اب ملک بچے گا یا پھر کرپٹ افراد، وزیر اعظم کا قوم سے خطاب

اب ملک بچے گا یا پھر کرپٹ افراد، وزیر اعظم کا قوم سے خطاب
کیپشن: میری سیاست کا مقصد ملک کی بہتری اور اسے مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانا ہے، وزیراعظم عمران خان۔۔۔۔فوٹو/ بشکریہ پی آئی ڈی

اسلام آباد: وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ کرپٹ لوگ ملک کے ہر ڈپارٹمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں جب ہم کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالیں گے تو یہ شور کریں گے لیکن میں گھبرانے والا نہیں اب ملک بچے گا یا پھر یہ کرپٹ افراد۔

نومنتخب وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ میری سیاست کا مقصد ملک کی بہتری اور اسے مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی اتنے بدترین معاشی حالات نہیں تھے کیونکہ آج 28 ہزار ارب قرضہ ہے اور پچھلے 10 سال میں جو قرضہ چڑھا وہ سب کے سامنے لائیں گے کہ قرضہ کہاں گیا۔ قرضوں پر سود دینے کے لیے ہم قرضے لے رہے ہیں اور ہر مہینے دو ارب ڈالر قرض لینا پڑ رہا ہے جبکہ ملک کا اصل مسئلہ بیرون ملک کا قرضہ ہے۔ ایک طرف قرضے ہیں تو دوسری جانب انسانوں پر خرچ کا مسئلہ ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہم ان پانچ ممالک میں شامل ہیں جہاں پانچ سال سے کم عمر بچے سب سے زیادہ موت کا شکار ہوتے ہیں ان میں زچگی کے معاملات سب سے زیادہ ہیں۔ ہم ان پانچ ممالک میں شامل ہیں جہاں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور مر رہے ہیں کیوں کہ وہ ٹھیک طرح نشوو نما نہیں پاتے۔ اس موقع پر انہوں نے دو الگ الگ بچوں کے دماغ کے سی ٹی اسکین بھی دکھائے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں صاحب اقتدار، اشرافیہ اور حکمرانوں کا رہن سہن کیا ہے؟ ۔وزیراعظم کے 524 ملازم ہیں، 80 گاڑیاں جس میں 33 بلٹ پروف ہیں، ہیلی کاپٹر اور جہاز ہیں، گورنر ہاؤسز اور وزیر اعلیٰ ہاؤسز ہیں جہاں پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک طرف قوم مقروض ہے اور دوسری طرف صاحب اقتدار ایسے رہتے ہیں جیسے گوروں کے دور میں تھے۔ پچھلے وزیراعظم نے 65 کروڑ روپیہ دوروں پر خرچ کیا اور اسپیکر قومی اسمبلی نے 8 کروڑ روپیہ دوروں پر خرچ کیا قوم کو پتا چلنا چاہیے کہ ان کا پیسہ کہاں جا رہا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ تباہی کو روکنے اور ملکی ترقی کے لیے ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہو گی اور رہن سہن کا طریقہ کار بدلنا ہو گا۔ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ 45 فیصد بچے غذائی قلت کے سبب مکمل طور پر پروان نہیں چڑھتے اور ملک میں سوا دو کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں ان کی تعلیم کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

عمران خان نے کہا کہ آج وقت آ گیا ہے کہ قوم اپنی حالت بدلے جس کے لیے ہمیں اپنے رول ماڈل نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ سے سیکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے قوم میں قانون کی بالادستی قائم کرنی ہے اور رول آف لا کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی بھی چوری کرے گی تو قانون کے مطابق سزا دوں گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اقلیتیں برابر کی شہری ہیں، قانون کے سامنے سب برابر ہیں، زکوۃ کی ادائیگی کی طرح آج مغرب میں پیسے والے ٹیکس دیتے ہیں جس سے نچلے طبقے کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں مغرب میں موجود جانوروں کا حال ہمارے انسانوں سے اچھا ہے۔ میرٹ کے نظام کی وجہ سے مسلمانوں کو فتوحات ملیں جبکہ مدینہ کی ریاست میں حکمران صادق اور امین تھے اور احتساب سب کے لیے ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے کیا تھے اور بعد میں کیا ہو گئے؟۔ یہ لوگ اقتدار میں آتے ہی پیسے کمانے کے لیے ہیں لیکن ہمارے نبی کریم ﷺ نے جنگ بدر کے بعد سب سے زیادہ ترجیح تعلیم کو دی،۔عظیم رہنما نے قوم کو بتایا کہ تعلیم کے بغیر قوم آگے نہیں بڑھتی لیکن ہمارے سوا دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ حالات برے ہیں لیکن اس کے باوجود قوم گھبرائے نہیں  کیونکہ یہ ملک علامہ اقبال کا خواب تھا اور اسے ان ہی اصولوں پر بنائیں گے جس پر نبی اکرم ﷺ نے مدینہ کی ریاست کھڑی کی تھی۔

