حمزہ پرویز جیسے نقالوں سے ہوشیار۔۔۔

حمزہ پرویز جیسے نقالوں سے ہوشیار۔۔۔

حمزہ شہباز مارکہ پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس پر بحث دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ دوسری طرف پنجاب اسمبلی کی پُرشکوہ عمارت میں سپیکر پرویز الٰہی اپنی منڈلی سجائے بیٹھے ہیں۔ پارلیمانی روایات کا جو ستیا ناس ان اجلاسوں میں مارا جا رہا ہے پارلیمانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اپوزیشن کا اجلاس جو پنجاب اسمبلی میں ہو رہا ہے اور دوسرا ایوان اقبال میں ہونے والا حکومتی دونو ں اجلاسوں کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہاں سیاسی مصلحت اور انا کی تسکین کی حد تک شاید ٹھیک ہو۔ ویسے دیکھا جائے تو پنجاب اسمبلی کا اسمبلی سیکرٹریٹ اور ایوان اقبال میں ہونے والا بجٹ اجلاس اور طریقہ کار دونوں ہی پارلیمانی روایات اور مروجہ قوانین کے مطابق غلط ہیں۔ لیکن اصلی اور نقلی اجلاس کی گتھی اتنی الجھ گئی ہے کہ دونوں نقالوں پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہاں شہباز شریف کی ایڈمنسٹریشن کی یاد آتی ہے اگر وہ ہوتے تو حالات اس نہج تک نہ پہنچ پاتے اور وہ کچھ نہ کچھ حل نکال لیتے۔ لیکن لگتا ہے شہباز شریف نے حمزہ شہباز کو درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا۔ دوسری طرف پرویز الٰہی بھی عمران خان کی ’’پچھاڑی‘‘ میں جھکڑے ہیں اور ایک مخصوص دائرے سے نہیں نکل سکتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے اکثر اراکین سپیکر پنجاب اسمبلی کے اسمبلی اجلاس چلانے کے طریق کار سے اتفاق نہیں کرتے لیکن پارٹی ڈسپلن کی وجہ سے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کیفیت سے دوچار ہیں۔
پارلیمانی روایات کے مطابق بجٹ تقریر کے بعد اپوزیشن لیڈر بحث کا آغاز کرتا ہے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ اس بحث کا آغاز بھی ایک حکومتی رکن امیر معاویہ نے کیا۔اپوزیشن کے بغیر بجٹ اجلاس اسمبلی کے بجائے الحمرا میں کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اگر اجلاس میں اپوزیشن شریک ہوئی تو نمبر گیم کی بنا پر بجٹ نامنظور ہونے کے خدشات قوی تھے۔ کیونکہ 50 کے قریب ایک ایک مطالبہ زر پر ووٹنگ کرانا اور وہ بھی یقینی کامیابی کے ساتھ جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔ اس لیے مسلم لیگ ن نے فیصلہ کیا اسمبلی اجلاس کو بھی ہاؤس آف شریف کی طرح ’’All in the Family‘‘ کے طور پر چلایا جائے تا کہ مخالف آواز اٹھ ہی نہ سکے۔ گو کہ آل شریف میں بھی برتن کھڑکنے کی آوازیں مسلسل آ رہی ہیں لیکن اقتدار کے بھرم کو قائم رکھنے کے لیے ان آوازوں کو اسی طرح لیا جا رہا ہے جیسے بہرے کے کانوں پر ڈرم بجائے جا رہے ہوں۔ اس طرح ایوان اقبال برانڈ پنجاب اسمبلی کے اکثر اراکین بھی اس تماشے سے خوش نہیں ہیں۔ جب میں نے کہا کہ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہی اس صورتحال کے خلاف ایوان میں بھی آواز اٹھائیں تو کہنے لگے اس کے بعد شاید وہ بھی سیاسی طور پر ’’Missing Preson‘‘ بن جائیں۔ جہاں ذاتی مفاد مقدم ہو اور حاکم وقت سے خوف کا یہ عالم ہو تو وہاں سے کسی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔
مسلم لیگ ن کی سیاست میں متعارف کیے گئے گناہوں میں سے ایوان اقبال کا اجلاس ناقابل معافی ہے۔ جب پینل آف چیئرمین طاہر خلیل سندھو نے ہاؤس میں کہا کہ اپوزیشن لیڈر سبطین خان سے میری بات ہوئی ہے اور وہ تشریف لا رہے ہیں تو مجھے تھوڑی حیرانی ہوئی۔ میں نے اسی وقت سبطین خان کو اس متعلق فون کیا تو انہوں نے صاف انکار کیا اور کہا کہ ان کی کسی سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ اب اسے کیا کہیں سچا کون اور جھوٹا کون؟
