پی اے بی آئی سی نے ایف سی سی یو کے اشتراک سے ڈاکٹر کوثر عبد اللہ ملک کی کتاب شائع کر دی 

agriculture bio technology

لاہور :پاکستان بائیوٹیکنالوجی انفارمیشن سنٹر (پی اے بی آئی سی) لاہور نے ایف سی کالج یونیورسٹی (ایف سی سی یو) کے اشتراک سے ڈاکٹر کوثر عبد اللہ ملک کی تحریر کردہ کتاب  پاکستان میں زرعی بائیو ٹیکنالوجی کی موجودہ صورتحال پر ایک کتاب شائع کر دی ہے۔ کتاب کا لانچنگ آن لائن تقریب کے ذریعے کی گئی، جس میں سائنس دانوں، پالیسی سازوں، اور بائیوٹیک کے معروف اداروں، اکیڈمیہ کراپ سائینس انڈسٹری، کسانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے نمائندوں نے آن لائن شرکت کی۔

کتاب میں پاکستان میں بائیوٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور مہارت اور موجودہ تحقیق کی تفصیلات، کمرشلائزیشن  میں حائل رکاوٹوں اور اس  ٹیکنالوجی  کے حوالے سے  موجود  قوانین و ضوابط کے بارے میں ایک جائزہ پیش  کیا گیا ہے۔  اس کتاب کا بنیادی مقصد بائیو ٹیکنالوجی کے حوالے سے ملک میں ہونے والی مختلف تحقیقات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا ہے تا کہ ریسرچرز ایک دوسرے کے کام کے حوالے سے جان سکیں اور مدد حاصل کر سکیں۔ 

 ایف سی کالج یونیورسٹی اور پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز کے ڈین، ڈاکٹر کوثر ملک نے اپنی کتاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کتاب میں  ملک میں قائم مختلف ریسرچ اداروں کی جانب سے کی جانے والی ریسرچ کو یکجا کرنا تھا تا کہ بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے پر تحقیق کرنے والے  اداروں اور ریسرچرز کو مدد مل سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بایوٹیکنالوجی میں دلچسپی ظاہر کرنے والے ابتدائی ممالک میں سے ایک تھا، جس کا1981 میں بین الاقوامی بائیوٹیکنالوجی ریسرچ سنٹر کی میزبانی کے لئے نامزدگی کے ساتھ آغاز ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تمام ابتدائی وعدوں کے باوجود، ملک کو اس جدت سے پوری طرح فائدہ نہیں ہوا ہے۔ پاکستان کی بایوٹیکنالوجی کو اپنانے کی ایک دیرینہ پالیسی ہے، جو 1994 کے بعد سے ملک بھر میں متعدد تحقیقی اداروں اور تعلیمی پروگراموں کے قیام اور فنڈنگ میں ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم، متعلقہ وزارتوں اور ریگولیٹری اداروں کے مابین ایک جامع کو آرڈینیشن نہ ہونے سے ٹیکنالوجی کی منظوری کے راستے میں روکاوٹیں پڑ رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا حکومت اور اس سے متعلقہ وزارتوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لئے ایک بہتر ماحول فراہم کرنا چاہئے۔

مہمان خصوصی  پنجاب کے وزیر زراعت، جناب حسین جہانیہ گردیزی نے اس بات پر تقویت دی کہ بائیوٹیکنالوجی فوڈ سیکیورٹی کے مسئلے کو بہتر بنانے اور غربت کو کم کرنے کے لئے ایک آلہ ہے، پاکستانی کسانوں کے ذریعہ بائیوٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا بلکہ ملک کو درپیش غذائی تحفظ سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ “فوڈ سیکیورٹی اتنا ہی اہم ہے جتنا قومی سلامتی۔ مجھے یقین ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششوں اور پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دو طرفہ نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔  انہوں نے مزید وعدہ کیا کہ حکومت پنجاب ایگریکلچر ریسرچ بورڈ کو مزید مستحکم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ وہ زرعی بایوٹیکنالوجی منصوبے کی حمایت کرسکے اور اس کی کمرشلائزیشن میں سہولت پیدا کرسکے۔ حکومت پنجاب نے بھی ریگولیٹری پروٹوکول کو مستحکم اور آسان بنانے کے لئے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ کیا ہے تاکہ کی گئی تحقیقات کو تجارتی بنایا جاسکے۔

ڈاکٹر فرزانہ الطاف شاہ، ڈائریکٹر PAK- EPA نے حکومتی وزارتوں اور محکموں پر بھی زور دیا کہ وہ سائنس مخالف پروپیگنڈے اور ڈس انفارمیشن  کی بجائے پالیسیوں اور اصلاحات کی حمایت کریں۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی دنیا میں زرعی جنگ شروع ہوگی  لہذٰا پاکستان کو بائیو ٹیکنالوجی  اپناتے ہوئے اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