چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے

 چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے

ہمارے قصبوں اور دیہاتوں میں چھوٹے چھوٹے روٹس پر چلنے والی پرانی بسوں اور ویگنوں کے پیچھے لکھا ہوا یہ شعر ان بسوں ویگنوں کی حالت زار کی عکاسی کرتا ہے ،نہ انجن کی خوبی نہ کمال ڈرائیور،چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے۔اگر ہم غور سے جائزہ لیں تو ان دنوں پنجاب حکومت پر بھی یہ شعر بہترین فٹ آتا ہے،ہمارے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی حکومت اگلے مہینے ہونے والے ضمنی الیکشن پر تکیہ کیے ہوئے ہے ،کہا جا رہا ہے کہ بیس نشستوں پر ہونے والا یہ ضمنی الیکشن فیصلہ کرے گا کہ پنجاب میں حمزہ حکومت چلتی رہے گی یا پھر پرویز ٰحکومت کی راہ ہموار ہوگی،حکومت اور اپوزیشن کے پنڈت آنے والے ضمنی الیکشن کے حوالے سے جمع تفریق میں مصروف ہیں،مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ اگر وہ ضمنی الیکشن میں دس سیٹیں حاصل کر لیتے ہیں تو انکی حکومت ڈٹ کے کھڑی ہو جائے گی اور پھر وہ موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔عوامی حالات کا جائزہ لیں تو اس وقت ملک میں کسی بھی الیکشن کے لئے بلے کا نشان جیت کی علامت بنا ہوا ہے اور اس طرح ضمنی الیکشن کا پلڑا تحریک انصاف کی طرف بھاری لگتا ہے مگر دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کو الیکشن لڑنے کی سائنس تحریک انصاف کی نسبت بہتر آتی ہے ،اور جب ضمنی الیکشن ہوں اور حکومت بھی انکی ہو تو ان کے لئے ایک اور ایک دو نہیں بلکہ گیارہ ہوتے ہیں۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے جس کامیابی سے پنجاب میں تین دفعہ حکومت چلائی تھی ،ان کے صاحبزادے کو وہ ہنر ابھی نہیں آیا،اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا ہے،بقول منیر نیازی ،ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو ،جو ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا ،ان کا حلف تاخیر سے ہوا ،کابینہ بننے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مخلوط حکومت کی وجہ سے وزراء کی تعداد اور محکمے بھی ابھی کھٹائی کا شکار ہیں ،ان کی حکومت کا میڈان بجٹ تاخیر کا شکار ہوا اور پھر وہ ایوان پنجاب اسمبلی کے بجائے ایوان اقبال میں پیش ہوا۔اسی طرح سیاسی کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات بھی شہباز سپیڈ کے معیار پر پورا نہیں اتر رہے ،وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز سقہ بند مشورہ دینے والوں کے بجائے ناپختہ قسم کے وزیروں مشیروں میں گھرے ہوئے ہیں جو ان کی مشکلات کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کا موجب بن رہے ہیں ، انہیں ملک احمد خان جیسے دانا اور صلح جو قسم کے اور رانا اقبال احمد خان جیسے تجربہ کار لوگوں کا ساتھ بھی حاصل ہے،جن سے وہ شاید مکمل فائدہ اٹھانے کے بجائے لاہور ی ارسطوؤں کے ایگریسو مشوروں پر زیادہ عمل کر رہے ہیں ،جس کی ابھی ضرورت ہے نہ اس کا وقت آیا ہے ۔ بیوروکریسی صرف ایک افسر کے سہارے کھڑی ہے اس کا نام بیرسٹر نبیل اعوان ہے ،انہیں چیف سیکرٹری کامران علی افضل کا مکمل ساتھ بھی حاصل ہے، اس وقت پنجاب کی بیوروکریسی میں جو بہتری نظرآ رہی ہے اس کا کریڈٹ نبیل اعوان اور کامران علی افضل کو جاتا ہے،نبیل اعوان ایوان وزیر اعلیٰ اور ایوان وزیر اعظم کی ورکنگ کے نہ صرف ماسٹر ہیں بلکہ انہیں ارکان اسمبلی کو ڈیل کرنا بھی آتا ہے ،اسی طرح چیف سیکرٹری کامران علی افضل کو تبدیل کرنے اورانکی جگہ امداد بوسال کو لانے کی باتیں ہو رہی تھیں مگر میں نے کافی پہلے کہا تھا کہ انہیں پنجاب