دھیرے دھیرے بدلتا سیاسی منظرنامہ

دھیرے دھیرے بدلتا سیاسی منظرنامہ

ہر کوئی سوچ کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے کہ وہ اس مہنگائی کی لہر کا مقابلہ کیسے کرے جو لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتی جا رہی ہے مگر اسے کوئی تدبیر نہیں سوجھ رہی لہٰذا اس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلاجا رہا ہے۔ ادھر بجلی کے بلوں نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ملکی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قاعدے اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بجلی کے دام بڑھا دیے جائیں مگر اب آئی ایم ایف کی کڑی شرط کے آگے سر جھکانا پڑ رہا ہے کیونکہ اس کے حکم کو نہ ماننے کا مطلب لال جھنڈی ہے لہٰذا حکومت طوعاً و کرہاً اضافے پے اضافہ کرنے پر مجبور ہے جس سے لوگوں میں اضطراب اپنے عروج پر ہے مگر وہ کر کچھ نہیں سکتے کچھ کرنے کا ارادہ کریں گے بھی تو ان کو آئین و قانون پڑھا دیا جائے گا جبکہ اہل اقتدار کو سب کچھ بھولا ہوا ہے۔
یہ درست ہے کہ ملک کی معیشت بدترین صورتحال سے دو چار ہے جسے سنبھالا دینے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ جس کے پاس عوام کا پیسا ہے اس میں سے کیوں قومی خزانے میں جمع کرانے پر آمادہ و تیار نہیں بس یہی وہ بات ہے جو چوبیس کروڑ عوام کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔
جو کوئی بھی آتا ہے اپنے اقتدار کو محفوظ و مضبوط بنانے ہی کا سوچتا ہے واشنگٹن کی خواہشات و مفادات کو پیش نظر رکھتا ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے احکامات کو ملحوظ رکھتا ہے جس سے عوام کی امنگوں اور سپنوں کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے یہ سلسلہ نجانے کب ختم ہو گا کچھ معلوم نہیں ہاں اگر عوام یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اب انہیں اور حکمران طبقات کے ستموں کا نشانہ نہیں بننا تو پھر یقینی طور سے سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے وگرنہ یہ اشرافیہ کے مظالم اسی طرح جاری رہیں گے لوگوں کی جمع پونجیاں ان کی تجوریوں میں منتقل ہوتی رہیں گی یوں انہیں جھکنے پر مجبور کیا جاتا رہے گا انہیں زندگی کی آسائشوں سے بھی محروم کیا جاتا رہے گا لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ عوام نعرہ مستانہ بلند کر دیں اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کے راستے پر چل پڑیں۔ 
یہ ظلم کی انتہا نہیں کہ معاشی حالت کی خرابی کی آڑ میں غریب بے بس عوام کی چمڑی ادھیڑی جا رہی ہے ان کے پاس اتنی رقوم کہاں سے آئیں کہ ان کا پہلے ہی بُرا حال ہے دواؤں کے لیے بھی وہ ترس رہے ہیں تعلیم کے لیے بھی ان کے پاس پیسے نہیں غذا انہیں مکمل میسر نہیں اوپر سے مہنگائیوں کی آکاس بیل نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے بہرحال یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اشرافیہ عوام کی خیر خواہ نہیں اسے ان کی مشکلات سے معمولی سی بھی دلچسپی نہیں لہٰذا پورے ملک میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ دوسری طرف سیلاب ہے، جس نے گھروں کے گھر برباد کر دیئے ہیں۔ بے یار و مددگار لوگ سسک رہے ہیں ان میں صورت حال سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی مگر افسوس ہمارے سیاستدان و حکمران اس پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں سیلاب نے تباہی پھیلائی ہے وہاں جو راشن، کپڑے اور خیمے پہنچائے جانے تھے جنہیں باہر کے ممالک نے بھیجا تھا ان میں سے زیادہ تر وڈیروں کے ڈیروں پر پہنچا دیا گیا ہے کچھ بازار میں بھی فروخت ہونے لگے ہیں یہ حال ہے ہمارا جسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور حیران ہو رہی ہے کہ اشرافیہ کس قدر بے حس ہو چکی ہے مگر رفاہی و فلاحی تنظیمیں سیلاب سے متاثرہ افراد کو ضروری اشیاء فراہم کر رہی ہیں اللہ اکبر تحریک، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ اور الخدمت والے اپنے تئیں پوری ہمت اور کوشش سے متاثرین کے دکھوں کو کم کرنے میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تو وقتی طور ہے مستقلاً ان کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اب آتے ہیں ملکی سیاست کی طرف کہ پل پل صورت حال بدل رہی ہے تجزیہ نگار کبھی حکومت کو گھر بھیج رہے ہیں تو کبھی اسے مقررہ مدت تک قائم بتا رہے ہیں مگر یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو گا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کے بعد اس کی اہمیت بہت کم ہو گئی ہے لہٰذا اس نے جو اقتدار کے مزے لوٹنا تھے لوٹ لیے اب کسی اور کے آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے جو آ کر پہلے والی حکومت کو بُرا بھلا کہہ کر نئے سخت فیصلے کرنے کا مجاز ہو گا جو تھوڑے ہی عرصے میں غیر مقبول ہو کر کسی اور کے لیے راہ ہموار کر دے گا۔
یہ کیسی سیاست ہے اور کیسا دستور ہے کہ عوام کو ہر کوئی نظر انداز کر رہا ہے اگرچہ سبھی عوام عوام ہی کی گردان کر رہے ہیں مگر مخلص کوئی نہیں سبھی انہیں اذیتیں دے رہے ہیں ان کی رگوں سے خون کشید کر رہے ہیں واشنگٹن کو راضی رکھنے کے لیے غیر عوامی فیصلے کر رہے ہیں جو مجموعی طور سے لوگوں کو جیتے جی مار رہے ہیں یہ لاتعلقی کی آخری حد کو چھو رہے ہیں انہیں کسی پے رحم آتا ہے نہ ترس۔ پتھر بن گئے ہیں۔ دل تو ان کے سینوں میں ہے ہی نہیں لہٰذا بات وہی ہے کہ جب تک یہ خود آگے نہیں آتے یعنی اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے یہ لوگ انہیں جینے نہیں دیں گے ان کی زندگیوں میں اسی طرح زہر گھولتے رہیں گے۔ بڑی طاقتوں کی آشیر باد سے حکمرانی کرتے رہیں گے۔ بھاری رقمیں جو انہوں نے عوام سے ہتھیائی ہیں، احتساب کے اداروں کے اختیارات محدود کر کے قانونی بنا کر موج مستی کرتے رہیں گے اس طرح یہ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہوئے عوام کو بیوقوف بنانے گا سلسلہ جاری رکھیں گے مگر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا ہر رنگ ہر پینترہ اور ہر روپ اب انہیں (عوام) اندھیرے میں نہیں رکھ سکے گا کیونکہ سوشل میڈیا ان کے سوچ کے ہر زاویے کو آشکار کر رہا ہے اگرچہ یہ پابندیوں کا ہتھیار بروئے کار لا رہے ہیں مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہاں البتہ یہ ریاستی طاقت سے ضرور انہیں جھکا سکتے ہیں مگر لگ رہا ہے کہ اب پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے سیاسی منظر نامے میں دھیرے دھیرے تبدیلی آ رہی ہے۔

مصنف کے بارے میں