پنجاب میں انتظامی بحران؟

پنجاب میں انتظامی بحران؟

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ایک انتظامی بحران کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے،پنجاب کو انتظامی عہدوں پر تعیناتیوں کے لئے وفاقی افسران دئیے جا رہے ہیں نہ اس معاملے میں انکی سنی جا رہی ہے، کلیدی عہدوں پر تعیناتیاں کسی بھی نئی حکومت کا حق ہوتا ہے مگر وفاق صوبے میں نوے کی دہائی کا ابتدائی دور واپس لانا چاہ رہا ہے جب وفاق میں آج ہی کی طرح مسلم لیگ (ن)کی حکومت تھی اور پنجاب میں جونیجو لیگ کا وزیر اعلیٰ تھا،وفاق اور پنجاب میں چیف سیکرٹری،آئی جی کی تعیناتی کے لئے کوئی ایک دوسرے کی سننے کو تیار نہ تھا، پولیس کے مقابلے میں رینجرز کی تعیناتی سمیت دوسرے متحارب اقدامات اٹھائے جا رہے تھے۔انتظامی اور سیاسی طور پر وہ ایک اچھا دور نہیں گنا جاتا،آج بھی ایسے ہی حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔
چیف سیکرٹری کامران علی افضل،پنجاب میں مزید کام نہیں کرنا چاہتے وہ چھٹی پر چلے گئے ہیں، وہ کیوں کام نہیں کرنا چاہتے،یہ راز اب سب پر عیاں ہو چکا ہے، انکی ٹیم کا ایک اہم حصہ سیکرٹری خزانہ افتخار امجد پہلے ہی پنجاب چھوڑ کر وفاق جا چکے ہیں، اب ایڈیشنل چیف سیکرٹری شہریار سلطان،سیکرٹری زراعت علی سرفراز حسین کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے،یہ سب اچھے اور محنتی افسر ہیں۔ پنجاب نے روزمرہ کے انتظامی کام نمٹانے کے لئے پنجاب پی اینڈ ڈی بورڈ کے چیئرمین عبداللہ خان سنبل کو تیس ستمبر تک چیف سیکرٹری کے عہدے کا لک آفٹر چارج دے دیا ہے، اسی طرح پنجاب کے اکثر انتظامی معاملات اب ایڈیشنل چیف سیکرٹری کیپٹن اسد اللہ خان کے حوالے ہیں،یہ دونوں بھی بہترین افسر ہیں۔ پنجاب نے وفاق کو نئے چیف سیکرٹری کی تعیناتی کے لئے تین ناموں کا ایک پینل بھی بھیج رکھا ہے جو ابھی تک جوں کا توں ہے، وزیر اعظم اتنے مصروف ہیں کہ وہ اس پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکے،ان حالات میں پنجاب کوئی بھی نیا انتظامی قدم اٹھانے کی تیاری کر رہا ہے جس میں کلیدی عہدوں پر تعیناتیوں کے لئے وہ خود افسر لگا سکے۔مجھے یاد ہے نوے کی دہائی میں مرکز اور صوبوں میں اختلاف کے سبب پاکستان ٹیلی ویژن کے مقابے میں پنجاب ٹیلی ویژن لانے سمیت ایسے کئی اور اقدامات اٹھانے پر بھی سوچ بچار ہوئی تھی،اس وقت الیکٹرانک میڈیا صرف حکومتی یعنی ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن ہی تھے جو آج کی طرح براہ راست وفاقی حکومت کے کنٹرول میں تھے،وفاق اپنی مرضی سے نشرو و اشاعت کے ان اداروں میں صوبوں کو تشہیری حصہ دیتا تھا۔ 
آج ایک بار پھرمرکز اور پنجاب میں ایسی حکومتیں ہیں جن کے سربراہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور بات کرنے کو تیار نہیں،مرکز کو چاہیے پنجاب کی طرف سے چیف سیکرٹری کے لئے بھیجے گئے تین ناموں میں سے کسی ایک کو چیف سیکرٹری لگادے،جیسا کہ ماضی قریب میں ہوتا تھا۔رولز کے مطابق وفاق کو صوبوں کی مشاورت سے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس لگانے ہوتے ہیں اس مشاورت کا بھی اب ہر کوئی اپنا اپنا مطلب نکال رہا ہے، وفاق سمجھ رہا ہے کہ جب پنجاب نے ایک پینل بھیج دیا تو پنجاب سے مشاورت ہو گئی اب اس کی مرضی ہے کہ وہ ان میں سے کوئی افسر لگائے یا کسی اور کی تعیناتی کرے،اس کا مقر رکردہ چیف سیکرٹری ہی صوبائی معاملات چلائے گا۔
