فوج کو نیب قانون سے استثنیٰ کیوں دیا گیا؟ عمران خان نے فوج کے احتساب کا نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ جسٹس منصور علی شاہ 

فوج کو نیب قانون سے استثنیٰ کیوں دیا گیا؟ عمران خان نے فوج کے احتساب کا نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ جسٹس منصور علی شاہ 
سورس: file

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ کہ پاک فوج کو نیب قانون سے استثنیٰ کیوں دیا گیا ہے؟ سارا پیسہ اور کاروبار تو فوج کے پاس ہے، فوج احتساب سے بالاتر ہے؟ عمران خان نے فوج کے احتساب کا نکتہ درخواست میں کیوں نہیں اٹھایا؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بنچ نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نئی ترامیم کے بعد نیب قانون سے بچ نکلنے پر دوسرے قانون میں پھنس جائے گا، آپ کے دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ احتساب کے لیے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔ تاہم جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث احمد نے مؤقف اپنایا کہ نیب ترامیم کے ذریعے نجی افراد کے جرائم کو نکال دیا گیا ہے۔  مدن سے زائد اثاثہ جات کا جرم نیب کا ہے مگر اس جرم کی ہیئت کو ترامیم کے ذریعے تبدیل کردیا گیا ہے۔ آمدن سے زائد اثاثہ جات پر اس وقت کارروائی ہوگی جب کرپشن ثابت ہو۔

چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ترامیم سے کئی جرائم کو ڈی کرمنلائز کر دیا گیا ہے؟ ریمانڈ کتنا ہو ضمانت کیسے ہو گی، ان ترامیم پر آپ کا اعتراض نہیں۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ اچھی ترامیم ہیں ان پر اعتراض نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات سمیت جو جرائم نیب قانون سے نکالے گئے، کیا ان جرائم کے خلاف دوسرے قوانین موجود ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرائم کو ختم کر دیا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کا جرم آج بھی موجود ہے۔ کیا عدالت اب قانون کے ڈیزائن کا جائزہ بھی لے گی؟ خواجہ حارث احمد نے کہا کہ نیب ترامیم میں یہی تو ’کلرایبل ایکسرسائز‘ ہوئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کے ساتھ چالاکی کو کیسے منسوب کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں درست ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کروائے جاتے، ایسے میں اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں۔ آمدن سے زائد اثاثہ جات میں کرپشن یا بے ایمانی کا ہونا بھی ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کل کو کوئی عدالت آ کر کہے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات پر پھانسی ہونی چاہیے۔ جرم ثابت کرنے کا بوجھ کتنا اور کس پر ہو گا یہ بحث عدالت میں نہیں پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔ نیب قانون کے مطابق ججز کو استثنیٰ نہیں، ججز کے حوالے سے کوئی پردہ داری ہو تو علیحدہ بات ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنیٰ نہ ملا ہو۔ اُنھوں نے کہا کہ تحصیل کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنیٰ ہو گئے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مالی فائدہ ثابت کیے بغیر کسی فیصلے کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔بظاہر افسران اور عوامی عہدیداران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث احمد نے کہا کہ ’ایسے فیصلہ سازوں‘ سے ہی ماضی میں آٹھ ارب سے زائد کی ریکوری ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ریکوری عوامی عہدیداران سے ہوئی تھی جس پر خواجہ حارث احمد نے کہا کہ عوامی عہدیداروں کے لیے پیسے لینے والوں سے ریکوری ہوئی تھی۔ جسٹس شاہ نے کہا کہ ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہی ہے۔

خواجہ حارث احمد نے کہا کہ جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں مگر مخصوص افسر کو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پر کارروائی نہ ہونا غلط ہے اور نئی ترامیم کے بعد نیب کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر بھی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ۔

مصنف کے بارے میں