پچاس سالہ…… ماڈل

پچاس سالہ…… ماڈل

”مرد کی شادی کے لیے مناسب عمر کیا ہے؟“ پچاس سالہ شفیق اعوان نے کانپتے کانپتے پارک میں تیز تیز چلتے ہوئے مجھ سے پوچھا ”آپ اس حد کو کراس کر چکے ہیں؟“ میں نے رک کر شفیق اعوان کے چہرے کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ آپ نے میرے چہرے پر فیصلہ کن نظر ڈالتے ہوئے ”یہ جھوٹ کیوں بولا۔۔ شفیق اعوان نے سنجیدگی سے پوچھا۔
 حضور والا۔۔ چہرہ انسان کے دلی جذبات کا غماز ہوتا ہے۔۔۔ آپ جذباتی نہ ہوں‘؟ آپ نے بند رکودیکھا ہے؟
”بندر کے دودماغ ہوتے ہیں“ میرے سوال پر انھوں نے یہ نئی وضاحت پیش کی۔ لیکن کیا فائدہ۔۔۔؟! یہاں آدھے دماغ والے ایسے ایسے کام کر جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے جبکہ بندر دو دماغوں کے باوجود۔۔ ماچس جلانے سے قاصر ہے۔۔۔ ہاں میں بتانا چاہ رہا تھا کہ بند راکثر اپنے خاندان کا پورا پورا خیال رکھتا ہے۔۔۔ وہ اپنے بچوں سے بے پناہ پیار کرتا ہے۔۔۔ شاید بندر ہی وہ جانور ہے جو ایک طے شدہ معاشرتی نظام کے تابع رہ کر زندگی گزارتا ہے۔ اک بندر دوسرے کی جیب پر نظر نہیں رکھتا۔
 دہلی میں سنا ہے کچھ علاقوں میں جتنے انسان ہیں ان سے کہیں زیادہ بندر وہاں قیام پذیر ہیں اور چونکہ یہ ہندو مذہب میں ”مقدس“ سمجھا جا تا ہے اس لیے اس پر تشددکی وہاں اجازت نہیں حالانکہ بندر وہاں من مانیاں کرتے پھر رہے ہیں۔۔ ویسے ہم نے اپنے ملک کے چڑیا گھروں میں اکثر بندروں کی من مانیاں دیکھی ہیں۔اکثر دیکھا ہے کہ بندر من مانی کرنے میں انسانوں سے کہیں آگے ہیں۔ خوراک میں خودکفیل یہ مخلوق اپنی مثال آپ ہے۔ 
بات شروع ہوئی تھی شفیق اعوان کی پچاس سال کی عمر میں ہونے والی شادی سے اور جاپہنچی بندروں کی من مانیوں تک۔
میں نے شفیق اعوان کو سمجھایا کہ ہر کام اپنے وقت پر ہو تو اچھا لگتا ہے۔۔۔ وقت سے بہت پہلے بھی ٹھیک نہیں اور وقت گزر جانے کے بہت بعد بھی ٹھیک نہیں۔۔۔ پھر تو پچھتاوا ہوتا ہے مایوسی ہوتی ہے یا بہت سی الجھنیں۔۔۔! ایک پروفیسر پندرہ سال سے دعا مانگ رہا تھا۔ یا اللہ! مجھے اولاد دے۔ یا اللہ مجھے اولاد دے۔ ایک دن فرشتہ آیا اورغصے میں بولا ”پروفیسر! خدا کے واسطے پہلے شادی تو کر لو“
”تو جب بندہ پچاس سال کی عمر میں معاشی طور پر مستحکم ہوتا ہے تو وہی وقت شادی کے لیے بہتر ہوتا ہے“۔۔۔ شفیق اعوان اپنی بات پر قائم تھا۔۔۔ جو میں سمجھا وہ میں اسے سمجھا نہیں سکا۔۔۔ ہاں البتہ میں نے ہی محسوس کیا کہ وہ ذہنی طور پر مز ید بکھر گیا، اُلجھ کر رہ گیا لیکن اپنی ضد پر قائم رہا۔۔۔ 