خوش قسمتی سے ہمارے ہاں تمام ریاستی اور انتظامی ادارے موجود ہیں،مگر بد قسمتی سے ان کی کارکردگی آئین کی روح سے مطابقت نہیں رکھتی،حکومت مقننہ اور انتظامیہ میں دخل انداز ہوتی ہے تو مقننہ کے ارکان انتظامیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں،عدلیہ سے مرضی کے فیصلے لینے کی کوشش کی جاتی ہے،جس کے نتیجے میں کسی بھی محکمہ کی کارکردگی قابل تعریف نہیں رہی۔ ایک ایسے وقت میں جب صوبہ میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہو،لاکھوں شہری بے گھر،کروڑوں کی فصلیں تباہ،سڑکیں اور پل بہہ گئے ہوں،کورونا کیساتھ ڈینگی،مہنگائی کے آسیب سر چڑھ کر بول رہے ہوں اور اب سیلابی پانی کی زد میں آکر بھاری مقدار میں گندم خراب ہو چکی ہے آئندہ چند روز میں آٹے کی قلت کی مصیبت بھی در آئے گی،لاہور جس کا شمار آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے اس سمیت پنجاب کے میدانی علاقوں میں سموگ کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں، ایسے میں کسی صوبے کی موثر انتظامی ٹیم نہ ہونا کیسا ہوگا؟
 ان حالات میں ملک کے تمام طبقات کو سیلاب اور بارشوں سے آنے والی تباہی کے متاثرین کی امداد اور بحالی کیلئے مل کر ایک قوم بن کر کام کرنے کی ضرورت ہے وفاق اور پنجاب میں تناؤ کھچاؤ کی کیفیت کیوں ہے،اس کھنچا تانی میں وفاق سرتاپا پنجاب حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش میں مصروف ہے،ایک ایسے وقت میں جبکہ مشترکہ حکمت عملی اور اشتراک کار کی ضرورت ہے وفاق صوبوں میں انتظامی مسائل کو ہوا دے رہا ہے، لگتا یہ ہے کہ مستقبل قریب میں اس کھینچا تانی میں مزید شدت آئیگی،ایسا صوبہ جہاں لاقانونیت،تجاوزات،انتظامی بد نظمی،بنیادی اشیاء ضروریہ کی قلت،مہنگائی،راستوں کی بندش،متاثرین سیلاب کی امداد،بحالی اور عام زندگی کو معمول پر لانے جیسے مسائل کی بہتات ہو،وہاں اگر انتظامی مشینری ناکام ہو جائے یاانتظامی ٹیم کا وجود ہی نہ ہو تو وہاں مسائل و مصائب کے سوا کیا ہو سکتا ہے،کیسے مکینوں کو ریلیف دینا ممکن ہو گا،کیونکر ذرائع آمدن کو بڑھایا اور غذائی قلت پر قابو پایا جا سکے گا؟
 یہ بھی ہماری بد نصیبی ہے کہ ہر آٹھ دس سال بعد ہم سیلاب کی تباہ کاری کا سامنا کرتے ہیں،ہمارا واویلہ اور شور و غوغا تب تک ہوتا ہے جب تک پانی کا عذاب مسلط رہتا ہے،پانی کے سوکھتے ہی ہماری دلچسپی،مصروفیات کی سمت بدل جاتی ہے،ہمارے ذمہ داران نے کبھی یہ نہ سوچا کہ بارشی پانی سے اتنی تباہی کیونکر ہوئی؟ 
 یہ بات شائد یہاں بے موقع نہ ہو کہ صوبائی محتسب کو رواں سال اگست تک 17 ہزار 624درخواستیں صوبائی محکموں کیخلاف موصول ہوئیں،اس قدر زیادہ تعداد میں شکایات اس بات کا ثبوت ہے کہ اتنے بڑے صوبے کو چلانے کیلئے اس قدر وسیع انتظامات موجود نہ ہی کوئی میکننزم ہے جو عوامی مسائل کو فوری حل کرنے میں معاون ہو،ان حالات میں حکومت افسر بدلتی رہے گی اور افسر چھٹی پر جاتے رہیں گے،صورتحال کا واحد حل ہے مداخلت کسی بھی قسم کی ہو اس کی حوصلہ شکنی کی جائے،ہر ایک کے اختیار کو تسلیم کیا جائے،ہر کام آئین اور قواعد کے مطابق انجام دیا جائے،اعزاز و اکرام اور توقیر و تہذیب کو رواج دیا جائے،ورنہ مسائل و مشکلات پر وقتی مٹی ڈالنے کی رسم کا خاتمہ ممکن نہ ہو گا،عوام کو ریلیف دینا کسی کے بس میں نہ ہو گا،ریاستی امور بد انتظامی کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے اور ملک سے انتظامیہ کا وجود ہی ختم ہو جائے گا حکومت ہو گی مگر اس کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے والا کوئی نہیں،مقننہ ہو گی مگر قانون سازی کتابوں میں دفن رہے گی لہٰذا ہر کسی کو اس کا آئینی مقام دیں اور آئینی فرائض کا تقاضا کریں۔

مصنف کے بارے میں