ہوس کی امیری ہوس کی وزیری...

ہوس کی امیری ہوس کی وزیری...

گویا امریکا نے مسلم دنیا بالعموم اور افغانستان بالخصوص میں گزشتہ بیس سال جو تباہی پھیری، لوٹ مار مچائی، جنگی جرائم کا ارتکاب ہوا، کافی نہ تھا! اب جب فرعونیت کا سفینہ ڈوبنے کو ہے تو عالمی سامراجی مہاراج کے تابوت کا آخری کیل یہ ہے کہ پوری سفاکیت سے تاخت وتاراج کیے افغانستان کے مفلوک الحال عوام کی امانت پر بائیڈن نے سرعام ڈاکے کی واردات کر ڈالی ہے۔ امریکی بینکوں میں منجمد کیے گئے اثاثوں میں سے آدھے نائن الیون کے متاثرین میں بانٹنے کا اعلان فرمایا ہے۔ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ! نائن الیون حملوں میں ایک بھی افغان ملوث نہ تھا۔ الٹا اگر اس گلوبل ولیج میں انصاف نام کی کوئی چڑیا بھی کہیں پائی جاتی تو امریکا کے ذمے ایسے کئی ارب ڈالر جنگی تاوان بنتا ہے جو وہ افغان عوام کو ادا کرتا۔ بلاثبوت افغانستان تباہ کیا۔ عراق میں جھوٹ کے پلندے (عام تباہی کے ہتھیار) بول کر ملک اجاڑا۔ ڈاکٹر عافیہ کی 86 سالہ قید کی سزا ہی کی مانند ہر سطح پر انصاف کے چیتھڑے اڑائے گئے۔ اور اب یہ سرخاب کا نیا پر امریکا کی کلغی میں سیانے بائیڈن نے لا جڑا ہے! منجمد اثاثوں کی پاداش میں امریکا پورے موسم سرما نقطہ انجماد پر ٹھٹھرتا برفانی طوفانوں کے تھپیڑے کھاتا رہا۔ ادھر روس امریکا کی سپرپاوری ٹھکانے لگانے پر تلا بیٹھا ہے۔ اور یہ گدھے سے گر کر مسکین کمہار پر غصہ نکال رہا ہے۔ طالبان نے بجا طور پر شدید ردعمل دیا ہے۔ باقی دنیا میں بھی جابجا اسے شرمناک ڈاکا متصور کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ خود امریکا نواز افغانوں میں اس پر غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ’بائیڈن جو کرنے چلا ہے یہ نائن الیون متاثرین کے ساتھ انصاف نہیں ہے بلکہ شکستہ حال، مفلس قوم جو پہلے ہی قحط اور فاقہ کشی کے دہانے پر کھڑی ہے، (جس کی ذمہ داری خود امریکا پر عائد ہوتی ہے۔) اس کے پبلک فنڈز پر ڈاکے کے مترادف ہے۔‘ یو این ورلڈ فوڈ پروگرام متنبہ کر چکا ہے کہ 2 کروڑ تیس لاکھ افغان شدید بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور کچھ ہو نہ ہو بائیڈن نے اپنے دستخط سے امانت کی بھری یہ تھیلی امریکی عدالت میں لے جا کر لٹکا دی ہے! قطر میں محمد نعیم (ترجمان سیاسی دفتر طالبان) نے بائیڈن کے اس فیصلے کو ’ایک قوم اور ملک کے اخلاقی زوال اور انسانی اقدار کی بوسیدگی کی بدترین علامت قرار دیا۔‘ تاہم وہ قوم جس نے تن تنہا 20 سال پوری دنیا کی مہیب طاقتوں کا مقابلہ کرکے اسے پچھاڑا ہے، جو گزشتہ 6 ماہ سے خالی ہاتھ، ملک انصاف اور امن کے ساتھ چلا رہی ہے۔ وہ وقت جب امریکا نوازوں کا سرخیل اشرف غنی سارے ڈالر سمیٹ کے اڑ گیا۔ امریکا خود بدترین افراتفری کا مارا افغانستان سے بھاگ نکلا۔ طالبان نے یکایک، اچانک ایک غیرمتوقع صورت حال میں جس مہارت، امانت ودیانت، حلم عفو ودرگزر سے فوراً پورے ملک کو کنٹرول کرلیا۔ ایثار اور قربانی سے عوام کی ضروریات کو ترجیح دی وہ آزمائش کی ان گھڑیوں میں بھی ایمان اور توکل کی بنیاد پر سرخرو ہوںگے باذن اللہ! ہم ذرا اپنی فکر کریں کہ ہماری معیشت پر نقب کہاں سے لگ رہی ہے۔
 سینیٹر عرفان صدیقی کے ایک سوال نے حکومت کو چیں بہ جبیں کر ڈالا۔ پردے کے پیچھے کیا چل رہا ہے؟ مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر ہماری معیشت، آئی ایم ایف کے قرضوں، قومی زبوں حالی کے سربستہ رازوں میں سے ایک دانہ ڈھیر سے ہاتھ لگا ہے ملاحظہ فرمائیے۔ آپ یہ تو جانتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر باقر رضا آئی ایم ایف میں 18 سال کئی ممالک میں مختلف مناصب پر فائز رہے۔ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے جسد معاشی کو لاحق گوناگوں بیماریوں کے علاج کے لیے یہ مایہ ناز حکیمِ معاش لانے کا مژدہ قوم کو سنایا تھا کہ: ’رضا باقرپاکستان کی محبت میں یہ خدمت انجام دیںگے۔‘ سینیٹ ہی میں خطاب کی گرماگرمی میں فرمایا: ہم نے میرٹ پر انتخاب کیا ہے۔ باقر پاکستان کا بیٹا ہے اور ملک کی خدمت کمترین تنخواہ پر کرے گا۔ (پاکستان ٹوڈے: 7 مئی 2019ء) پہلے میرٹ پر انتخاب کی بات دیکھیے پھر کمترین تنخواہ بھی پاکستان کے بیٹے کی دیکھ لیںگے۔ پاکستان سے پہلے مصر میں تعینات تھے۔ مصری وزیر خزانہ نے اسد عمر کو وارننگ دی تھی کہ کس طرح آئی ایم ایف نے مصر کو جو دوا دی اس نے مصر میں غربت یکایک 35 فیصد سے 55 فیصد پہنچا دی۔ مصری کرنسی ڈالر کے مقابلے میں 125 فیصد قدر کی کمی کا شکار ہوئی۔ ہماری مجبوری کیا تھی کہ پاکستان کے بیٹے نہیں، آئی ایم ایف نامی عطار کے بیٹے سے ہم نے دوا چاہی۔ مصر شدید مہنگائی کی دلدل میں جا دھنسا تھا، آج آپ اپنے حکیم معاش کے ہاتھوں ان سبھی پیمانوں پر پاکستان کو جانچ لیں۔ قوم کو شاہ محمود نے فرمایا تھا: ’ملک کو اس وقت غیرمتنازعہ اعلیٰ ترین غیرمعمولی صلاحیتوں کا گورنر اسٹیٹ بینک درکار ہے۔‘ ان کی غیرمعمولی صلاحیتیں بھگتتا ہر پاکستانی منہ کھولے گیس بجلی پیٹرول اشیائے صرف کے تباہ کن بل اپنے ہاتھ میں لیے کھڑا ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں: بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لائن میں لگ کر روتے دھوتے بل دو اور پھر پی ایس ایل سے دل بہلاؤ۔ رضا باقر، ہم سفید ہاتھی نہیں سونے کے ہاتھی پال رہے ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے مایہ ناز بیٹے  کی ’کمترین تنخواہ بارے سوال کیا تھا۔ حکومت نے خلاف معمول سینیٹ میں سب کے استفادے کے لیے جواب دینے کی بجائے عرفان صدیقی کو خاموشی سے تحریری جواب تھما دیا۔ تاہم بلی تھیلے سے جو درجہ بدرجہ باہر آئی تو سبھی کی سٹی گم ہوگئی۔ اگرچہ غالب گمان یہی چینل چینل گھوم رہا ہے کہ یہ اعداد وشمار حقیقی نہیں۔ اصل اس سے بہت زیادہ ہے۔ سب کچھ ملاکر فدوی بیٹا، ماہانہ کروڑ ڈیڑھ کروڑ میں پڑتا ہے! تاہم قصہ مختصر۔ ماہانہ تنخواہ 25 لاکھ تھی جو سالانہ 10 فیصد بڑھتی رہی۔ دو گاڑیاں بمع ڈرائیور اور فی گاڑی 600 لٹر پٹرول۔ بجلی گیس پانی جنریٹر کے جملہ اخراجات۔ اولاد کے تعلیمی اخراجات کے 75 فیصد۔ (بچے بری امام کے اسکول کالج میں تو پڑھتے نہیں ہیں۔) 24 گھنٹے ہمہ نوع سیکورٹی مہیا بمع گارڈ۔ لدا پھندا گھر رہائش کو۔ فون نیٹ کی ہمہ نوع سہولیات مفت، 4 ملازم 18 ہزار تنخواہ فی کس، طبی سہولیات، مفت فضائی سفری سہولیات، کلب کے ماہانہ اخراجات۔ اب ہم کس جنت الحمقاء میں رہتے ہیں کہ گورنر صاحب کو ہمارے گیس بجلی پٹرول کے بلوں کی پروا نہیں! البتہ گورنر صاحب کا میزبانی الاؤنس نہیں بتایا گیا۔ بڑے بھاری بھرکم لوگ ان کی مہمان نوازی سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ 
مسلم ممالک کی جان عالمی معاشی اداروں کے شکنجے میں رہی۔ مثلاً اشرف غنی (سابق صدر افغانستان وسابق ملازم ورلڈ بینک) ایوب خان دور میں قادیانی وزیر خزانہ ایم ایم احمد، یہ بھی پہلے ورلڈ بینک اور بعدازاں آئی ایم ایف میں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ معین قریشی (سینئر وائس صدر ورلڈ بینک) جو 1956ء میں پلاننگ کمیشن کو چھوڑکر آئی ایم ایف میں زبردست کیریئر پر رہے ورلڈ بینک جانے سے پہلے۔ 1993ء میں یہ ہمیں آئینی بحران سے بچانے ہمارے وزیراعظم بن گئے۔ اسی طرح امریکا میں سٹی بینک کے ایگزیکٹیو نائب صدارت چھوڑکر پاکستان کا ایک اور بیٹا شوکت عزیز، پاکستان کی خدمت کو چلا آیا۔ پہلے وزیر خزانہ رہے پھر پرویز مشرف کی سنگت میں وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے کا اعزاز ہمیں بخشا۔ سو یہ جو ظالمانہ بے رحمانہ سوقیانہ سودی نظام نسل در نسل ہمیں پیس رہا ہے، یہ ریموٹ کنٹرول عالمی سامراج ہے اور اس کے پیچھے ہماری پوری اشرافیہ سول ملٹری صف بند ہے۔ نظام پر چاق وچوبند دستے تعینات ہیں۔ سینیٹ اور اسمبلی کے نمایندگان اگر اسی طرح باری باری اشرافیہ کی ڈھیریوں کے چند مزید دانوں کا حال بھی ہمیں بتا سکیں تو عین نوازش ہوگی! فی الوقت تو دین سے فارغ، اللہ سے بے خوف، ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری چل رہی ہے۔

مصنف کے بارے میں