حالات بدل رہے ہیں

حالات بدل رہے ہیں

ہر کسی کی خواہش ہے کہ ملک میں امن ہو خوشحالی ہو اور نا انصافی ختم ہو مگر افسوس ابھی تک ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو کبھی ترجیح نہیں دی وہ صرف اور صرف اپنے مفادات کے حصول و تحفظ کے لیے سرگرم عمل رہے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انہوں نے ہمیشہ واشنگٹن کو راضی رکھنے کی کوشش کی جس سے وہ قومی فرض کو بھلا بیٹھے لہٰذا آج ہماری قومی معیشت ڈانواں ڈول ہے۔ انصاف مہنگا اور مشکل ہو گیا ہے۔ عدالتیں مبینہ طور سے بعض اوقات کسی دباؤ میں فیصلے کرتی ہیں جس سے متاثرین کے ذہنوں میں طرح طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں۔ ٹھیکیداری کے ذریعے تعمیر و ترقی کے راستے پر چلتے ہوئے ایک طبقہ اربوں کھربوں کا مالک بن چکا ہے۔ اسی طرح لینڈ مافیا ہے جس نے ملکی سیاست کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ رشوت سفارش دیمک کی مانند ہمارے اجتماعی رویوں پر اثر انداز ہو رہی ہے کیا کیا گنوائیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہے۔ 
اس کے باوجود ہمارے حکمران طبقات کو کوئی پریشانی نہیں وہ مسلسل اس ساری صورت حال کو نظر انداز کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھوئے ہوئے ہیں جبکہ انہیں جنگی بنیادوں پر سوچنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت بھی اور ماضی میں بھی عوام کو مسائل نے ادھ موا کیے رکھا ہے وہ تواتر کے ساتھ چیخ چلا رہے ہیں کہ انہیں جینے دیا جائے، ٹیکسوں کی بھرمار کو روکا جائے انصاف آسان اور سستا فراہم کیا جائے ان کو تھانہ اور پٹوار کلچر سے نجات دلائی جائے مگر اب تک کسی نے ان کی ایک نہیں سنی انہوں نے اگر احتجاج کا راستہ اختیار کیا تو ان پر مقدمات قائم کر دیے گئے قانون پر عمل درآمد کرانے والے محکموں کے ذریعے ان پر تاریخی تشدد کرایا گیا۔ ان کے بولنے پر مختلف طریقوں سے پابندی لگا دی گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ انہیں دینے کو کچھ نہیں بچا کہ ان کے حصے کا حکمران طبقات میں تقسیم ہو گیا ہے لہٰذا وہ (حکمران) ان پر امور مملکت چلانے کے لیے ٹیکسوں کا بوجھ لاد رہے ہیں جس کی ان میں سکت نہیں مگر حکمران طبقات کو اس کی پروا نہیں وہ (عوام) مریں یا جئیں اس سے انہیں کوئی سرو کار نہیں کیونکہ انہیں اپنے اقتدار و اختیار کو مضبوط بنانا ہے اپنے دوستوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہے لہٰذا پورے ملک میں بے چینی کی شدید لہر 
آئی ہوئی ہے مگر یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہو گا کہ حکومت نے تیل کی قیمتوں میں کمی کی ہے۔ تا کہ لوگوں کو تھوڑا بہت ریلیف مل سکے سوال یہ ہے کہ تاجر ہوں یا ٹرانسپورٹر ز وہ بھی عوام بارے سوچیں گے یا نہیں کہ کیا کرایے کم کر دیں گے اور تاجر حضرات اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو نیچے لے آئیں گے لگتا نہیں کیونکہ منافع انہیں عزیز ہے عوام نہیں اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تیل سستا کر دیا گیا ہو اور چیزیں سستی ملنے لگی ہوں۔ اب سو یونٹ کا ذکر بھی ہوجائے بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو اس سہولت سے مستفید ہو سکیں گے یعنی عام آدمی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہاں البتہ سردیوں میں بھی ایسا ہو سکتا ہے تو پھر کئی گھرانوں کوفائدہ پہنچنے کی امید ہے۔ بہرحال یہ چھوٹے چھوٹے ریلیف مجموعی طور سے عوام کو خوشحال نہیں بنا سکتے لہٰذا لازمی ہے کہ دولت کی تقسیم کو منصفانہ بنایا جائے اور موجودہ نظام حیات کو سرے سے تبدیل کر دیا جائے پھر آزاد خارجہ پالیسی کو اپنایا جائے اپنی سیاسی لڑائیاں بے شک لڑی جائیں مگر ان میں انتقام کو نزدیک نہ آنے دیا جائے کیونکہ ہم اس کے متحمل نہیں ہیں بہت کچھ گنوا چکے ہیں۔ ذرا ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں وہاں کیسی پر سکون و پر امن سیاست کاری ہوتی ہے۔ وزیراعظم بھی بدلتے ہیں صدور بھی آتے جاتے ہیں عام انتخابات بھی ہوتے ہیں مگر وہ تحریکیں نہیں چلاتے اگر وہ احتجاج بھی کرتے ہیں تو انتہائی مہذب انداز میں اور حکومت احتجاجیوں پر ایسا تشدد کبھی نہیں کرتی جس سے وہ اپاہج ہو جائیں یا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ حکمران آپس میں مل بیٹھیں گلے شکوے ضرور کریں مگر تحمل کے ساتھ انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ اب تک سوائے نفرت اور انتقام کے کیا کر پائے ہیں آپس میں دست و گریباں ہونے سے کیا حاصل ہوا آرام و سکون سے کس نے یہاں حکمرانی کی۔ عوامی فلاحی منصوبوں پر کب یکسوئی سے عمل درآمد ہوا۔ ایسا نہیں ہو سکا بس ایک دوسرے کو برا بھلا ہی کہا وہ بدعنوان ہے۔ وہ غلط ہے اور وہ ملک مخالف ہے کی گردان کی گئی۔ ان باتوں کو ختم کر کے آگے بڑھنے کی فکر کی جائے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ فی الفور موجودہ حکومت سے دوستی کر لیں ایک میز پر بیٹھ کر معاملات طے کریں حکومت بھی اگر وہ واقعی عوام کے دکھ میں اپنی نیند پوری نہیں کر رہی تو نئے انتخابات کا اعلان کر دے اور وہ انتخابات صاف شفاف ہوں اقتدار اب کسی کے لیے بھی پھولوں کی سیج نہیں رہا۔ اس کو قدم قدم پر مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک انقلاب برپا کرنا ہو گا پھر ڈکٹیشن لینا ترک کرنا ہو گی۔ آئی ایم ایف کو جس طرح آج ہم نے سر پر سوار کر رکھا ہے۔ یہ سلسلہ روکنا ہو گا۔ ملک کے وسائل پر گزارا کرنا ہو گا کیونکہ قرضہ در قرضہ لینے سے نظام زندگی تادیر نہیں چلایا جا سکتا۔ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ہر کسی کو سر جوڑنا ہو گا اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حکمران طبقات ان سے مخلص نہیں اس کا احساس اب بھی انہیں ہو رہا ہے لہٰذا وہ اپنی قیادت خود کرنے نکل کھڑے ہوں گے کیونکہ برداشت ان میں ختم ہو چکی ہے پچھہتر برس میں وہ اپنے حکمرانوں کی سوچ کو دیکھ اور سمجھ چکے ہیں کہ وہ اقتدار کے لیے ان کے مستقبل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے لہٰذا اہل اقتدار و اختیار کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ لڑیں نہیں بغلگیر ہو جائیں انہیں کسی مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی آزادانہ کر سکیں گے وہ وقت گزر گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے لہٰذا وہ حالات کے تیور دیکھیں اور جلد کوئی فیصلہ کرلیں۔

مصنف کے بارے میں