شخصیت کی دیوارمیں دروازہ اور مختارمسعود

شخصیت کی دیوارمیں دروازہ اور مختارمسعود

(گزشتہ دنوں مختارمسعودکی پانچویں برسی منائی گئی ) 
پاسارگادمیںایران کے تاریخی آثار ہیں ۔یہیں سائرس اعظم کی عظیم الشان قبر واقع ہے۔ یہی قبرہے جس پر رضاشاہ پہلوی نے ایرانی شہنشاہیت کا ڈھائی ہزارسالہ جشن منایاتھا اور دنیاکے حکمرانوں کے جلومیں اس کے قدموں کی جانب سرخم کرکے کہاتھا ’’بخوابیدمابیدارہستیم‘‘راقم جب سائرس اعظم کی قبرپر پہنچاتو اسے بتایاگیاکہ قبرمیں مدفون خزانے کی تلاش میں اسکندراعظم بھی یہاں آیاتھامگر قبرپردرج تحریر پڑھ کر واپس لوٹ گیالیکن مختارمسعودکاکہناہے کہ اسکندراعظم جب سائرس کی قبرپر پہنچا تواسے نامرادی نے گھیرلیا، وہ دل گرفتہ ہوا کہ اس جوش و خروش اور جنگ و جدل کا انعام دنیاکی سب سے بڑی سلطنت کی صورت میں مل سکتاہے مگر اس کاانجام محض قبر کی تنہائی اور تاریکی ہوگا۔ اقبال نے اس تنہائی اور تاریکی کا رشتہ فرصت کردارسے ملایاتھا      ؎
ہے مگر فرصت ِکردار  نفس  یا  دونفس 
عوض ِیک دونفس قبرکی شب ہائے دراز 
اسکندرکو سائرس نے رنجیدہ کیا اور جولیس سیزرکو اسکندراعظم نے۔ سیزرنے اسکندر کا حال پڑھاتو رونے لگاکہ’’ میری عمر تک سکندر کتنے ہی ملک فتح کرچکاتھا اور میرے اعمال نامے میں ابھی تک ایک درخشاں کارنامہ بھی  نہیں ہے‘‘ یہاں پہنچ کرمختارمسعودکہتے ہیں کہ جولیس سیزر کا یہ جملہ میں نے پڑھا اور میں بھی آزردہ ہوا… کوئی اور مصنف ہوتا تو اسے ضرور اپنی زندگی کی ناتمامی یاناکامی سے منسلک کرتا لیکن مختارمسعود کی شخصیت انھیں اس کی اجازت نہیں دیتی اور وہ یہاں نوکِ قلم پر آیاہواقلم کارکا ذکرروک لیتے ہیں، فخریاانکسارکسی بھی عنوان سے اپناذکرنہیں کرتے اور معاً فقیروں کی زبان پر آنے والا مصرعہ  ع  ’’سکندر جب گیا دنیاسے دونو ہاتھ خالی تھے‘‘ …لکھ کر اس پر تنقید کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔اگر آپ مختارمسعودکی شخصیت کوجاننا چاہیں تو اس سے واقفیت کے لیے ان کے فن کی یہ تصویرکافی راہ نمائی کرتی ہے۔ 
جنگ ستمبر(۱۹۶۵ء)کے شہداکے لیے مختارمسعودکے دل میں پائی جانے والی محبت کا نشان محض لاہورکی مسجدشہداہی نہیں لاہور میں بی آربی کے کنارے تعمیر کرائی گئی یادگاربھی ہے ۔اس یادگارکاافتتاح کرتے ہوئے مختارمسعودنے جو تقریرکی ،نصف صدی گزرجانے کے باوصف ان کے ایک جونیئر افسرمہرجیون خان کو زبانی یادتھی ۔خان صاحب نے راقم کو بتایاکہ مختارمسعودصاحب نے اس موقع پر اپنی تقریرمیںکہاکہ’ دریائے سندھ کے کنارے ایک قافلہ گزررہاتھا، قافلہ سالار نے یہ کہہ کر قافلے کو رکنے کا حکم دیاکہ مجھے اس مقام سے محمد بن قاسم کے قافلے کی خوشبو آرہی ہے ۔تحقیق کی گئی تو معلوم ہواکہ صدیوں پہلے واقعی محمد بن قاسم کے قافلے نے اس مقام پر پڑائوکیاتھا۔ مختارمسعودنے اپنی بنا کردہ یادگارِ شہدا کا افتتاح کرتے ہوئے کہاکہ آج ہم جہاں کھڑے ہیں ،کیا عجب صدیوں کے بعد اس مقام سے گزرنے والے قافلے بھی جنگ ستمبر کے شہیدوں کی خوشبو کو پالیں۔یہ جذبات رسم دنیا یامحض اکتسابی علم سے تعلق نہیں رکھتے، ان کے پس پردہ شخصیت کی تشکیل کرنے والے عناصر وعوامل کی کارفرمائی کو محسوس کیاجاسکتاہے۔ یہی عوامل ان کی شخصیت کا جوہرہیں ۔جس مشرقی روایت نے ان کی شخصیت کی تعمیرکی تھی اس کی خوشبوان کے رگ و پے میں بسی ہوئی تھی ۔وہ ایک بڑے آدمی اور بڑے افسرتھے۔ افسری اور اقتدار جب کاشانہ شخصیت میں داخل ہوتے ہیں تو’’ شخص ‘‘کے ساتھ ایک بڑا حادثہ رونماہوجاتاہے۔ اس حادثے کا ذکرکرتے ہوئے خود انھوںنے لکھاہے کہ ’’اہل ِاقتدار و اہلِ اختیار کی زندگی میں ایک دروازے سے اقتدار واختیارداخل ہوتے ہیں اور دوسرے سے اعتدال و توازن رخصت ہوجاتے 
ہیں‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ :’’اہل اقتدار کے کان کلمہ حق سے محروم ہوجاتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد یہ کلمہ اتنانامانوس ہوجاتاہے کہ نہ اسے سننے کی تاب رہتی ہے اور نہ اسے سمجھنے کی توفیق ہوتی ہے۔ہروقت آگے چلنا ،اونچابیٹھنا، پہلے بولنا اور آخری حکم لگانا زہرکی طرح خون میں سرایت کرجاتاہے‘‘  …ہوسکتاہے اس طرح کی صورت حال کا خود انھیں بھی سامناہواہو لیکن ان کی تحریریں اس کی نفی کرتی ہیں تاہم اس احساس سے راقم اختلاف نہیں کرسکتاکہ بلندنشینی ان کے مزاج پر اثرانداز ہوئی تھی ۔ان کی تربیت کا بنیادی جوہر مشرقی تھا لیکن مسلسل افسری اور لفظ و عمل کے بارے میں حساسیت نے انھیں دوسروں سے فاصلے پر رہناسکھادیاتھا۔ ان کے قریبی دوست بھی ان کی شخصیت کو’’ ایک ایسے طلسماتی قلعے سے مشابہ‘‘ قراردیتے ہیں جو ہے تو عظیم مگر’’اس میں داخل ہونے کا کوئی راستہ نہیں ‘‘۔
مہرجیون خان خودسول سروس کے ایک لیجنڈری رکن تھے؛ افسر،مصنف،دانشور۔ انھوںنے مختارمسعودکو ایک لیجنڈری سینئر کے طور پر دیکھا تھا۔ وہ ان کم لوگوں میں سے تھے جن کی سماعتوں کو مختارمسعود کی خوش آوازی سے مستفیدہونے کا موقع بھی ملاتھاقارئین کے لیے یہ ایک حیرت ناک انکشاف ہوگاکہ مختارمسعودخوش گلو تھے اور نہایت عمدہ گابھی لیتے تھے۔مہرجیون خان کاکہناتھاکہ’’ وہ اگر ’’ ہمچومادیگری نیست ‘‘کے رویے سے محفوظ ہوتے تو ایک عظیم شخصیت ہوتے ‘‘راقم نے ا ن سے اختلاف کرناچاہاتوانھوںنے کہا کہ’’ نہیں !جب وہ افسروں کی محفل میں ہوتے تھے تو ان کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتاتھا، محفل پر وہی چھائے رہتے تھے ۔راقم کے خیال میں محفلوں میں چھائے رہنے کا سبب ضروری نہیں کہ ان کی خود پسندی ہی ہو، اس کاسبب ان کی قابلیت بھی ہوسکتی ہے اور بلاشبہ وہ غیرمعمولی قابلیتوں کے انسان تھے لیکن مسلسل افسری سے طبیعت میں بہ ہر حال کچھ ایسے اوصاف پیداہوسکتے ہیں جو سب کے لیے قابل قبول نہ ہوں ۔