عمران خان نے محض دو ملازم کے ساتھ دو گاڑیاں اپنے لیے رکھ کر وزیر اعظم ہاؤس کی بلٹ پروف سمیت دیگر تمام اضافی گاڑیاں نیلام کرنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ حاصل شدہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں بلکہ اپنے گھر بنی گالا میں رہنا چاہتا تھا تاکہ کوئی سرکاری خرچ نہ ہو لیکن سیکیورٹی اداروں کے کہنے پر ملٹری سیکریٹری ہاؤس میں رہنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام گورنر ہاؤسز اور سی ایم ہاؤسز اپنے اخراجات کم کریں گے اور ہمارا کوئی گورنر بھی گورنر ہاؤس میں نہیں رہے گا اور اپنے اخراجات کم کرے گا۔

عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس کو اعلیٰ درجے کی تحقیقی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہاں دنیا بھر سے بہترین محقق بلائیں گے جو اعلیٰ درجے کی تحقیق کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے ٹاسک فورس بنائیں گے جو پیسہ بچا کر نچلے اور پیچھے رہ جانے والے طبقے پر اخراجات کریں گے۔

عمران خان نے کہا کہ ہماری بری عادت ہے کہ ہم باہر کے قرضوں پر گزارا کر رہے ہیں لیکن اب ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔ قرض لے کر گزارا نہیں کر سکتے کیوں کہ جو قرضہ لیتا ہے وہ آزادی کھو دیتا ہے اور میں بیرون ممالک سے قرض نہیں مانگوں گا کیونکہ جس قوم میں غیرت و حمیت نہیں ہوتی وہ ترقی نہیں کرتی۔ یہ ہمارا قصور ہے کہ غیروں سے قرضہ مانگتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم روپیہ جمع کریں گے، 20 کروڑ عوام میں 8 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں، یہاں مالدار لوگ ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے۔ سب سے پہلے ایف بی آر کو ٹھیک کریں گے اور عوام کو اعتماد دوں گا کہ ٹیکس کی حفاظت میں کروں گا، ہم عوام کو پیسہ بچانے کا طریقہ بتائیں گے اگر ہم پیسہ بچائیں گے تو ٹیکس دینا عوام کا فرض ہے اور ٹیکس کو زکوۃ سمجھ کر دیں تاکہ نچلے طبقے کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکیں۔

عمران خان نے کہا کہ سابق آئی جی کے پی کے ناصر درانی کو پنجاب پولیس ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیں گے کیوں کہ انہوں نے خیبر پختونخوا کی پولیس کا نظام دیانت داری کے ساتھ ٹھیک کر دیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پولیس کے شعبے میں زبردست تبدیلی آئی اور ہمارے انتخابات جیتنے کی وجہ بھی کے پی کے پولیس کے نظام میں بہتری بنی۔

عمران خان نے کہا کہ بہت سی بیوہ خواتین اپنی زمینوں کے لیے برسوں سے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہیں۔ چیف جسٹس سے گزارش کروں گا کہ جن بیواؤں کی زمینوں پر مقدمات ہیں انہیں جلد سے جلد انصاف فراہم کریں کیونکہ مجھے ایک بیوہ خاتون نے خون سے خط لکھا جبکہ میرا وعدہ ہے کہ مظلوموں اور غریبوں کے لیے کام کروں گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ملک بھر میں بچوں سے زیادتی ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ والدین اس موضوع پر بات نہیں کر پاتے اور زیادتی کے واقعات پر سخت ایکشن لیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ سرکاری اسکولوں کی حالت اور معیار بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ پرائیویٹ اسکولز کرایے پر لے کر سرکاری اسکولوں میں تعلیم دے سکتے ہیں۔ مدرسے کے بچوں کو نہیں بھولنا اور مدرسے کے بچوں کو بھی انجینئر، ججز اور ڈاکٹر بننا چاہیے کیونکہ مدرسے کے معیار کو بہتر کرنا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اسپتالوں کے لیے ٹاسک فورس کے ذریعے فرسودہ اور پرانے نظام کو بہتر بنانا ہے جب تک سرکاری اسپتالوں کی مینجمنٹ تبدیل نہیں کریں گے تب تک غریب کے لیے سرکاری اور امیر کے لیے پرائیویٹ اسپتال ہی رہے گا۔ ملک بھر کی عوام کے لیے ہیلتھ کارڈ لے کر آئیں گے اور پورے ملک کے غریبوں کے لیے ہیلتھ انشورنس پالیسی متعارف کرائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ پانی کی کمی ایک ہنگامی حالت ہے اور پانی کے حوالے سے ایک وزارت بن ارہے ہیں۔ کسانوں کو پانی بچانے کے لیے طریقے بتائیں گے کیونکہ ڈیم بنانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ بھاشا ڈیم نہ بنا تو مستقبل میں بڑے مسائل ہوں گے کیونکہ پوری قوم ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈز جمع کرے اس حوالے سے چیف جسٹس کا ساتھ دیں ان کا اقدام قابل تحسین ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ سول سروسز میں اصلاحات لائیں گے، سیاسی مداخلت کی وجہ سے سول سروس پیچھے رہ گئی، اس شعبے میں اصلاحات کے لیے کمیٹی بنائی ہے جو سول سروسز میں سیاسی مداخلت ختم کرے گی ، سول سروسز کو عزت دیں گےاور مدد بھی کریں گے مگر میں چاہتا ہوں کہ ہمارا عام آدمی آ پ کے پاس آئے تو اسے وی آئی پی سمجھنا ہے، اسے عزت دینی ہے جو اس کا حق ہے، سول سروسز میں سزا و جزا کا قانون لائیں گے، اچھے کام پر بونس دیں گے اور ناقص کارکردگی پر سزا ہوگی۔

