سُہانی لڑکی بولی ”شکر ہے تم ایک سکول ماسٹر ہو“

سُہانی لڑکی بولی ”شکر ہے تم ایک سکول ماسٹر ہو“

انگریزی ادب میں ”گڈ بائے مسٹر چپس“ ایک مختصر ناول ہے جس کا شمار سدابہار تحریروں میں ہوتا ہے۔ اِسے ”جیمز ہلٹن“ نے 1933ء میں صرف چار دنوں میں لکھا۔ پاکستان میں بھی گیارہویں جماعت سے اوپر کا طالب علم اسے پڑھے بغیر اگلی جماعتوں میں نہیں جاسکتا۔ یہ ایک سکول ماسٹر ”چپس“ کی کہانی ہے جس نے 1870ء میں 22برس کی عمر میں ”بروک فیلڈ سکول“ کو جوائن کیا اور اپنی زندگی کے باقی 63برس اسی ادارے کے ساتھ جوڑ دیئے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد سڑک پار کرکے سکول کے سامنے والی بلڈنگ میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے لگا۔ اُس نے سکول کے بچوں سے اپنا تعلق آخری سانس تک جاری رکھا۔ وہ نئے آنے والے بچوں کو ہر شام چار بجے اپنے کمرے میں مدعو کرتا، اپنے ہاتھ سے چائے پلاتا اور سکول میں شام کی گھنٹی بجنے سے پہلے پورے پانچ بجے انہیں رخصت کردیتا۔ اُس نے یہ سلسلہ اپنی موت سے ایک رات قبل تک جاری رکھا۔ اپنی عمر کے 85برس تک پہنچتے ہوئے اُس کے جاننے والوں میں ایسا کوئی نہیں رہا تھا جو اُس کی آدھی زندگی قبل کے حالات کو جانتا ہو۔ سب اُسے ہمیشہ سے تنہا رہنے والا غیرشادی شدہ انسان سمجھتے تھے۔ یہ درست ہے کہ چپس 48برس کی عمر تک تنہا ہی تھا لیکن پھر اُسے ایک دن بے حد حسین، شوخ، چنچل، ماڈرن اور جھیل جیسی گہری نیلی آنکھوں والی 25سالہ تعلیم یافتہ ”کیتھی“ اتفاقاً مل گئی۔ اس ملاقات سے قبل چپس ایک خشک مزاج، کم گو، غیر منظم اور آدم بیزار معمولی ذہانت کا عام سا انسان تھا۔ وہ تبدیلی کو پسند نہیں کرتا تھا۔ کیتھی کا قریب آنا اُسے اسی لیے معیوب لگتا تھا مگر اُسے کہاں خبر تھی کہ اُدھیڑ عمری اور جوانی کا ملاپ 
بے حد کارآمد ہوتا ہے۔ یہی ہوا، کیتھی اُس کی ”ناں“ کو توڑ کر اُس کے گھر میں داخل ہوگئی۔ لندن اور بروک فیلڈ کے سب لوگوں نے دیکھا کہ کیتھی سے شادی کے بعد چپس کو نیا مزاج مل گیا۔ وہ ہنس مکھ، لطیفہ باز، منظم اور ہردل عزیز انسان بن گیا۔ شروع شروع میں جب اُس نے کیتھی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا تھا تو اُسے ایک خوف لاحق ہوا کہ پریوں جیسی دلفریب، انگلستان کی یہ لڑکی جس کے ایک اشارے پر اُمراء کا جلسہ عام منعقد کیا جاسکتا ہے کو جب معلوم ہوگا کہ وہ ایک سکول ماسٹر ہے تو وہ کیا ردعمل ظاہر کرے گی؟ آخر ایک دن اس نے ہمت کرکے کیتھی سے کہہ ہی دیا۔ یہ سن کر کیتھی اُس کی طرف مڑتے ہوئے جان کھینچ لینے والی مسکراہٹ اور بدن کو ڈھیر کر دینے والی نگاہوں سے تکتے ہوئے بولی ”اوچپس! پیارے چپس! میں بہت خوش ہوں کہ تم جو ہو۔ میں جب پہلی مرتبہ تم سے ملی تھی تو خوفزدہ تھی کہ کہیں تم ایک وکیل یا سٹاک ایکسچینج میں حصص کا کاروبار کرنے والے ایجنٹ یا ایک ڈینٹل سرجن یا مانچسٹر میں کاٹن کا بڑا کاروبار کرنے والے ایک بزنس مین نہ ہو۔ میرا مطلب ہے جب میں تم سے پہلی مرتبہ ملی تھی لیکن شکر ہے کہ تم ایک سکول ماسٹر ہو۔ سکول ماسٹر ہونا ایک بہت ہی مختلف کام ہے، بہت اہم کام ہے، بہت معزز کام ہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے چپس! ایک سکول ماسٹر ان بچوں پر اثرانداز ہوتا ہے جو بڑے ہو رہے ہوتے ہیں اور جنہوں نے کل دنیا پر اثرانداز ہونا ہوتا ہے“۔ چپس اور کیتھی کی شادی 1896ء میں ہوئی۔ دوسال بعد یکم اپریل 1898ء کو کیتھی نے چپس کے بیٹے کو جنم دیا مگر چپس کے لیے بے حد خوشی کا وہی دن بے حد منحوس بھی ثابت ہوا کیونکہ اُسی روز کیتھی اور اس کا نوزائیدہ بیٹا دونوں ہی چل بسے۔ چپس ان کے بعد 35برس تک اکیلے زندہ رہا اور 1933ء میں 85برس کی عمر میں مرا۔ اس دوران وہ بروک فیلڈ سکول کا افسانوی کردار بن چکا تھا۔ جنگِ عظیم اول میں جرمن ہوائی جہازوں کے گولے جب بروک فیلڈ سکول کے گراؤنڈ میں گر رہے تھے تب بھی اُس نے اپنی کلاس کو پڑھانا بند نہیں کیا۔ مرتے وقت بھی اُس کی زبان پر اپنے ہزاروں طالب علموں کے نام تھے۔ لوگ حیران ہوتے تھے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کے باعث چپس طالب علموں اور سکول سے اتنی بے لوث جذباتی محبت رکھتا ہے۔ دراصل یہ وہ عزت افزائی تھی، وہ اعتماد تھا جو ایک سہانی لڑکی نے برسوں پہلے معمولی سکول ماسٹر کو اپنے جملے میں دیا تھا کہ ”شکر ہے تم ایک سکول ماسٹر ہو“۔ دنیا کے ہر مذہب، ہر نظریئے اور ہر فلاسفی میں تعلیم کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور تعلیم دینے والے افراد یعنی اساتذہ کی بہت عزت و احترام کا حکم دیا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں آج بھی استاد کو اونچا مقام دیا جاتا ہے۔ وہاں اساتذہ کو معاشرے کا آئیڈیل بنانے کے لیے عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ فلموں، ڈراموں اور لٹریچر میں بھی انہیں ایک ہیرو یا ہیروئن بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ہم پاکستانی معاشرے میں صرف حکومت کو ہی تعلیم میں ابتری کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کیا ہم کسی اور کو نہیں بلکہ صرف اپنے آپ کو بتا سکتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اساتذہ کا کتنا مقام ہے؟ کیا فلموں، ڈراموں اور لٹریچر میں کبھی استاد کو ہیرو یا ہیروئن بنا کر پیش کیا گیا ہے؟ ہماری اکثر لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کا جیون ساتھی امیر اور بااختیار پروفیشن سے ہو۔ شادی کے خواہش مند اعلیٰ طبقوں اور اعلیٰ پروفیشن کے تمام رشتوں کو رَد کرتے ہوئے کیا کبھی کسی دلفریب لڑکی نے ایک استاد کو ترجیح دی ہو اور کہا ہوکہ ”شکر ہے تم ایک سکول ماسٹر ہو“۔

مصنف کے بارے میں