جیون خان صاحب نے اس کے ساتھ ان کی شخصیت کے کچھ اور اوصاف کی بھی نشان دہی کی۔ انھوںنے راقم کوبتایاکہ انگریزکے زمانے کے ایک قانون کی روسے حاکم شہرکو مہینے میں کچھ دن شہرسے باہر رہ کر ڈاک بنگلوں میں شب باش ہوناہوتاتھا۔جب ہم سول سروس میں آئے توزمانہ بدل چکاتھا، انگریز رخصت ہوچکاتھااور اب اس قانون کی جانب کم ہی توجہ دی جاتی تھی تاہم میں جب حاکم شہربن کر ملتان گیاتو میں نے اس قانون پرعمل کرنے کی کوشش کی۔ میں جس ڈاک بنگلے میں شب باشی کرتاوہاں کے وزیٹرزرجسٹر پر مجھ سے پہلے مختارمسعودکے تاثرات لکھے موجودہوتے تھے ۔مختارمسعودان سے پہلے ملتان کے حاکم شہررہ چکے تھے ۔
 جہاں تک’’ ہمچومادیگری نیست ‘‘کے رویے کا تعلق ہے تو خودمختارمسعودکے ہاں اس رویے کے لیے ناپسندیدگی دکھائی دیتی ہے ۔ انھوںنے ای ایم فاسٹر کے ناول (گیٹ وے ٹو انڈیا)کے ایک انگریز کردارکا ذکرکرتے ہوئے جس کا ناول میں خوب مذاق اڑایاگیاہے ’، ہمچومادیگری نیست‘ کو ایک ایسی بیماری قراردیاہے کہ جو اس میں ایک بار گرفتارہوجائے وہ ہمیشہ کے لیے اس بیماری میں مبتلاہوجاتاہے (آوازدوست ص۹۴)وہ کہتے ہیں کہ’’ فاسٹر کی ذات کے گرد کوئی کم ظرف اجارہ دار نہ تھا۔ اس کے پاس ہرعمر اور ہرقسم کے لوگ بلاروک ٹوک آتے جاتے اور وہ ان سے مل کر خوش ہوتا ‘‘گویاان کے نزدیک عوام سے ملناجلنا قابل ِقدررویہ ہے اور ایک ایسا ناول نگارہی اچھاناول لکھ سکتاہے جسے زندگی کے تمام روپ دیکھنے کا موقع ملاہو۔اگر ایسانہ ہوتاتو وہ اس ناول کے بارے میں یہ کیوں کہتے کہ ’’میںنے ناول ختم کیاتویوں لگاگویایہ کسی صوفی، فلسفی اور عاشق کی لکھی ہوئی مثنوی ہے، محض ادیب اور ناول نگار ان بلندیوں تک کہاں پہنچ سکتاہے‘‘…وہ خود فن کی بلندیوں کو چھولینے والے فن کارتھے، بلندی پر پہنچ جانے والوں سے لوگوں کو شکوے ہواہی کرتے ہی ہیں۔ محمد طفیل (نقوش) نے بھی کچھ ایساہی محسوس کیا۔ان کے مطابق ’’موصوف غلافوں کے اندررہتے ہیں یہ جتنے عیاں ہیں اس سے زیادہ نہاں ہیں ‘‘۔ ان کا کہناتھاکہ مختارمسعود    ’’ بہت اچھے آدمی ہیں اس لیے کہ افسروں کو افسر نہیں سمجھتے اور ادیبوں کو ادیب نہیں سمجھتے ‘‘جب وہ بہاولپورمیں ڈپٹی کمشنر تھے تو وہاں کے کمشنر نے ان کے بارے میں کہا’’ وہ اپنے سے زیادہ کسی کو عقل مند نہیں سمجھتے، باقی سب خیریت ہے ‘‘دوستانہ پیرائے میں ظاہر کی گی یہ رائے بھی قابل توجہ ہے کہ وہ’’  اگرکسی کو کچھ سمجھتے ہیں تو وہ بندے کی ذات نہیں ،خدا کی ذات ہے ‘‘نیزیہ کہ وہ ’’ ہمہ وقت رعب ڈالنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں گفتگو بھی دل نشین ،لہجہ بھی طلسم و حیرت کا سماں باندھنے والا لہٰذا مخاطب مار کیوں نہ کھائے‘‘ ان کے بارے میں یہ بھی محسوس کیاگیاکہ ’’  انھوںنے اپنی ذات پر اتنے خول لادرکھے ہیں کہ اصل آدمی چھپ گیاہے جو کہ بہت پیاراہے ‘‘۔