عمران خان نے کہا کہ بلدیات میں نیا نظام لائیں گے اور ضلعی ناظم کا براہ راست انتخاب کرائیں گے تاکہ انہیں براہ راست ترقیاتی فنڈز میسر آئیں، نوجوانوں کو نوکریاں دیں گے ان کی اسکلز پر کام کریں گے، بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں گے، نوجوانوں کے لیے کھیلوں کے میدان اور پارکس بنائیں گے۔

وزیر اعظم نے عزم ظاہر کیا کہ ملک بھر میں اربوں درخت لگائیں گے جس کے لیے  پورے پاکستان میں درخت لگانے کی مہم شروع کریں گے، ہیٹ ویو کے پیش نظر درخت لگانا ناگزیر ہے، فضا میں آلودگی کے زہریلے اثرات کے خاتمے کو ختم کرنے کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ دریا، ہوا اور سمندر صاف کرنے ہیں، ملک میں صفائی کا کام شروع کرنا ہے، پاکستان 5 سال بعد ایسا نظر آئے جیسے یورپ کے ممالک صاف نظر آتے ہیں۔

عمران خان نے کراچی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی ترقی میری اولین ترجیح ہے، یہاں ہر طرف کچرا اور سیوریج کا پانی نظر آرہا ہے، کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

سیاحت پر خصوصی توجہ دیں گے، ایسے ریزورٹ کھولیں گے جو سوئٹزر لینڈ سے زیادہ خوبصورت ہوں گے۔ ساحلی پٹی کو سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال کریں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے شروعات اسٹریٹ چلڈرن ، بیوہ خواتین اور معذوروں کی مدد کرکے کریں گے، اس مقصد کے لیے عوام کو رحم دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، فلاحی ریاست بنانے کے لیے مدینہ کی ریاست کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ  نبی کریمﷺ نے تمام تر توجہ انسانوں پر دی، پورا عرب فتح کرنے کے باوجود انہوں نے اپنا طرز زندگی نہیں بدلا اور سادہ طرز زندگی اختیار کی اسی لیے میں قوم کو سادہ زندگی گزار کر دکھاؤں گا اور قوم کا ایک ایک پیسہ بچاؤں گا، میں کوئی کاروبار نہیں کروں گا اور نہ ٹیکس کا غلط استعمال کروں گا تاہم سیکیورٹی کی وجہ سے چند گارڈز اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور ہوں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کرپٹ لوگ ملک کے ہر ڈپارٹمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جب ہم کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالیں گے تو یہ شور کریں گے یہ لوگ سڑکوں پر آئیں گے لیکن میں گھبرانے والا نہیں ہوں اب ملک بچے گا یا پھر یہ کرپٹ افراد۔

عمران خان نے کہا کہ کرپشن کے ذریعے باہر گیا پیسہ واپس لانے کے لیے ٹاسک بنائی جائے گی جو قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کے لیے کام کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ عوام کا پیسہ چوری کرنے والے میرے دشمن ہیں، پیسہ چوری کرکے بیرون ملک بھیجنے والوں کو روکنا عوام کی بھی ذمہ داری ہے، میں آپ کے پیسوں کی حفاظت کروں گا، آپ میری ٹیم بن کررہیں میں یقین دلاتا ہوں آپ کے پیسے کی حفاظت کروں گا، میرا مقصد ہے کہ قوم کی ترقی کے ذریعے ایک وقت ایسا آئے گا کہ پاکستان میں کوئی زکوۃ لینے والا نہیں ملے گا۔

دریں اثنا وزیر اعظم کے خطاب سے قبل کلام پاک میں سے سورہ رحمن کی ابتدائی آیات تلاوت کی گئیں بعدازاں قومی ترانہ پیش کیا گیا۔