خاتون صحافی اور عمران خان

خاتون صحافی اور عمران خان

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یوتھیوں کو سمجھا لیں گے تو آپ غلطی پر ہیں۔ بہتر ہے اپنی اصلاح کریں اور ان سے نپٹنے کا کوئی اور طریقہ اختیار کریں۔  برطانیہ کی بات اور ہے مگر یہاں بہت سوں کا علاج صرف ڈنڈا ہے۔ بدتمیزی اور بد تہذیبی کا توڑ آپ کیا کر سکتے ہیں، ایک صورت تو یہ ہے کہ ان سے زیادہ بدتمیز ہو جائیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انہیں مکمل طور پر نظر انداز کریں لیکن اس طرح انہیں شہہ ملے گی اور وہ اسے اپنی بڑی کامیابی سے تعبیر کریں گے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو ڈی چوک کے دھرنوں کی فکری پیداوار ہے۔ انہیں کیا علم کہ تہذیب اور تمدن کیا ہے۔ انہیں تو صرف گالی سکھائی گئی ہے۔ اس کا آغاز اس طرح ہوا  کہ دیکھیں اس کے منہ سے گالی کتنی اچھی نکلتی ہے اور اب بڑا ہو کر یہی بچہ سب کو گالیاں دے رہا ہے۔ 
برطانیہ میں کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔ ایون فیلڈ جہاں پر نواز شریف کے فلیٹ ہیں اس کے باہر یوتھنوں نے صحافیوں پر حملہ کر دیا۔ وہاں موجود ایک صحافی نے اس پر انہیں برا بھلا کہا تاہم بعد میں انہوں نے سوشل میڈیا پر معذرت کر لی لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انہیں کس نے حق دیا کہ وہ لوگوں پر حملہ کر دیں انہیں برا بھلا کہیں۔ اب اس بات کا چرچا کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ صحافی نے اسے گالی دی تھی تو آپ خود بتائیں کہ جب آپ کے کوئی سر آ جائے تو آپ کیا کریں گے۔ اس طرح کا معاملہ پاکستان میں ہو تو کیا ہوگا، انہی رویوں کی وجہ سے لوگوں کے سر کھل جاتے ہیں۔ مصطفی نواز کھوکھر نے میریٹ ہوٹل میں کیا کیا تھا؟ کیا آپ نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کا علاج صرف ایسے ہی ہو گا۔ ان کے لیے یہ ایک مذاق ہو سکتا ہے لیکن لوگوں کی عزت اچھالنا کہاں کا مذاق ہے۔ یہ عمران اور نوازشریف کی لڑائی ہے۔ سیاسی لڑائی کو اس نہج تک پہنچا دیا گیا ہے کہ خدشہ ہے کہ کوئی بڑا سانحہ نہ ہو جائے۔ نوازشریف کو جس کیس میں سزا ہوئی تھی وہ تو غلط ثابت ہو رہی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسی کیس میں مریم نوازشریف کو بری کر دیا ہے تو نوازشریف بھی بری ہو جائیں گے کہ نیب کے پاس اپنے الزامات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اب عمران خان سے یہ جواب کون لے گا کہ انہوں نے جو کچھ اس خاندان کے بارے میں کہا اس کا حساب دیں لیکن اسے محض این آر او کہہ دیا جائے گا۔چلو مان لیں کہ انہیں این آر او مل گیا اور وہ بری ہو گئے مگر عمران خان کے خلاف امریکی عدالت کا فیصلہ موجود ہے جس میں انہیں ایک ناجائز بچی کا باپ تسلیم کیا گیا ہے۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنا ڈی این اے کرائیں اور اپنے چہرے پر لگی اس کالک کو دھوئیں یا این آر او لے لیں اور اس بچی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں۔ ورنہ یہ جرم آپ کے ساتھ قبر تک جائے گا۔ ننگی ننگی ویڈیو کی دہائی دی جا رہی ہے لیکن ان کے کردار پر ان کے سابق اہلیہ ریحام خان نے جو کچھ لکھا ہے اس پر جواب نہیں 
آیا، ایسے لگا کہ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کریں ناں  اس کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ۔ برطانیہ میں عدالتیں تو آزاد ہیں وہاں جا کر مقدمہ کریں لیکن مجال ہے کہ عمران خان، مراد سعید اور ان کے دوسرے قریبی رفقاء کار نے اس سلسلے میں کوئی اعلان کیا ہو۔ ایسے کردار کے شخص کو یہ پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں اور اسے مرشد کا خطاب دینے میں ایک منٹ نہیں لگاتے لیکن کسی میں یہ ہمت نہیں ہوتی کہ مرشد کو اپنے گھر لے جائے۔ ایسے میں انہیں خاور مانیکا کا انجام یاد آ جاتا ہے۔