ان تنقیدوں میں جہاں عیاں سے زیادہ نہاں ہونااہم دکھائی دیتاہے وہاں غلاف کے اندرپوشیدہ اصل آدمی کا پیاراہونااہم تر ہے۔افسری اورمسلسل افسری کے پیداکردہ مسائل اپنی جگہ جن لوگوں کو ان کے اندرچھپاہوا وہ’’ بہت پیاراآدمی‘‘ دیکھنے کا موقع ملا ان کے ہاں حالی جیسے جذبات جنم لیتے تھے     ؎
بہت جی خوش ہواحالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
یاپھراسی شعرسے مستفاد یہ خیال کہ
ع  ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں……  ان کی صورت اگر شرافت کامجسمہ تھی تو گفتگو علم وفہم اور جہاں بینی کا مظہر،ملاقاتی پہلی ملاقات میں متاثرہوتا دوسری تک معتقدہوجاتااورتیسری میں مرید ۔وہ حلوائی کی دکان کی طرح نہ تھے جس میں دکانداراپناسب کچھ شوکیس میں سجادیتاہے بلکہ وہ تو اس آڑھتی کی طرح تھے جس کے سامنے تو ایک سادہ سی میزہوتی ہے لیکن اس میز کے عقب میں کروڑوں کے کاروبار چل رہے ہوتے ہیں ۔ان کی گرہ میں بھی کروڑوں کا ’’مال‘‘ تھا، بس فرق یہ تھاکہ ان کے سامنے رکھی میزسادہ نہیں تھی ۔کہتے ہیں مسولینی نے اپنادفتر ایک ساٹھ فٹ لمبے کمرے میں بنارکھاتھاتاکہ ملاقات کرنے والے کو کمرے کے ایک سرے سے چل کر دوسرے سرے تک  جاناپڑے اور مسولینی اس دوران اسے دیکھتابھی رہے ۔یہ خیال کہ مسولینی اسے دیکھ رہاہے اور فاصلے کی طوالت ،آنے والے پر مسولینی کی ہیبت قائم کرتی اور بہت سے ملاقاتیوں کے قدم مکالمے سے پہلے ہی اکھڑ جاتے۔بہت سے لوگ مختارمسعودسے مکالمے میں بھی ایسے محسوسات کا شکارہوتے لیکن اس کا سبب کمرے کی لمبائی یا میزکی دوری نہیں ہوتی تھی۔اس لیے کہ مختارمسعودکے خیال میں’’بڑے آدمی وہی اچھے ہوتے ہیں جو اپنے کام میں مصروف ہوں تو سوپردوں میں پوشیدہ رہیں اور جب فارغ ہوں تو سارے حجابات دورہوجائیں اور یاران نکتہ داں کے لیے صلائے عام بن جائیں ‘‘وہ خواص کی زندگی گزارنے کے باوجود دوسروں کے لیے صلائے عام تھے ۔وہ کہاکرتے تھے کہ ’ ہر اچھے آدمی کے گردایک ہالہ ہوتاہے اس کے نزدیک جائیں تو دل خود بخود منورہوجاتاہے‘‘ان کے نزدیک جانے سے بھی ایسا ہی محسوس ہوتاتھا۔وہ ایک طاہرومطہرشخص تھے، ان کے خیالات میں بلندی،نگاہ میں پاکیزگی اورباتوں میں گلوں کی خوشبوتھی ۔ان کے قریب جانے پر ان کے باطنی نورکا مشاہدہ کیاجاسکتاتھا۔یہ ایک صوفیانہ وصف ہے۔ صوفیاکے دروازے ہرشخص کے لیے کھلے ہوتے ہیں جوچاہے آئے کہ وہ درکشادہ رکھتے ہیں ۔بس فرق یہ ہے کہ مختارمسعوداپنے اور دوسروں کے درمیان اجنبیت کی دیواروں کو گرانے کی جلد اجازت نہیں دیتے تھے اور ان سے نئے ملنے والے کو کچھ ایسی آوازسنائی دیتی تھی کہ :
تم مجھ سے نہ مل پائوگے ہرگزکہ مرے گرد
دیوارہی دیوارہے  دروازہ  نہیں ہے

مصنف کے بارے میں