خیبر پختونخوا: بچوں کیساتھ زیادتی کے مجرم کی پھانسی کے وقت ویڈیو بنانے کی تجویز

خیبر پختونخوا: بچوں کیساتھ زیادتی کے مجرم کی پھانسی کے وقت ویڈیو بنانے کی تجویز

پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے بچوں کے تحفظ کے لئے قانون میں ترمیم کا فیصلہ کر لیا۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث شخص کو سرعام لٹکانے کی بجائے پھانسی دیتے وقت ان کی ویڈیو بنائی جائے گی۔

تفصیل کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے بچوں کے تحفظ کے لئے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010ء میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث مجرم کو پھانسی دیتے وقت ویڈیو بنائی جائے گی۔

صوبائی حکومت نے بچوں کے تحفظ کے لئے مجرموں کو پچاس سال تک قید میں رکھنے کی بھی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ نئے قانون کے تحت مسجد و منبر کو بھی بچوں کے تحفظ کے قانون سے آگاہی کےلئے استعمال کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 370 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جس میں چار سو سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں رواں سال جنوری میں’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری‘ بِل 2019ء کو متفقہ طور پر منظوری کر لیا گیا تھا۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی بچے کے اغوا یا اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعہ کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنا ہو گی۔ بل کے ذریعے پولیس کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ اگر کسی بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعہ کی رپورٹ درج ہونے کے دو گھنٹوں کے اندر اس پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پولیس افسر قانون کے مطابق اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو اس کا یہ اقدام قابلِ سزا جرم تصور ہو گا۔ یہ بل بچوں کی گمشدگی کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان کی بازیابی کے لیے ایک نئے ادارے ’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی‘ کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔ اس بل کی تیاری کا کام جنوری 2018ء میں پنجاب کے شہر قصور میں چھ سالہ زینب کے اغوا، جنسی زیادتی اور قتل کے بعد شروع کیا گیا تھا۔

زینب قتل کے بعد دسمبر 2019ء میں مانسہرہ کے ایک مدرسے میں دس سالہ بچے کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ نومبر 2019ء میں راولپنڈی پولیس نے ایک گھرانے کی شکایت پر ملزم سہیل ایاز کو گرفتار کیا جس نے پولیس کے بقول 30 بچوں سے جنسی زیادتی کی اور ان کی ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے کا اعتراف کیا۔ ستمبر 2019ء میں ہی فیصل آباد سے چار افراد نے اپنے کمسن بچوں سے مبینہ زیادتی کی شکایات درج کروائی۔ ستمبر 2019ءمیں قصور کی تحصیل چونیاں میں ایک بچے کی لاش اور دو کی باقیات ملیں۔ فیضان نامی بچے کے بارے میں معلوم ہوا کہ انھیں زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ مارچ 2019ء میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں نویں جماعت کے طالب علم محمد عدنان نے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ اس کے بعد فروری 2018ء میں قومی اسمبلی کو فراہم کی جانے والے معلومات کے ذریعے بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے چاروں صوبوں میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17862 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ رپورٹ ہونے والے 10620 واقعات میں لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اسی عرصے کے دوران 7242 لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔

گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے زینب الرٹ ایپ لانچ کی گئی تھی جس کی مدد سے بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو فوری رپورٹ کیا جا سکے گا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی میں بھی مدد ملے گی۔ اس ایپ کو اس انداز میں بنایا گیا ہے کہ یہ عام شہری کو باآسانی متعلقہ اداروں تک جوڑ سکے گی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ایپ پاکستان سیٹیزن پورٹل کے ہی ایک حصے کے طور پر بنائی گئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی بھی بچہ گم یا اغوا ہو جاتا ہے یا پھر تشدد، زیادتی یا کسی بھی قسم کا کوئی نا خوشگوار واقعے کا شکار ہوتا ہے تو اس کو رپورٹ کرنے کے لیے شہری اس ایپ کو استعمال کر سکتے ہیں۔ شہری اس ایپ کو اپنا ذاتی کیس رجسٹر کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی سماجی ذمہ داری نبھانے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