دنیا کی آبادی 8 ارب ہوچکی

دنیا کی آبادی 8 ارب ہوچکی

ہم پاکستانی اپنی داخلی سیاست میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں اپنے اردگرد اور دنیا میں ہونے والے واقعات کے بارے میں سوچنے اور غوروفکر کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ افغانستان سے 20 سال ذلیل و خوار ہونے کے بعد امریکی فوجوں کی ذلت آمیز واپسی ایک بہت اہم واقعہ ہے۔ طالبان نے اپنے جذبہ حریت اور مقاومت کے ذریعے دنیا کی سپریم طاقت کو عسکری ہزیمت سے دوچار کے کے حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا اور پھر افغانستان پر اپنا کنٹرول قائم کر دکھایا ہے اس واقعہ کے خطے میں اثرات مرتب ہو رہے ہیں لیکن ہمیں کچھ خبر نہیں ہے ہم اپنے ہی سیاسی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمارے خطے پر روس یوکرائن جنگ کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اجناس کی قلت ہو گئی ہے تیل گیس کی عالمی رسد متاثر ہو چکی ہے معاملات الٹ پلٹ ہو چکے ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں ہے ہم حال ہی میں ایک تباہ کن اور خوفناک سیلاب سے گزرے ہیں، 33 ملین افراد اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہماری زراعت اور صنعت و حرفت پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں ہمیں کچھ پروا نہیں ہے ہم اپنی ہی دھن میں اپنی سیاست میں لگے ہوئے ہیں، نگاہیں ایک دوسرے کو گرانے، ہرانے اور شکست سے دوچار کرنے پر مرکوز ہیں۔ اپنی فتح و نصرت کی فکر ہرگز نہیں ہے کیونکہ ہم نے مل جل کر سیاسی معاملات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ اب کسی کی بھی فتح ممکن نہیں ہے۔ ہماری قومی معیشت جاں بلب ہے آئی ایم ایف کی تلوار برہنہ ہماری قومی معیشت کے سر پر لٹک رہی ہے جبکہ انفرادی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ ملک کی کثیر آبادی نانِ جوین کے حصول میں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ایندھن کی قیمتیں تو بے قابو ہو چکی ہیں اشیا ضروریہ بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں کسی کو اس حوالے سے فکر نہیں ہے۔ حکومت، بلکہ حکومتیں، مرکزی و صوبائی اپنے اپنے معاملات بنانے اور سدھارنے میں لگی ہوئی ہیں۔ ریاستی ڈھانچہ لگتا ہے کہ ”ڈھانچہ“ ہی بن چکا ہے اس میں عمل کی طاقت مفقود ہو چکی ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ دنیا کی آبادی 8 ارب ہو چکی ہے گو 1960 سے افزائش آبادی کی رفتار کم ہو گئی لیکن اسی شرح سے آبادی میں بڑھوتی 2050 تک آبادی کو 10 ارب تک پہنچا دے گی۔
فکری و عملی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ ”وسائل“ لامحدود ہرگز نہیں ہیں اس لئے افزائش آبادی کو دیکھتے ہوئے ماہرین پریشان ہیں کہ اتنی بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنا ہرگز ہرگز ممکن نہیں ہو گا۔ ویسے تو گزشتہ سے پیوستہ صدی میں ایک بڑے ماہر سماجیات و عمرانیات مالتھس نے اسی فکر کو کہ محدود وسائل کے ساتھ لامحدود آبادی کی ضروریات پورا کرنا ممکن نہیں۔

ایک سائنسی نظریے کی شکل دی جسے ”مالتھس تھیوری“ کے طور پر پڑھایا جاتا رہا ہے۔ مالتھس کے نظریے کے مطابق وسائل 1، 2، 3، 4، 5 …… علی ھذا القیاس کی رفتار سے بڑھتے ہیں جبکہ آبادی 2، 4، 16، 256…… علی ھذا القیاس کے حساب سے بڑھتی ہے اس لئے بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کے درمیان عدم توازن انسانی معیشت کے لئے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ مالتھس نے اس لئے آبادی کو کنٹرول کرنے کی اہمیت پر زور دیا جیسے اقوام مغرب نے متبرک سمجھ کر اپنا لیا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں افرادی قوت کا قحط شدت اختیار کر چکا ہے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی اور یورپی ممالک افرادی قوت درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ قلت آبادی نے صرف افرادی قوت کے مسائل پیدا نہیں کئے بلکہ سماجی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں یہاں ان تمام مسائل کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کثرت آبادی کا شکار اقوام جیسا کہ چین، بھارت اور بنگلہ دیش تعمیروترقی میں دنیا کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں، چین ایک دیو کے طور پر عالمی معیشت پر چھا رہا ہے۔ ہندوستان کی کثرت آبادی، اسے اقوام عالم میں آگے بڑھنے سے روک نہیں سکی ہے۔ بنگلہ دیش بھی ایسی ہی مثال ہے۔ ملائیشیا، انڈونیشیا اور دیگر کئی ممالک نے اپنی کثرت آبادی کو ترقی کے ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے مالتھس کے نظریے کی نفی کر دی ہے۔
ماڈرن سائنسی و فنی اختراعات اور ایجادات کے باعث انسانی وسائل میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے زمین کی زرخیزی بڑھتے بڑھتے حیران کن حد تک جا پہنچی ہے۔ اجناس کی نئی نئی اقسام اور ان کی پیداواریت میں اضافے کے باعث درکار اجناس ہماری ضروریات سے زیادہ پیدا ہو رہی ہیں لیکن ہمارے نظام تقسیم کی ناہمواری کے باعث کہیں تو اشیا وافر درکار ہوتی ہیں اور کہیں طلب پوری نہیں ہو پاتی ہے ذرا غور کریں۔ 2011 کے سیلاب میں ہماری فصلیں تباہ ہو گئیں اجناس کے ذخیرے حتیٰ کہ بیج بھی سیلاب کی نذر ہو گئے۔ ہزاروں لاکھوں مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے لیکن اگلے سال بمپر کراپ ہوئی ہمارے ہاں دودھ، گوشت، انڈے وغیرہ کی قلت نہیں ہوئی۔
ہماری صنعتی ترقی کی بے ترتیبی اور کاربن کے بے پناہ اخراج نے موسمیاتی تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے قدرت کے نظام میں خلل پڑ چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے گاڑی ایندھن کے بے پناہ استعمال پر توجہ نہ دی اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کم کرنے بارے منصوبہ سازی نہ کی تو موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے ایکو سسٹم کو تباہ کر دیں گی۔ درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشیئرز کو تیزی سے پگھلا دے گا جس سے معاملات میں خرابی پیدا ہو گی۔ حال ہی میں ہمارے ہاں بارشوں کے باعث جو سیلاب آیا اور ا س نے 33 ملین افراد کو متاثر کیا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور ہماری قومی اور شخصی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث وقوع پذیر ہوا۔ ایسی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث عالمی سطح پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں دنیا کی دولت سمیٹنے کے لئے امیر اقوام اور ان کے امیر لوگ دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قدرت کے نظام کو برباد کرنے کی کاوشوں کو روکا جائے۔ وگرنہ تباہی و بربادی تو پہلے ہی جاری ہے، ماحول کی ہولناکی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا بڑا مسئلہ تقسیمِ دولت کے نظام کی ناہمواریاں اور ماحول کی تباہ کاریاں ہیں۔ ہم جتنی جلدی اس طرف توجہ دیں اتنا ہی بہتر ہے۔