اچا تک شور سا اٹھا۔۔۔ میں نے دیکھا کچھ خوبصورت چہرے باغ میں نمودار ہوئے۔۔۔ ہم نے اس شور شرابے کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ نامور ماڈل تشریف لائی ہیں۔۔۔ ایک صابن کا اشتہار تیار ہو گا۔۔۔ سنا ہے کہ نامور ماڈل سائیکل چلائیں گی۔۔۔ پھر وہ بیلنس خراب ہونے پر گر پڑیں گی۔۔۔ ہیرو اٹھائے گا لیکن ان کی خو بصورت 
پوشاک پر داغ لگ جائیں گے اور پھر صابن اور پاؤڈر کا اشتہار چلے گا۔۔۔ 
ہم نے دیکھا کہ جب جدید دور کی ماڈل نے سائیکل پکڑا اور اس پر سوار ہوئیں تو یوں لگا جیسے وہ سائیکلنگ میں مس ایشیاء کا ایوارڈ جیت چکی ہیں۔۔۔ یہ جاوہ جا۔۔۔ ڈائریکٹر۔۔۔ پروڈیوسر پیچھے سے آوازیں دے دے کر بلا ر ہے تھے۔۔۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہاں پر موجود سبھی حاضرین ”ماڈل“ پر آوازیں کس رہے تھے۔۔۔ یعنی ماڈل کو آوازیں دے دے کر واپس بلانا چاہ رہے تھے۔۔۔وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئیں۔۔۔سب کے رنگ فک ……پروڈیوسر نے جلدی سے اپنا موبائل فون جیب سے نکالا اور”ماڈل“ کو مس کال دی۔۔۔ حضور مس کالیں مت دیں ممکن ہے ماڈل صاحبہ تیز تیز سائیکل چلاتے ہوئے کسی دوسرے پروڈیوسر کو ملنے چلی جائیں۔۔۔ اس لیے آپ کنجوسی نہ کریں۔۔۔ ماڈل کو کال کریں اور واپس آنے کا حکم سوری درخواست جاری کریں۔۔۔ اگر ان کا موڈ ٹھیک ہوا تو آ جائیں گی ورنہ جب دل ہوا۔۔۔ آئیں گی۔۔۔ گھبرائیں مت۔۔۔ کال ہوئی۔۔۔ بیل بجتی رہی۔۔۔ فون نہیں اٹھایا۔۔۔ سب مایوس ہو کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔۔۔ باغ کے درختوں پر کوے نہ جانے کیوں کاں کاں۔۔ کائیں کائیں۔۔کرنے لگے۔۔۔ پھر سے شور مچ گیا۔۔ وہ آ گئیں۔۔ وہ آ گئیں۔۔۔ بائیں طرف سے دیکھا تو ماڈل نہایت تیزی سے سائیکل چلاتی ہوئی ہنستی مسکراتی چلی آ رہی تھیں۔ میڈم آپ کہاں چلی گئی تھیں۔۔ پروڈیوسر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔ جی۔۔ میں باغ کا چکر لگانے چلی گئی تھی۔ صرف تین کلو میٹر کا تو چکر ہے۔۔۔ ٹھیک پندرہ منٹ میں دیکھ لیں میں چکر لگا کر واپس آگئی ہوں۔
پروڈیوسر نے التجا کی۔۔۔ ”میڈم آپ نے نزاکت سے سائیکل چلاتا ہے۔۔۔اور چند گز کے فاصلے پر سائیکل سمیت گر جانا ہے یہ ہی سین کی ڈیمانڈ ہے۔۔۔ دوسرے سین میں بشیر ماہی آگے بڑھ کر آپ کو اٹھائے گا۔۔۔
اور پھر”تالیاں“ شفیق اعوان نے آہستہ سے کہا تو سب نے گھور کر دیکھا اور ہم چپکے سے باغ میں چکر لگانے لگے۔۔ابھی ہم نے آدھا چکر ہی مکمل کیا تھا کہ شفیق اعوان نے مجھے متوجہ کیا۔۔۔ وہ دیکھیں ماڈل پھر سے سائیکل چلاتی ہوئی آ رہی ہیں۔۔۔ ماڈل پاس آئیں تو ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔۔۔”السلام علیکم۔۔۔ ماڈل نے سائیکل ایک طرف گراتے ہوئے کہا۔۔۔ وعلیکم السلام۔۔ میں نے جواب دیا۔۔۔”ارے فریدہؔ آ پ۔۔؟!