ریاست مدینہ، نیا پاکستان کے بعد اب حقیقی آزادی کا نعرہ دیا گیا ہے اور اہلیت یہ ہے کہ خود تسلیم کرلیا کہ ذمہ داری میری تھی اور حکومت کوئی اور چلا رہا تھا تو پھر اپ ایوان وزیراعظم میں ٹی وی دیکھنے اور پریس کانفرنسیں کرنے کے لیے بیٹھے تھے۔ کیا آپ نے خود تسلیم نہیں کر لیا کہ آپ چابی والا کھلونا تھے۔ بہادر اتنے ہیں کہ دھمکیوں سے بات شروع کرتے ہیں اور جب اس کا اثر نہیں ہوتا تو پھر پاؤں پکڑ لیتے ہیں کہ کسی طرح مجھے اقتدار دلا دیں۔ ضمنی انتخابات میں نشستیں جیتی ہیں لیکن اس کا کیا فائدہ ہوا ہے، پھر باہر بیٹھے ہیں۔ ویسے ایک بات ہے کہ وہ اس کھیل میں اکیلے نہیں ہیں بہت سی نادیدہ ہاتھ اور قوتیں ان کی پشت پر موجود ہیں جو اپنی موجودگی کی احساس دلاتی رہتی ہیں۔ خفیہ ملاقاتوں اور بیک ڈور مذاکرات کو تو پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں اور اب ان کا نعرہ ہے کہ وہ اس حکومت کا آرمی چیف تعینات نہیں کرنے دیں گے۔ لانگ مارچ اور دھرنا دینے کا اعلان کرتے ہیں اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے خفیہ منصوبے بناتے ہیں۔ انہیں بھی اس بات کا علم ہے کہ وہ عوام کے ووٹ کے زور پر اقتدار میں نہیں آئے تھے بلکہ آر ٹی ایس کی پیداوار ہیں سو ان کی ساری توجہ کا مرکز جنرل باجوہ ہی ہیں کہ کسی طرح وہ رام ہو جائیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے حامی دانشور یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ ان کی مقتدر حلقوں سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں تاہم حکومت اس طرح کی صرف ایک ملاقات کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور وہ بھی صدر عارف علوی کے بہت زیادہ اصرار پر۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ حکومت عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے روابط سے آگاہ ہے۔’ہمیں ان ملاقاتوں کا علم ہے اور پی ٹی آئی کی دوسری قیادت نے بھی چند روز قبل ملاقاتیں کی ہیں‘۔وزیردفاع خواجہ آصف  اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں  کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو بعض حلقوں کی جانب سے پس پردہ حمایت حاصل تھی لیکن جاوید لطیف یہ الزام لگاتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں عمران خان کی سہولت کاری کی گئی۔ غلام احمد بلور پہلے ہی اسے دھاندلی زدہ الیکشن قرار دے چکے ہیں جس میں صوبائی حکومت نے عمران خان کو جتوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔
میں لندن میں ہونے والے واقعہ کا ذکر کر رہا تھا، کل عمران خان کی اسلام آباد کے صحافیوں سے گفتگو ہوئی ان کی گفتگو کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو یہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کا اپنا مائنڈ سیٹ کیا ہے اور ان کے چاہنے والے اسی مائنڈ سیٹ کی پیداوار ہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک خاتون صحافی کے سوال پر دوسری خاتون صحافی کے بارے میں انتہائی غیرمناسب جواب دیا۔ اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب اور آر آئی یوجے کے وفد سے ملاقات کے دوران ایک خاتون صحافی نے کہا کہ خواتین صحافی جلسے کور کرنے جاتی ہیں تو پی ٹی آئی ورکرز تنگ کرتے ہیں، اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ورکرز کو اس سلسلے میں ضرور ہدایات دوں گا۔ تاہم اس موقع پر عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ غریدہ فاروقی ہجوم میں گھس جاتی ہے، پھر کہتی ہے تنگ کرتے ہیں، غریدہ فاروقی مردوں میں گھْسے گی تو ایسا ہی ہو گا آ بیل مجھے مار‘۔ عمران خان سے جب یہ سوال ہوا کہ ’آپ صحافیوں کو لفافہ صحافی کیوں کہتے ہیں؟‘ تو عمران خان نے جواب دیا کہ انہوں نے سلیم صافی کے علاوہ کسی صحافی کے متعلق ایسا کبھی کچھ نہیں کہا۔ سوشل میڈیا ٹرولنگ پر عمران خان نے ہاتھ اٹھالیے اور کہا کہ وہ اسے نہیں روک سکتے، یہ کسی کے قابو میں نہیں ہیں۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جب لیڈر اس قسم کے خیالات کا حامل ہو گا تو اس کے چیلے کیا ہوں گے؟ آپ کس کس کو سمجھائیں گے۔

مصنف کے بارے میں