کے ایک اور اہم ترین سیکرٹری کا ساتھ حاصل ہے وہ ان کے ساتھ وفاق میں کام کر چکے ہیں اسی طرح بیرسٹر نبیل اعوان اور کامران افضل کا بھی ورکنگ کا پرانا تعلق ہے دونوں نے ایوان وزیر اعظم میں اکٹھے کام کیا ہے اور اب چیف سیکرٹری کامران افضل نے وزیر اعلیٰ حمزہ کے سارے کرائسز میں ان کا جو ساتھ دیا ہے ،اسے موجودہ حکومت کیسے بھول سکتی ہے ،یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت پنجاب میں پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کی مثالی ورکنگ چل رہی ہے۔ 
قارئین پچھلے دنوں ایک افسر عمران رضا عباسی کی خود کشی نے بڑا دکھی کیا ، یہ ایک حقیقت ہے،قوموں اور ملکوں میں انتشار،فساد،انارکی اس وقت جنم لیتی ہے جب ریاستی اداروں میں یکسوئی کا فقدان ہوتا ہے، ادارے، وزارتیں اور محکمے اگر سمت درست رکھیں تو اس ملک کو ترقی کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی،لیکن اگر محکموں کے اندر افسروں میں کیڈر کے فرق کو وجہ نزاع بنا لیا جائے اور ایک کیڈر کوآسمانی مخلوق اور دوسرے کو دلت سمجھ لیا جائے تو پھر ترقی کیا خاک ہو گی،اگر افسر خود کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں جیسا کہ عمران رضا عباسی کی نا گہانی موت ہے، مجھے نہیں پتہ اس نے خود کشی کیوں کی ،مگر اسکی خود کشی اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئی ہے ،جس کے بعد سول سروس والے بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں عمران عباسی ایک جنٹلمین،کام کرنے والا محنتی افسر تھا۔ جس نے ،صوبائی سول سروس سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس تک کی بڑی اوکھی منزل طے کی اور اپنے آپ کو واقعی پی اے ایس کا افسر سمجھنے لگا ،مگر وہ پھر بھی پرانا پی سی ایس ہی رہا اور پوسٹنگ ٹرانسفر میں وہ مقام حاصل نہ کر سکا جس کے خواب اس نے پی اے ایس افسر بن کر سوچے تھے۔اللہ بہتر جانتا ہے اس کی خود کشی کی وجہ کیا ہے ؟ مگر وہ اپنی تعیناتیوں سے بھی دلبرداشتہ تھا،
 خود کشی کی وجہ یہی امتیازی برتاؤہے یا وجہ کچھ اور ہے اس بارے اللہ رب العزت ہی بہتر جانتے ہیں مگر صوبائی کیڈر کے افسروں کے ساتھ کئی دہائیوں سے برا سلوک ہو رہا ہے۔ میں پاس کے افسروں کا مخالف نہیں ہوں مگر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ سروس کے برہمن اور صوبائی افسر شودر ہیں۔ صوبائی افسروں میں بھی سارے کرپٹ نہیں اور نہ ہی پاس کے سارے افسر پوتر ہیں ،مگر دونوں کے درمیان کلاس کا ڈفرنس بڑھتا چلا جا رہا ہے، عمران رضا عہدے کا چارج نہ ملنے اور اپنے ساتھیوں کی بہتر جگہ تعیناتی نہ ہونے پر بھی خاصے شاکی تھے،انہوںنے مختلف اعلیٰ افسروں کو کہا کہ میں نے محنت کر کر کے پی سی ایس سے پاس میں شمولیت کیلئے امتحان دیا اور کامیابی بھی حاصل کی لیکن ہمیں اہمیت نہ دی گئی ،عمران رضا اپنے دوستوں کو اس حوالے سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔
 اس میں تھوڑی بہت حقیقت ضرور ہے کہ پی اے ایس افسران ،صوبائی افسروں کیلئے ہمیشہ مخاصمت اور متعصب پالیسی پر عمل پیرا رہے،کسی جگہ تعیناتی کیلئے اگر 20ویں سکیل کا افسر ہونا ضروری ہے تو پاس کے 19ویں سکیل کے اکثر افسروں کی تعیناتی ہو جاتی ہے مگر یہ حق صوبائی سروس والوں کو کم کم ہی ملتا ہے۔
اس رویے اور برتاؤ سے اکثر صوبائی افسر شاکی رہتے ہیں ،پی سی ایس افسر اس بات سے سخت نالاں ہیں کہ وہ اپنا حق لینے کیلئے سالہا سال سے دھکے کھا رہے ہیں مگر کسی نے کبھی ان کی داد فریاد نہ سنی،سوال یہ ہے کہ جو صوبائی بیوروکریٹ اپنا حق نہیں لے سکے وہ عوام کو کیا انصاف دینگے،اس پر نبیل اعوان اور کامران علی افضل کو سوچنا ہوگا۔

مصنف کے بارے میں