11ستمبر 2021ء

Amira Ehsan, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

بیس طویل ترین سالوں کے بعد تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی ہے۔ 11/9، 11 ستمبر 2001ء امریکی تاریخی کے نہایت غیرمعمولی دنوں میں سے ایک ہے۔ ہر سال یہ دن اہتمام سے منایا جاتا رہا۔ 2021ء کے لیے امریکی فوج کا انخلا دوحہ معاہدے میں طے پا گیا تھا…… بعد از خرابیئ بسیار۔ بائیڈن نے پہلے انخلا ستمبر کے لیے طے کیا۔ تاہم تیزی سے بدلتے حالات کے تحت باگرام یکایک رات کی تاریکی میں چھوڑ بھاگنے کی کیفیت کے بعد جو نفسیاتی افراتفری امریکا کے حواس پر طاری ہوئی، وہ 15 اگست تک پہنچتے انتہا کو چھو رہی تھی۔ اگلے 15 دن کابل ایئرپورٹ پر محصور امریکی اور امریکا جانے کے لیے مر مٹنے والے افغان، عالمی منظرنامے پر بدنظمی کے بے ہنگم مظاہرے کی قابل رحم تصاویر دکھا رہے تھے۔ اتنے اہتمام اور کڑک گرج چمک کے ساتھ ’پائیدار آزادی‘ کا مشن لے کر اترنے والی گھمبیر عفریتی طاقت، عملاً  11/9 سے پہلے ہی نو دو گیارہ کی کیفیت میں بھاگ رہی تھی۔ اس پر جتنا بھی حیرت کا اظہار ہو، وہ کم ہے۔ امریکا وہ طاقت ہے جس کے 750 فوجی اڈے دنیا کے 80 ممالک میں قائم ہیں۔ صرف جاپان میں 120 امریکی اڈے ہیں۔ مشرق وسطی میں 32 اڈے (بحرین، کویت، سعودی عرب) قطر میں 60 ایکڑ پر محیط بہت بڑا اڈا ہے، جہاں 100 جہاز اور ڈرون موجود رہتے ہیں! اور پھر افغانستان میں امریکا تنہا نہیں اترا تھا۔ جارج بش نے یہاں فوج اتارتے ہوئے 7 اکتوبر 2001ء کی تقریر میں بتایا تھا کہ ’ہمارے ساتھ ہمارا دیرینہ دوست برطانیہ ودیگر قریبی دوست کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، فرانس نے فوجیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ 40 سے زیادہ ممالک مشرق وسطی، افریقہ، یورپ ایشیا بھر سے ہمیں فضائی راستہ ومتعلقہ حقوق و سہولیات دے رہے ہیں۔ مزید بہت سے ممالک نے حساس معلومات مہیا کرنے میں مدد دی ہے۔ ہم پوری دنیا کی اجتماعی حمایت کے حامل ہیں۔‘ 
یہ حملہ ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کے لیے ہوا تھا۔ یقینا 20 سال بعد نقشہ یکسر بدل رہا ہے مگر آنجناب کے حسب منشا نہیں۔ سب کچھ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ بالخصوص عورت اور ثقافت، نیز جمہوریت تو اولین اہداف تھے۔ اس 11/9 پر افغانستان کا منظر یہ بنا کہ پہلے تو کابل، ہرات میں سول سوسائٹی برانڈ چیختی چلاتی چند درجن خواتین نے ایک دو آزادی طلب مظاہرے کیے جنہیں عالمی میڈیا نے بڑھاچڑھاکر پیش کیا، تاہم 11 ستمبر کو کابل میں 300 یونیورسٹی کی طالبات اور خواتین اساتذہ پر مشتمل مکمل باحجاب مظاہرہ ہوا۔ جس پر نیویارک ٹائمز نے سسک کر تبصرہ کیا: ’باپردہ احتجاج امریکا کا اثر ورسوخ ختم ہوجانے کا آئینہ دار ہے۔‘ برطانوی دفاعی امور کے ماہر پروفیسر انتھونی گلیز نے امریکی جنگ کے خاتمے کو اسلام پسندوں کی فتح قرار دیا۔ بیس سال اس جنگ میں ڈھائی کھرب ڈالر اور افغان فوج پر ایک کھرب ڈالر لٹاکر عورت کو دلائی گئی حیا، حجاب سے آزادی بیس دن بھی نہ چل سکی؟ افغان سول سوسائٹی پر امریکا نے 168 ارب ڈالر لگائے جس سے چند درجن آزادی طلب خواتین (وہ بھی اسکارف عبایا پہن کر!) نے احتجاج کیا اور ٹائیں ٹائیں فش؟ پورا افغانستان امریکا کے چھوڑے ہوئے عسکری ساز وسامان کا گودام بنا پڑا ہے۔ صرف ایئرپورٹ پر چھوڑی گئی 70 آر مرڈ گاڑیوں میں سے ہر ایک کی قیمت 10 لاکھ ڈالر ہے۔ 6 لاکھ انفنٹری ہتھیار افغان فوج کو دیے گئے تھے۔ 2 ہزار ہمویوں سمیت بکتر بند گاڑیاں طالبان کے پاس ہیں۔ طالبان نے اتنی ناقابل یقین قوت کو بلاہینگ پھٹکری، مکڑی کے جالے کی طرح اتار پھینکا؟ آج پوری دنیا کے اعصاب کو جو سوال ماؤف اور شل کیے دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان کی قوت 
کا راز کیا ہے؟ ایک جواب تو اقبال جانے سے پہلے اسلامی تاریخ کے آئینے میں جھانک کر دورِ صحابہؓ سے لے کر یوسف بن تاشفین اور صلاح الدین ایوبی کو دیکھ کر دے گئے تھے: یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن، قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن!
