عام شہری کا مسئلہ…

عام شہری کا مسئلہ…

ریاست کو ماں کا درجہ اسی لئے حاصل ہے کہ ہر شہری یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو ماں اپنے بچے کے ساتھ کرتی ہے، اس لئے آزادی جیسی نعمت کی قدر کی جاتی ہے اس کے لئے قربانیاں دی جاتی ہیں، لیکن اس کے باوجود عام شہری قومی اداروں کی موجودگی میں مافیاز کے ہاتھوں لٹتا رہے تو ہر شہری کا اعتما ریاست سے اٹھ جاتا ہے، اس عمل سے اداروں کی بد انتظامی عیاں ہوتی ہے۔ 
مہذب ریاستوں میں سرکار اپنے شہری کو ہمہ قسم کا تحفظ دینے کے لئے نت نئی پالیساں بناتی رہتی ہے تاکہ متوقع خدشات کے پیش نظر ان سازشی عناصر کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں جو ساد ہ لوح افراد کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔
ارض پاک میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب نو سر بازوں کے ہاتھوں کسی شہری کے لٹنے کی خبر میڈیا کی زینت نہ بنتی ہو، جو اس بات کا غماض ہے کہ ہر سانحہ کے بعد ادارے متحرک ہوتے ہیں۔ عمومی رائے یہ ہے کہ ملک میں بڑی بے روزگاری ہے، جس میں ہر نئے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، اس کے باوجود آپ کو خدمات کے شعبہ میں قحط الرجال نظر آتا ہے، اس وقت بھی آپ ایک اہل، با صلاحیت، ایماندار الیکٹریشن، پلمبر، میسن یا کاریگر ڈھونڈنے نکلیں تو آپ کو بڑی مایوسی ہو گی۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اچھی تربیت یافتہ لیبر کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو مارکیٹ میں دستیاب ہے، جو موجود ہیں وہ ان کاریگروں پر مشتمل ہے جو ’’چھوٹا کلچر‘‘ کی پیدا وار ہیں، ان کا وژن اتنا ہی ہے جو انھوں نے اپنے استاد سے سیکھا ہے، کسی بھی ہنگامی صورت میں ان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں، ایسی صورت حال میں صارف کے نقصان کے امکانات ہوتے ہیں لیکن کوئی پر سان حال نہیں ہوتا ،نہ تو کاریگر ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہوتا ہے نہ وہ دکاندار جس نے افرادی قوت مہیا کی ہوتی ہے، اس کیفیت سے دوچار صارف بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہوتا ہے کہ وہ کس سے منصفی چاہے، دوسری پریشانی جس کا صارف کو سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اشیاء کے خالص اور ایک نمبر ہونے کا ہے، ایسی چیزیں جو فنی نوعیت کی ہوتی ہیں، ان کے بارے میں عام فر د لاعلم ہوتا ہے، انکی ہیئت، کام کرنے کا طریقہ، اسکی پاورسے وہ نابلد ہوتا ہے جس کا فائدہ مفاد پرست دکاندار اٹھاتا ہے، 
اور غیر معیاری چیز دے کر اصل کی قیمت وصول کرتا  ہے، اس کے پاس کوئی پیمانہ نہیں جس سے وہ اسکی کوالٹی ماپ سکے، نہ چاہتے ہوئے بھی اسے دکاندار پر اعتماد کر نا پڑتا ہے۔
یہی معاملہ گھریلو اشیاء کی مرمت کا ہے، روز مرہ کی جو چیزیں خراب ہو جاتی ہیں انکی مرمت اس ماحول میں درد سر بن جاتا ہے،انکی مرمت کرنے والے نہ تو کوئی مستند سند رکھتے ہیں، نہ انکی شاپ کسی ادارہ کے ساتھ رجسٹرڈ ہوتی ہے، وہ کسی کی شاپ کے سامنے یہ خدمت انجام دیتے ہیں، جسکی ذمہ داری وہ بھی قبول نہیں کرتا، لہٰذا کسی خرابی یا کسی پارٹس کی تبدیلی کا دکھ گاہک ہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔پارٹس کی تبدیلی کی شکایت بھی زد عام ہے۔
 ہماری اخلاقی اقدار پہلے ہی زوال پذیر ہیں، یہ نیم خواندہ طبقہ بھی اس سے زیادہ متاثر ہے وہ صاف گوئی سے کام لینے کے بجائے اس میں ڈنڈی مارنے کی پوری کاوش کرتا ہے کہ مہینہ بھر کی کمائی ایک دن ہی میں ہو جائے، مارکیٹ میں میسر ایماندار، باصلاحیت، مخلص مکینک، پلمبر،ا لیکٹریشن، مستری، میسن، ویلڈر، موٹر مکینک، ٓاٹو الیکٹریشن، ریفریجریٹر، اے سی مکینک، موبائل ٹیکنشن، ٹیلر، بیوٹیشن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، اس کے باوجود واویلا یہ ہے کہ ملک میں بڑی بے روزگاری ہے۔