یہ بھی بعید نہیں کہ اتمام حجت کے طور پر پنجاب کے عوام یہ بھی دیکھیں کہ بجٹ پر ’’کٹ موشنز‘‘ بھی حکومتی اراکین ہی پیش کریں۔ اوپر سے بجٹ کی مظوری کی تاریخ 21 جون رکھی گئی ہے کس نے مخالفت کرنی ہے۔ اس ٹوپی ڈرامے کی جگہ بجٹ کے اگلے دن ہی ’’قبول ہے قبول ہے‘‘ کرا لینا تھا۔ کم از کم بجٹ پر بحث اور دوسری کارروائیوں کے ٹوپی ڈرامہ سے تو بچا جا سکتا تھا اور سب سے بڑھ کر اس عیاشی پر قومی خزانہ کی کچھ تو بچت ہو سکتی تھی۔
دوسری طرف حمزہ شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کا یہ حال ہے کہ ایوان اقبال میں اجلاس کے دوران ان کے دفتر کے لیے کرسی، کوڑے دان اور ٹشو پیپرز وغیرہ تک بھی ایوان اقبال کے دفاتر سے تنکا تنکا کر کے اکٹھے کیے گئے۔ عموماً یہ انتظامات اسمبلی سیکرٹریٹ کرتا ہے لیکن شاید وہ بھی ان کے کنٹرول میں نہیں یا سپیکر پرویز الٰہی نے اپنی انا کی تسکین کے لیے ایوان اقبال والی اسمبلی میں سٹاف کو بھیجا ہی نہ ہو۔ اطلاعات 
ہیں کہ اجلاس کے تمام تر انتظامات ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بذریعہ کمشنر و ڈپٹی کمشنر کے سپرد کیے گئے تھے۔ ویسے تو دس ہاتھ کی دوری پر 90 شاہراہ قائد اعظم بھی ہے اور وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ بھی اپنے ’’صاحب‘‘ کے شایان شان انتظامات کر سکتا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری محکموں میں کام مکھی پر مکھی مارنے کے مترادف ہوتا ہے جب کنٹرولر سٹاف سے پوچھا گیا تو انہوں نے وہی رٹا رٹایا جواب دیا کہ اسمبلی ان کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔ اس سے قبل بھی ایوان اقبال اسمبلی میں ایئر کنڈیشنگ کی صورتحال کا بتا چکا ہوں۔ پینے کا پانی بھی نایاب تھا اور نارنجی کولرز میں برف کے ڈلے ڈال کر پانی مہیا کیا گیا جب ڈھکن اٹھا کر دیکھا تو اس میں برف کے ساتھ آئے ’’ particules‘‘ بھی تیراکی کرتے نظر آ رہے تھے۔ نوجوان صحافی شاہد چودھری پینے کے صاف پانی کی لکھ لکھ کر بھی دہائی دیتے رہے لیکن انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ پتہ چلا کہ ضلعی انتظامیہ نے شادی بیاہ کا انتظام کرنے والوں کے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا پھر تو نتیجہ بھی یہی نکلے گا۔شہباز شریف لوٹ آؤ کیونکہ ’’Junior Sharif‘‘ سے کچھ بھی نہیں سنبھل رہا۔
دوسری طرف پرویز الٰہی کی پنجاب اسمبلی میں ہونے والا اجلاس بھی بے رنگ لگ رہا تھا۔ یقیناً انتظامات تو شاندار تھے لیکن حکومت کی عدم شرکت سے ’’اپوزیشن‘‘ کا اسمبلی اجلاس بھی حقیقی مقاصد پورا کرتا نظر نہیں آ رہا تھا اور یہی کچھ ’’حکومتی‘‘ اجلاس کا حال تھا جہاں اپوزیشن کے بغیر یکطرفہ کارروائی جاری تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن اجلاس میں ہونے والی مجوزہ قانون سازی اور اسمبلی رولز کی حیثیت کیا ہو گی؟ پنجاب اسمبلی کے ملازمین بھی سخت کشمکش میں ہیں کہ کدھر جاں کس کی مانیں؟
پاکستان میں سیاسی صورتحال کے بارے میں پیشین گوئی کرنا ایسے ہی ہے جیسے آج کل لوڈ شیڈنگ کوئی پتہ نہیں کب تاریکی چھا جائے۔ لیکن کراچی NA240 کے ضمنی انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ’’لائن مین‘‘ نامساعد حالات کے باوجود مرضی کے فیڈر کو سپلائی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شنید ہے کہ نظام کو بچانے کے لیے پنجاب کے ضمنی انتخابات کے دوران بھی یہی عمل دہرایا جائے گا؟ اب سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا ’’Regime Change‘‘ کے عمل کی طرح محض خاموش تماشائی بنے رہے گی؟
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔

مصنف کے بارے میں