود کو انصاف یا قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔
توشہ خانے کے تحائف کو اونے پونے بیچنے اورپیسے ہڑپ کر جانے کا معاملہ بھی پچھلے ایک سال سے ڈسکس کیا جا رہا ہے مگر رزلٹ صفر ہے۔ سب عمران خان کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ ایماندار ہے چلئے ہم بھی لمحہ بھر کے لیے یہ تصور کر بھی لیتے ہیں کہ وہ ایماندار اور کرپشن سے پاک لیڈر ہے۔مان لینے کے بعد بھی ایک ہی سوال پھر اُٹھے گا کہ اپنی ایمانداری ثابت کرنے کے لیے اور اس توشہ خانے کے باب کو بند کرنے کے لیے کیوں نہیں عمران خان خود کو احتساب کے کٹہرے میں پیش کرتے تاکہ وہ اپنی ایمانداری کو عوام کے سامنے ثابت کر سکیں۔ مختلف حیلے بہانے بنانے سے تو یہی ثابت ہو رہا ہے کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے۔ عمران خان پہ اس وقت مالی بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں اور قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچانے کا الزام لگ رہا ہے۔یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ عمران خان نے اپنی پوری زندگی میں اتنا نہیں کمایا جتنا توشہ خانے کے تحائف بیچ کراُنہوں نے کما لیا ہے۔سب سے زیادہ حیران کن بات تو یہ ہے کہ عمران خان اس ایشو پہ کسی بھی فورم پہ کوئی تسلی بخش جواب ابھی تک نہ دے سکے حالانکہ یہ سکینڈل عمران خان کے دور حکومت میں ہی سامنے آگیا تھا۔عمران خان کے ہی دور حکومت میں ایک صحافی نے غیر ملکی تحائف کی تفصیلات جاننے کے لیے پاکستان انفارمیشن کمیشن سے رجوع کیا اور وہاں سے کابینہ ڈویژن کو ہدایت کی گئی کہ درخواست گزار کو ڈیٹیل فراہم کی جائے۔
مگر کابینہ ڈویژن نے تحائف کی تفصیلات دینے سے انکار کر دیا۔ انفارمیشن کمیشن کے جواب کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا،ہائی کورٹ میں بھی اس بات پہ حیرت کا اظہار کیا کہ حکومت وزیر اعظم کو تحائف کی ڈیٹیل بتانے سے کیوں کترا رہی ہے۔عدالت میں پی ٹی آئی کی طرف سے یہ موقف اختیار کیاگیا کہ تحائف کو پبلک کرنا ملکی قومی سلامتی کو خطرہ ہے اس موقف سے ہائی کورٹ مطمئن نہیں ہوئی۔تشویش کا اظہار کرنے کے بعد ہائی کورٹ کے جج جسٹس گل حسن نے بھی کہا کہ اگر کوئی دفاعی تحفہ ہو تو بیشک نہ بتایا جائے اور اگر کسی ملک نے ہار تحفے میں دیا ہے تو اسے پبلک کرنے میں کیا ہرج ہے حکومت دوسرے ممالک سے تحائف ملنے سے کیوں شرمندہ ہو رہی ہے وہ تحائف تو عوامی ہیں اگر کسی کے پاس عوامی عہدہ نہ ہو تا کیا وہ تحائف ملیں گے۔یہ بھی جسٹس گل حسن نے کہا کہ کس ملک نے تحائف کے ذریعے ملک سے محبت کا کتنا اظہار کیا عوام کو بتانے میں کیا عار ہے یہ بھی مثال دی کہ اگر مجھے شیلڈ ملتی ہے تو اُسے میں کورٹ میں سب کے سامنے لگاؤں گا۔یہ ساری باتیں ایک سال پہلے کی ہیں۔
