امریکہ، پاکستان اور طالبان……!

Sajid Hussain Malik, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ طالبان شوریٰ کی چُنی ہوئی ستائیس رکنی کابینہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے، لیکن ابھی تک پاکستان سمیت دنیا کے کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ کیا کسی کو کسی اور (طالبان) کا امتحان مقصود ہے۔ کیا طالبان ابھی تک امریکہ بہادر جسے دنیا کے ٹھیکیدار کے سامنے اپنی نیک چلنی کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے ہیں۔ کیا طالبان کی کابل میں حکومت قائم ہونے سے بھارت میں نیچے سے اوپر تک حکومتی اور ریاستی سطح پر صف ماتم نہیں بچھی ہوئی ہے۔ کیا میڈیا کے حلقوں، نیوز چینلز اور اخبارات میں طالبان کی حکومت اور طالبان قیادت کے اس لئے لتّے نہیں لئے جا رہے ہیں کہ کابل میں طالبان حکومت اور پورے افغانستان میں طالبان کی عملداری کو پاکستان کے لئے ہوا کے ایک ٹھنڈے جھونکے کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ آخر دنیا کے ممالک بالخصوص امریکہ اور مغربی ممالک کو طالبان سے کیا مسئلہ ہے کہ وہ ان کی جائز اور قانونی حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آخر پاکستان اور اسلامی ممالک امریکی دباؤ کا شکار ہو کر طالبان سے راہ و رسم بڑھانے سے گریز کیوں کر رہے ہیں۔ آخر پاکستان کے وزیراعظم کو اس طرح کی بیان بازی کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ ”افغانستان مخلوط حکومت یقینی بنائیں گے“ آخر آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ طالبان کو ایسی باتوں پر عمل کرنے پر مجبور کریں جن سے وہ اجتناب برتنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی حدود میں کیوں نہیں رہنا چاہتے۔ طالبان میں حقانی نیٹ ورک جس کی طالبان کی جدوجہد اور امریکی یلغار کے مقابلے میں مزاحمت میں انتہائی اہم کردار رہا ہے اور جسے دنیا طالبان کے حلقوں میں پاکستان کا ایک مضبوط قلعہ تصور کرتی ہے۔ کیا طالبان حکومت میں حقانی گروپ کے چار وزراء کی شمولیت اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ طالبان قیادت پاکستان کے احسانات اور قربانیوں کو کسی صورت فراموش کرنے والی نہیں ہے۔ آپ یعنی پاکستانی قیادت اور کیا چاہتی ہے۔ کیا آپ خود امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی راہ اختیار کرتے ہوئے طالبان کو بھی اسی راہ پر چلانا چاہتے ہیں۔
عالمی برادری کی طرف سے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ممالک کے طالبان کے بارے میں کچھ ایسے خودساختہ خدشات، تحفظات اور احساسات ہیں جو کوئی ایسے نئے نہیں ہیں بلکہ طالبان کے 1997 سے 2001 تک کے افغانستان میں دورِ حکمرانی کے وقت سے چلے آ رہے ہیں اور عالمی برادری انہیں فراموش کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ خدشات، تحفظات اور احساسات کس حد تک حقیقت پسندانہ اور جائز ہیں اور معروضی حالات و واقعات کی ترجمانی اور عکاسی کرتے ہیں۔ اس بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھے تو اسے اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ دو عشروں کے طویل عرصے کے دوران پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی ہی نہیں بہہ چکا ہے بلکہ معروضی حالات و واقعات اور طالبان کی سوچ اور انداز فکروعمل میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ کیا پورے افغانستان میں طالبان کی مکمل عملداری قائم ہونے اور کابل میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد، طالبان کی وسعت نظری، عفوودرگزر، معاملات کو دانائی اور افہام و تفہیم سے لے کر چلنے، کٹڑ مخالفین کی جان بخشی کرنے اور افغانستان کو خانہ جنگی اور بدامنی کی راہ سے بچانے کے لئے طالبان کی طرف سے کی جانے والی سنجیدہ اور پُرخلوص کوششوں کو کوئی نظرانداز کر سکتا ہے۔ کیا طالبان نے کسی کو نوکری سے نکالا ہے، تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کو بند کیا ہے، کسی لوٹ مار میں حصہ لیا ہے، بدعنوانی اور کرپشن کی راہ کھولنے کی کوشش کی ہے۔ کفایت شعاری سے کام لے کر ملکی انتظام و انصرام کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری نہیں رکھی ہیں۔ کیا انہیں اس بات کی فکر نہیں کھائی جا رہی ہے کہ دنیا کے ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک سے ان کے بہتر تعلقات قائم ہوں اور وہ افغانستان میں ایسی مضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوں جسے وسیع تر حمایت اور 