ہم دونوں ایک پرائیویٹ کالج میں ’’آسان انگلش“ کلاس میں پڑھتے تھے۔۔۔ یہ کوئی پچیس سال پرانی بات ہے۔۔۔ انگلش فریدہ سیکھ سکی نہ مجھے انگلش پر دسترس حاصل ہوئی۔۔۔ میں نے ملازمت اختیار کر لی اور فریدہ نے ایک ہوٹل کے باورچی خانے میں نوکری شروع کر دی۔ فریدہ نے بتایا کہ دوسال پہلے میری اسی ہوٹل کی لابی میں پروڈیوسر رحیم عنایت سے ملاقات ہوئی انھوں نے ماڈلنگ کی دعوت دی اور اب میں ملک کی چوٹی کی ماڈلز میں شامل ہوں۔۔۔ زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔۔۔ مجھے اپنی تازہ غزل یاد آ گئی۔۔۔
وہ نوازے گئے بہار میں پھر
دیر تک وہ رہے خمار میں پھر
ساری محفل میں وہ رہے چھائے
ہوئے رسوا جو ہم بازار میں پھر
آئے بھی۔۔ کب گزر گئے محسنؔ
کھوئے ہم، کھو گئے دیدار میں پھر
ان پرندوں کو پھر اماں ہو گی
لوٹ جائیں گے اپنی ڈار میں پھر
ان درختوں پہ نام مت لکھو
کاٹے جائیں گے اس بہار میں پھر 
دیر آید درست آید۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ فریدہ نے ”بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی“ یعنی جاتی عمر میں بھی ماڈل بن کر خود کو نہ صرف منوایا۔۔۔۔ بلکہ نام اور دولت بھی کمائی۔۔۔ شفیق اعوان نے میرے کندھے پر ہاتھ مارا۔۔۔۔لو بھئی۔۔۔ میں نے اس ماڈل سے سبق سیکھ لیا۔۔۔اب میں بلا جھجک پچاس سال کی عمر میں شادی کروں گا۔ فریدہ۔۔۔ اڑتالیس سال کی عمر میں ماڈل بن کر نام اور دولت کماسکتی ہے تو میں شادی کیوں نہیں کر سکتا۔۔۔!
 میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔ شفیق اعوان میری نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔۔۔
ماڈل فریدہ۔۔۔۔ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔۔۔ میں بھی ساتھ بیٹھا تھا۔۔۔ کہ دور سے پروڈیوسر صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ آتے دکھائی دیئے۔ بے چارگی منہ سے ٹپک رہی تھی۔
ہم دونوں کو بیٹھے دیکھ کر مسکرائے۔۔۔ جوس کا ایک ایک پیکٹ ہم دونوں کے ہاتھ میں تھمایا۔۔۔ فریدہ دیر ہو رہی ہے آئیں۔۔۔”ٹاسک“ مکمل کریں۔۔۔پروڈیوسر نے التجا کی۔۔۔
”ہو جائے گا۔۔۔ ٹاسک۔۔۔ مکمل“۔۔۔ پروڈیوسر صاحب۔۔۔ ویسے میری ہنسی بھی چھوٹ گئی۔۔۔ جوس کا ایک فوارہ میرے منہ سے نکل کر پروڈیوسر کی سفید شرٹ پر جا گرا۔۔۔ بوڑھا گھوڑا۔ میں نے اپنے بڑھے پیٹ پر نظر ڈالی۔
 لال لگام“۔۔۔ میں بولا اور ہنستا ہوا۔۔۔ ایک طرف بھاگ نکلا۔۔۔ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور نہ ہی پیچھے سے کسی نے آواز دی۔ سنا ہے ایسے موقع پر پیچھے مڑ کر دیکھنے سے انسان پتھر کا ہو جا تا ہے۔
میں اکیلا ہی چلتا ہوا کافی دور نکل آیا۔۔۔ درختوں پر بیٹھے پرندے پھرسے چہچہانے لگے۔۔۔ شفیق اعوان نہ جانے کہاں تھا۔۔۔اور فریدہ کو پروڈیوسر اور اس کا عملہ پھر سے منا کر لے گئے۔۔۔ میں اکیلا ٹریک پہ چل رہا تھا۔۔۔”اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے پھر مجھے بچالیا“۔۔۔ بلاشبہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔۔۔
گرچہ حقدار ہیں سزاؤں کے
 ہم طلبگار ہیں دعاؤں کے
دل کو ایسا سکوں نصیب۔۔۔ ہوا
 جب بھی دیکھے ہیں چہرے ماؤں کے
 بن کے رحمت کہ جو برستی ہیں 
ہیں طلبگار ان گھٹاؤں کے
کام کردیں وہ ظالموں کا تمام
ہوں گے ممنون ان بلاؤں کے
ماں نے پھر قبر سے پکارا ہے
پھر سے چکر لگا لے گاؤں کے

مصنف کے بارے میں