مگر آج بھی اس خبر کو ہیڈ لائن بنایا جا رہا ہے کیونکہ ابھی تک اس کی گتھی نہیں سُلجھی۔اور اگر کوئی صحافی یا میڈیا پرسن اس ٹاپک کی تحقیق کرتا ہے تو اُس پہ دھمکی آمیز جملوں کے ساتھ پریس کانفرنس کی جاتی ہے۔ایک بات تو طے ہے کہ چور اپنا کوئی نا کوئی نقطہ ضرور چھوڑ جاتا ہے اور اُسی نقطے پہ ہی ساری کارروائی ہوتی ہے۔ آج تک قطری خط کو تو نشانہ بنایا ان رہنماؤں کا ہاتھ سے لکھی رسید کے بارے میں کیا خیال ہے۔ اس رسید نے ہی تحریک انصاف کو مشکوک بنا دیا ہے۔ گھڑی کا سیٹ فروخت کرنے سے متعلق ہاتھ سے لکھی ہوئی رسید جس دکان کا سہارا لے رہی ہے ا ور توشہ خانہ سے صرف 20%ادائیگی کرکے گھڑی خریدنے کا جو ریکارڈ ہے،دونوں دستاویز میں ایک ہی تاریخ درج ہے یعنی گھڑی توشہ خانہ سے خریدنے اور مارکیٹ میں فروخت کرنے کی تاریخ ایک ہی درج ہے۔ 22جنوری 2019کی ہے اب اس سے دو چیزیں ظاہر ہو رہی ہیں یا تو عمران خان نے گھڑی توشہ خانہ میں جمع کرانے سے پہلے دکان پہ سیل کی یا پھر کسی کو کیش کی صورت میں رقم جمع کرانے کا بول دیا ہو اور گھڑی توشہ خانہ تک ہی نہ پہنچی ہو۔
عمر فاروق ایک بزنسمین جس کی پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی نہ صرف ملاقاتیں بلکہ اُن کی مختلف اوقات اور اہم میٹنگز کی تصاویر بھی پبلک ہوتی رہیں۔ سب سے اہم بات جو دفاع کرنے میدان میں اترے وہ فواد چوہدری ہیں جو مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کا دفاع کرتے رہے ہیں آجکل یہ پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعظم کا دفاع کر رہے ہیں۔آنے والے وقتوں میں نہ جانے کس کی چھتری تلے بیٹھے ہیں ان میں اصل میں ایک اہم کوالٹی ہے جس کی وجہ سے سبھی ان کو ویلکم کرتے ہیں کہ یہ جھوٹ بہت صفائی سے بولتے ہیں اور جس کانفیڈنس سے بولتے ہیں کہ جھوٹ بھی سچ لگنے لگتا ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میں عمر فاروق نامی شخص کو جانتا تک نہیں ہوں جبکہ یہ سارا پنڈورا باکس کھولنے کے پہلے یہ مسلسل عمر فاروق کے رابطے میں تھے۔یہ باتیں بھی جانے دیجئے خود وہ پین گھڑی سیٹ، جو انہوں نے عمر فاروق کو بیچ ڈالے تھے میڈیا پہ آ کر بیان بھی تحائف کے ساتھ ریکارڈ کرا ڈالا اب تو اس کے بعد کوئی جواز بھی باقی نہ رہا کہ مزید کوئی کہانی گھڑی جائے آخر کب تک کہانیاں ہی سُنائی جائیں گی کرپشن کئے جانے پہ سزائیں کب سُنائی جائیں گی۔
یہ تمام کرپشن، چور بازاری، لوٹ کھسوٹ تب تک جاری رہے گی جب تک ہم اپنے ادارے غیر سیاسی نہ کر دیں گے اور ہماری ایگزیکٹو کلاس مطلب بیوروکریٹس بھی غیر سیاسی نہ ہو جائیں۔ملکی ڈگر کو درست سمت پہ لانے کے لیے یہ سب کرنا نہایت ضروری ہے۔ ورنہ ہم ان سیاسی لیڈران کو لگام نہیں ڈال سکیں گے۔ دوسرا پڑھے لکھے نئے ٹیلنٹ کو آگے لایا جائے اور اس ملک کو موروثیت کی غلامی سے نجات دلائی جائے تبھی بہتری آسکے گی۔

مصنف کے بارے میں