اسی راز میں سربستہ ایک اور راز بھی ہے۔ وہ یہ کہ طالبان کی فتح کے پیچھے افغان عورت کا ہاتھ ہے! جو ماں ہے، بیوی، بیٹی ہے، بہن ہے! اسے سمجھنے کے لیے دل دماغ پر صدیوں کی غلامی کا لگا رنگ اور چھایا غبار دھوکر رجوع الی القرآن درکار ہے۔ قرآن نے ابتدائی سورتوں ہی میں مرد وزن کا باہمی رشتہ طے کردیا۔ بقرۃ، آل عمران، نساء میں۔ ہم جنس، ایک ہی ماں باپ (ڈاروینی بندر، بندریا سے نہیں) کی اولاد، جن میں سے باپ نبوت کے منصب پر سرفراز، خود رب تعالیٰ کے ہاں سے ابتدائی تعلیم وتربیت سے نوازکر اس سیارے پر اتارا، آباد کیا گیا۔ تعلیم کے تکمیلی مراحل، حضرت جبریل امین، بلند مرتبت کے ذریعے طے پائے۔ نظام معاشرت، مرد وزن باہم تعلق، فرائض وذمہ داریاں خود خالق نے طے فرما دیں۔ مسلمان حقوق کا مارا ہوا خودغرض خود پرست نہیں، فرائض پر نظر جماکر جواب دہی سے لرزاں وترساں انسان ہوتا ہے۔ دونوں اپنے فرائض کے ضمن میں اللہ کے حضور جوابدہ ہیں۔ دنیا میں صرف میرا حق، میرا حق چلاتی عورت قبر میں اترتے ہی اک غیرمتوقع دنیا سامنے آنے پر ہک دک (متعجب، متاسف، سکتے کے عالم میں!) رہ جاتی ہے۔ مگر تنہا، بے یار ومددگار، لاحاصل خدانخواستہ! یہ پڑھے لکھے افغان مرد وزنتھے (قرآن سے نابلد مہا ناخواندہ ہوتا ہے، خواہ کتنی ڈگریوں کے کاغذ رکھتا ہو، اشرف غنی کی طرح) جنہوں نے افغانستان کے طول وعرض میں کچے سادہ گھروں میں امارت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ لوازم فتح میں جہاں ایمان وتقویٰ ہیں، وہاں مرد کی شخصیت غیرت اور عورت کا خمیر حیا پر تشکیل پاتا ہے۔ اقبال نے یونہی تو نہ کہا تھا:
 غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ ودو میں 
درویش کو پہناتی ہے تاجِ سرِ دارا……
آج دارائے دوراں بائیڈن کا سر جھکا ہوا ہے۔ امریکی جھنڈا لپیٹا جا چکا ہے اور افغانستان کے طول وعرض پر لاالہ الااللہ کی حکمرانی ہے، تو یہ غیرت، حیا شانہ بشانہ کا نتیجہ ہے جو ایمان وتقویٰ میں پھلی پھولی ہے۔ حیا دار وفا شعار عورت جسے محرم دائرے سے باہر میلی نگاہ تو کیا میلی ہوا بھی چھو کر نہیں گزرتی، اقبالی فارمولے پر…… در آغوش شبیرےؓ بگیری۔ اسی کی گود رب تعالیٰ حسنؓ و حسینؓجیسے لعل و گہر سے بھر دیتا ہے جو حق کیلئے کٹ مرنے کی جان اپنے پیکر خاکی میں لیے ہوتا ہے صورتِ حسینؓ۔ جب صلح پر آئے تو انانیت کی جگہ تقاضاہائے شریعت اور مسلمانوں کی فلاح مقدم رکھ کر سراپا حلم وعفو ودرگزر حسن رضی اللہ عنہ ہوتا ہے! حقیقی مسلم معاشرے کی فضا پاکباز عورت کے پردے کی بنا پر سکینت، راحت، باہمی احترام سے عبارت ہوتی ہے۔ بچے صحت مند، پرسکون، محفوظ فضا میں اعلیٰ مقاصد کے لیے قرآن وسنت کے سائے تلے انبیاء کرامؑ، صحابہ صحابیات رضوان اللہ علیہم کے ذی شان نمونہ ہائے عمل پر پل رہے ہوتے ہیں۔ 