سماجی زوال کا یہ عالم ہے کہ لاکھوں کی شہری آبادی میں آپ کو چند معدودے ایماندار تربیت یافتہ افرادمیسرہوں گے جن پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جا سکے، تو اسے المیہ کے علاوہ کیا نام دیا جائے دوسری طرف بے روزگاروں فوج ظفر موج بھی موجود ہو۔
اگرچہ پنجاب میں ٹیوٹا اتھارٹی نے آر پی ایل کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کا مقصد ان نوجوانوں کو جو کام جانتے ہیں انھیں سرٹیفکیٹ دیا جائے تاکہ بیرون ملک روزگار حاصل کرنے میں انھیں آسانی ہو،کہا جاتا ہے کہ بیرون ملک بالخصوص عرب ممالک میں صرف اس ورکر کو کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے جو باقاعدہ کسی فرم کے ساتھ رجسٹرڈ ہوتا ہے اس کا لائسنس ہوتا ہے اور وہ تعلیمی سند رکھتا ہو، اس لحاظ سے اگر اس سے کوئی غلطی سر زد ہوتی ہے تو اسکی کمپنی ذمہ داری قبول کرتی ہے، نقصان کی صورت میں ازالہ کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر بلدیاتی ادارے سارے کا م کی نگرانی کرتے ہیں۔ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان کا لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئی ادارہ بھی ایسی سرگرمی انجام نہیں دیتا جس سے اس بابت کوئی شکایت کی جائے، بڑے برینڈ کی آٹو کمپنیز پر ہر صارف اعتما د تو کرتا ہے لیکن انکی فراہم کردہ خدمات کا معاوضہ عام شہری کی پہنچ سے باہر ہوتا جارہاہے گاڑیوں کے پارٹس کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ ہوتی ہے، عمومی رائے یہ ہے کہ خدمات کے شعبہ کی زبوں حالی کا بڑا سبب کمیشن مافیاز بھی ہے، جو اس سامان کے عوض دکان داروں سے کمیشن لیتا ہے جو صارف کی ضرورت کے لئے خرید کیا جاتا ہے، اس لئے ہر کاریگر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس سے سامان کی خریدداری کرے جہاں سے اسے زیادہ کمیشن ملتا ہے، سادہ لوح افراد کو ضرورت سے زائدسامان خریدنے پر مجبور کرتا ہے، وہ خواتین جن کو گھر کاکام مردوں کی عدم موجودگی میں کرانا پڑتا ہے انکی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے ، اگر رجسٹرڈ دکانیں ہوں اور ان پر سند یافتہ افراد ہوں کوئی سرکاری ادارہ انکی مانیٹرنگ کر رہا ہو تو اس کے خوف سے عام شہری کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں جو گھریلو اشیاء کی مرمت اور خدمت کے نام پر لٹتے رہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بیرون ملک کوئی بھی دکاندار سرکار کے مجوزہ قوانین کی پیروی کرنے کے بغیر مارکیٹ میں دکان نہیں کھول سکتا اس کو بلدیہ ادارے کے ہاں لازمی رجسٹرڈ ہونا پڑتا ہے وہ ان تمام قوانین پر عمل پیرا ہوتا ہے جو صارف کی فلاح کے لئے بنائے جاتے ہیں، ہمارے ہاں جس کا جی چاہتا ہے وہ آتش گیر مادہ تک کی دکان بغیر اجازت آبادی میں کھول لیتا ہے، خدانخواستہ حادثہ کی صورت میں قانون حرکت میں آتا ہے پھر لمبی خاموشی ہو جاتی ہے۔
باصلاحیت، ایماندار،مخلص، چست تربیت یافتہ افرادی قوت کی تلاش ہر شہری کا مسئلہ ہے، جو کم ہی میسر آتی ہے،فی زمانہ سوشل میڈیا کی وساطت سے اس نوع کی افرادی قوت مذکورہ کاموں کے لئے فراہم کی جارہی ہے، جو حضرات ایپ کے ذریعہ یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، وہ مہیا کردہ افرادی قوت کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ اگر سامان کی فراہمی کو یقینی بنائیں تو اس سے بھی عام شہری کو ریلیف مل سکتا ہے، لیکن سب زیادہ ذمہ داری سرکار کی ہے کہ وہ عام لوگوں کو اس طبقہ کی لوٹ مار سے بچانے کا کوئی قانونی طریقہ وضع کریں، تاکہ عام شہری ایسے لوگوں کے ہاتھوں لٹنے سے محفوظ رہ سکے۔ 

مصنف کے بارے میں