تائید حاصل ہو اور افغانستان امن و امان کا گہوارہ بن سکے۔ طالبان کو اس وقت اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے اور حکومتی انتظام و انصرام چلانے کے لئے وسائل اور مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ اگر امریکہ بینک آف افغانستان کے نو بلین ڈالر کے ذخائر پر قبضہ جمائے رکھتا ہے اور ترقی یافتہ اور باوسائل ممالک طالبان کی حکومت کی مدد نہیں کرتے ہیں تو پھر یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ طالبان اپنی حکومت اور عوامی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ نتیجتاً بدامنی، بدانتظامی اور بھوک و افلاس کی کارفرمائی ہو گی جو لامحالہ خانہ جنگی تک پہنچ جائے گی۔ دنیا کو چاہئے کہ وہ اس طرف توجہ دے۔
طالبان اور افغانستان کے موجودہ حالات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کچھ حقائق کو نظرانداز نہ کریں۔ بلاشبہ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حیثیت فاتح کی ہے۔ آج سے تقریباً بیس برس قبل نائن الیون کے المناک سانحے کے بعد امریکہ نے افغانستان کو تہہ و بالا کرنے، اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور اسے تاراج کرنے کا منصوبہ بنایا تو کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک طویل عرصے تک دنیا کی واحدسپر پاور اور اس کے اتحادیوں کے جدید ترین ہتھیاروں اور گولہ بارود کا نشانہ بننے، قلعہ جنگی، بگرام اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں میں بدترین ظلم و ستم اور ننگ انسانیت بہیمانہ سلوک کا سامنا کرنے، ہوا بند کنٹینروں میں بند دم گھٹنے سے موت کا شکار ہونے، دوستی کا دم بھرنے والے ہمسایہ ملک سے اُڑ کر آنے والے جدید ترین جنگی اور بمبار طیاروں کے ہزاروں کی تعداد میں فضائی حملوں، کارپٹ بمباری کا نشانہ بننے اور تورابورا پہاڑوں کے ڈیزی کٹر بموں کی بماری سے ریزہ ریزہ اور بھسم ہونے اور آتش و آہن کی بارش اور ڈرون حملوں سے اپنے جسموں کے ٹکڑے کروانے کے باوجود لمبے کرتوں، بھاری شلوارو، کالی عباؤں اور موٹی پگڑیوں میں ملبوس گھنی سیاہ ڈاڑھیوں والی یہ مخلوق ایک بار پھر اس طرح ابھر کر سامنے آئے گی کہ افغانستان کے طول و عرض میں شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک کلمہ طیبہ کی پاکیزہ عبارت سے مزین پرچم ہر طرف لہراتا نظر آئے گا۔ دنیا حیران، پریشان ہی نہیں رہ جائے گی بلکہ دنیا کی واحد سپرپاور، دو عشروں تک کھربوں ڈالر افغانستان میں جھونکنے، اپنے اور اتحادیوں کے ہزاروں فوجیوں کی جانی قربانی دینے اور افغانستان کے کوہساروں، ریگ زاروں اور بنجر اور غیرآباد میدانوں اور خشک وادیوں کو اپنے جدید ترین ہتھیاروں کا مرقد بنوانے کے باوجود اس طرح بے نیل و مرام یہاں سے پسپائی اختیار کرے گی کہ اسے اپنے عوام سے منہ چھپانے کے لئے جگہ دستیاب نہیں ہو گی۔
امریکہ بلاشبہ دنیا کی واحد سپرپاور یا بہت بڑی طاقت ہے لیکن اس وقت اس کی حالت زخمی سانپ کی ہے جو اپنے زخموں کو بچانے کے لئے کبھی اِدھر دم پٹخ رہا ہے کبھی اُدھر۔ اگلے روز اس کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے امریکی ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ امریکہ آنے والے ہفتوں میں پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا اور یہ دیکھے گا کہ واشنگٹن پاکستان سے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کس کردار کا متمنی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پاکستان کے بہت سارے مفادات ہیں جن میں سے بعض امریکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ پاکستان نے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف ہمارے ساتھ تعاون کیا اور طالبان کے ارکان بشمول حقانی نیٹ ورک کے افراد کو پناہ بھی دی۔ امریکی وزیرخارجہ کے یہ حالات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونے چاہئے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم امریکی بالادستی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکیں اور وہی کچھ کریں جو ہمارے ملکی اور قومی مفاد میں ہو۔ امریکہ کی طرف سے ڈومور اب قصہ پارینہ بن جانا چاہئے۔