حیا کیا ہے؟ کہ ’تو سر اور سر میں آنے والے خیالات کی بھی حفاظت کر!‘ (ترمذی) یہ نبوی میراث کردار سازی میں بنیادی عنصر ہے جس سے مسلم معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ 8 اکتوبر 2001ء تا 30 اگست 2021ء کی بڑے شہر کی افغان عورت (جن میں سے بیشتر این جی اوز کے لیے مغربی ممالک میں رہنے والیاں امریکی بارات کے  ہمراہ یہاں آکر آباد ہوئی تھیں ڈالر بٹورنے۔) آپ دیکھنا چاہیں تو وہ ہمارے ہاں کی سول سوسائٹی موم بتیوں یا ٹک ٹاکروں جیسی ہی ہیں۔ عورت جب یہ روپ دھارتی ہے تو مرد ریمبو بن جاتا ہے یا ظاہر جعفر۔ یا وہ وحشی، اجڈ، حیا اور غیرت سے عاری، 14 اگست کا مینار پاکستان کا ہجوم بنتا ہے جو ایک ٹاک ٹاکر لڑکی کو گیند کی طرح اچھالتا اور حیا تار تار کرتا ہے۔ عورت کا یہ روپ مرد کے اندر بھیڑیے کو جگاتا، پالتا پوستا ہے۔ ایسا انتشار، ہیجان، وحشت، درندگی پورا معاشرہ اجاڑ دینے کو کافی ہوتی ہے۔ قوم کی تباہی کا سامان ایسی عورت، اس کی چھب، عشوے غمزے، کم لباسی میں رکھا ہے۔ فکر ونظر، کردار سازی کا گزر حیوانیت زدہ اس معاشرے میں کہاں جہاں ٹائٹس کی نحوست پورے معاشرے کے حواس میں جھنجناہٹ بھر دے۔ کہیں غم وغصے اور غیرت کی اور کہیں وحشی جذبات کی۔ مرد مسلسل اس ماحول میں رہ کر تعمیری پاکیزہ صلاحیتوں سے عاری ہوجاتا ہے۔ 
ہمارے لکھاری ٹک ٹاکر کو ’حوا کی بیٹی‘ لکھ لکھ کر مرثیہ خوانی کرتے رہے۔ حالانکہ ہر دو لعنت۔ اچھالنے والے بھی، اور خود کو صلائے عام بناکر قصداً ان کے حوصلے آزمانے، للکارنے والی کے لیے بھی۔ (حدیث میں ناظر ومنظور پر لعنت کی گئی ہے۔) سافٹ امیج کے سرابوں نے ہمیں یہ دن کھائے۔ یومِ آزادی پر رکشے پر جانے والی عورت محفوظ، نہ کمسن بچے بچیاں، یہ دو یوم آزادی ساتھ ساتھ چلے۔ 14 اگست مینار پاکستان والا اور 15 اگست فتح کابل والا۔ بیس سال کا حاصل! صاحب ایمان افغان عورت ہر روپ میں طالبان کے پس پشت عزیمت کا پہاڑ بن کر یتیمی، بیوگی، بھوک افلاس سہتی رہی۔ وہ اس عظیم انقلاب میں ’مومن مرد اور مومن عورت ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ التوبہ۔ آیت 71 کے مصداق عزت مآب تاریخ ساز عورت ہے۔ طالبانی فتح کا راز اس کی پاکبازی اور مصابرانہ رفاقت میں ہے!