میرا تحفہ… میری مرضی…!

میرا تحفہ… میری مرضی…!

سرکاری توشہ خانے سے ہمارے ہاں کے حکمرانوں کا برائے نام قیمت ادا کرکے تحائف لینا کوئی نئی بات نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور کے وزیرِ اعظم شوکت عزیز کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ غیر ملکی دوروں کے دوران ملنے والے تحائف کو برائے نام قیمت ادا کرکے انھیں سبقت حاصل رہی ہے۔ تاہم انھیں اس طرح کی بات یا دعویٰ کرنے کی جسارت کبھی نہ ہوئی کہ "میرا تحفہ میری مرضی"، میں اسے جہاں چاہوں اور جیسے چاہوں بیچوں یا اس کا کوئی اور استعمال کروں، کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس بارے میں مجھ سے کوئی سوال کرے۔ یہ دعویٰ یا دو ٹوک بات سابقہ وزیرِ اعظم جناب عمران خان نے ہی کی ہے جنہیں سپریم کورٹ کی طرف سے اپنے صادق اور امین قرار دیئے جانے کا زعم ہی نہیں ہے بلکہ وہ ملک میں ریاستِ مدینہ کے نمونے پر امورِ حکومت چلانے کے دعوے دار بھی رہے ہیں۔ 
جناب عمران خان برسراقتدار آئے تو ان کا نعرہ اور دعویٰ یہ تھا کہ تحفے اور تحائف لینے والے قومی مجرم ہیں اور انھیں بخشا نہیں جانا چاہیے۔ وہ کبھی اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن باہو کی مثال دیتے کہ اسے سرکاری مال سے تحفے لینے پر کیسے اپنی پولیس کی طرف سے سخت پوچھ گچھ اور تفتیش کا سامنا ہے اور کبھی ریاست ِ مدینہ اور امیر المومنین حضر ت عمر فاروقؓ کے دور کی مثالیں دیتے کہ خلیفہ وقت سے ایک عام آدمی (بدو) بھی پوچھ سکتا تھا کہ انھوں نے مالِ غنیمت سے ہر کے ایک برابر ملنے والی ایک چادر سے جو ان کے لباس کے لیے ناکافی تھی اپنا لباس کیسے بنایا۔ اور حضرت عمر فاروقؓ کو بتانا پڑا کہ ان کے بیٹے نے اپنے حصے کی چادر بھی انھیں دی تب اُن کا لباس تیار ہوا۔ یہی عمران خان ہیں جنہوں نے مصدقہ اطلاعات کے مطابق غیر ملکی سربراہانِ حکومت و مملکت کی طرف سے ملنے والے 58قیمتی تحائف جن کی قیمت 14کروڑ روپے بنتی ہے ، صرف 3کروڑ روپے ادا کرکے توشہ خانے سے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ کو دبئی میں فروخت کرکے کروڑوں روپے کا منافع بھی کمایا ہے۔ مسلم لیگ ن کے اہم راہنما اور سیکریٹری جنر ل احسن اقبال اور مسلم لیگ ن کی ترجمان محترمہ مریم اورنگزیب ہی نہیں بلکہ خود وزیرِاعظم میاں شہباز شریف ، عمران خان کی طرف سے توشہ خانے سے قیمتی تحائف اونے پونے داموں لینے اور ان میں سے چند ایک کو دبئی میں 
فروخت کرنے کا جہاں تذکرہ کر چکے ہیں وہاں خود جناب عمران خان بھی "میرا تحفہ ، میری مرضی"کہہ کر ان تحفوں کے لینے اور دُبئی میں بیچنے کا بالواسطہ اعتراف کر رہے ہیں۔ اس سے قبل عمران خان کے ساتھی اور سابقہ وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری کا بیان آیا تھا کہ عمران خان تحائف کے مالک ہیں وہ جو چاہیں ان کے ساتھ کریں، فروخت کریں یا اپنے پاس رکھیں کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ 
سابقہ وزیرِ اعظم جناب عمران خان کی طرف سے توشہ خانے سے لیے جانے والے تحائف کی تفصیل اور ان میں سے چند ایک کو دُبئی میں بیچنے کا تذکرہ پچھلے چند دنوں سے ہمارے میڈیا کا سلگتا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس بارے میں یہاں انویسٹی گیشن رپورٹنگ میں نام کمانے والے مؤقر اخبار نویس عمر چیمہ کے ایک بڑے قومی معاصر میں چھپنے والی رپورٹ کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں جناب عمران خان کی طرف سے توشہ خانے سے لیے جانے والے تحائف اور ان کی ادا کی گئی قیمتوں کی تفصیل کا ذکر نہیں ہے بلکہ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے اسی انکشاف کا حوالہ بھی موجود ہے کہ عمران خان نے ان قیمتی تحائف کو اونے پونے داموں (کل ما لیت کا بیس فیصد تک )  لینے کے بعد بھاری رقم کے عوض دبئی میں فروخت بھی کیا ہے۔ عمر چیمہ کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کو عالمی راہنماؤں کی طرف سے 14کروڑ روپے مالیت کے 98 تحائف ملے اور انھوں نے یہ تمام تحائف معمولی رقم ادا کرکے یا کوئی رقم ادا کیے بغیر اپنے پاس رکھ لیے۔ عمر چیمہ لکھتے ہیں"دی نیوز کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق 15مہنگے تحائف اپنے پاس رکھنے کے لیے عمران خان کو رقم ادا کرنا پڑی۔ انھوں نے 14کروڑ روپے مالیت کے تحفوں کے عوض صرف 3کروڑ 80لاکھ روپے ادا کیے جبکہ دیگر تحائف کوئی رقم ادا کیے بغیر ہی رکھ لیے۔ سب سے مہنگا تحفہ انھیں اس وقت ملا جب اگست 2018ء میں انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا۔ اس میں گرافٹ واچ تھی ، 56لاکھ روپے سے زائد کی کف لنکس ، 15لاکھ روپے کے قلم اور 87لاکھ روپے کی انگوٹھی بھی شامل تھی۔ قیمتوں کا یہ تعین ایولیوشن کمیٹی نے کیا تھا جو عمران خان نے خود ہی تشکیل دی تھی۔ یہ تمام تحائف جن کی مالیت 10کروڑ روپے کے قریب تھی اور عمران خان نے ستمبر 2018ء میں متعین کردہ رقم کا صرف 20فی صد یعنی 2کروڑ روپے ادا کرکے اپنے پاس رکھ لیے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کا الزام ہے کہ ان تحائف کو بعد میں 155ملین (15کروڑ50لاکھ) روپے میں فروخت کر دیا گیا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان تحائف کی رقم کس نے ادا کی تھی اور کیا عمران خان نے قواعد و ضوابط کے مطابق گین ٹیکس ادا کیا تھا یا نہیں۔ قواعد و ضوابط کے مطابق دنیا کے کسی لیڈر کی طرف سے سرکاری عہدے دار کو ملنے والا تحفہ توشہ خانے میں جمع کرا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی عہدے دار یہ تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہے تو وہ ایک مخصوص رقم ادا کرکے اپنے پاس رکھ سکتا ہے، جو ستمبر 2018ء میں عمران خان کے وقت میں 20فی صد تھی اور اس طرح انھوں نے مذکورہ بالا تحائف اپنے پاس رکھ لیے ۔ قواعد میں 2018ء میں تبدیلی کی گئی اور یہ فی صد حصہ بڑھا کر 50فی صد کر دیا گیا۔ جس کی ادائیگی پر ہی تحائف اپنے پاس رکھے جا سکتے ہیں جو تحائف اپنے پاس نہ رکھنے ہوں انھیں توشہ خانے میں جمع کرا دیا جاتا ہے یا پھر ان کی نیلامی ہوتی ہے اور اس طرح نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے"۔ 
جناب عمران خان کی طرف سے توشہ خانے سے یہ قیمتی تحائف لینے اور ان میں سے بعض کو دبئی میں بھاری منافع پر فروخت کرنے کی یہ داستان جہاں بڑی ہوش ربا اور چشم کشا ہے وہاں اس لحاظ سے افسوس نا ک بھی ہے کہ جناب عمران خان کو یہ تحائف ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ سربراہِ حکومت کے طور پر وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کی بناء پر ملے تھے۔ اگر انھوں نے یہ تحائف دبئی کی مارکیٹ میں فروخت کیے ہیں تو گویا انھوں نے پاکستان کی عزت و وقار کا سودا کیا ہے۔ پھر یہ بات بھی انتہائی افسوسناک ہے کہ یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے سابق صدر جناب آصف علی زرداری، سابق وزرائے عظم  یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف کے خلاف یہ مقدمے دائر کرائے تھے کہ انھوں نے توشہ خانے سے مہنگے تحفے اور قیمتی گاڑیاں اپنے پاس رکھ لی تھیں آج جناب عمران خان کو کیا یہ باتیں یاد نہیں آ رہی ہیں ؟ کیا وہ توشہ خانے سے قیمتی تحائف اونے پونے داموں لینے کے بعد ان میں سے بعض کے دبئی میں فروخت کرنے کی تصدیق یہ کہہ کر نہیں کر رہے "میرا تحفہ میری مرضی" یقینا ایسا ہی ہے جو ہم سب کے لیے انتہائی سبق آموز ہے ۔

مصنف کے بارے میں