لوگ عزت سے کیوں جئیں جی؟!

 لوگ عزت سے کیوں جئیں جی؟!

ایک تو ہمیں لوگوں کا بڑا مسئلہ رہتا ہے، ہربات پر ہم یہ سوچتے ہیں ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘…مجھے یاد ہے میری شادی کے دن مقرر ہوئے، میں اپنے سُسر کے پاس گیا، میں نے اُن سے کہا ’’جہیز میں ایک سوئی بھی ہم پر حرام ہے‘‘… میراخیال تھاوہ میری بات سُن کر خوش ہوں گے، پروہ بُرا سا منہ بناکر بولے ’’نہیں بیٹا ایسا نہیں کہتے، ہم کھاتے پیتے لوگ ہیں، اپنی بساط کے مطابق ہم نے جہیز نہ دیالوگ کیا کہیں گے؟۔ مجھے اِس پر بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک اچھے عمل کے بارے میں بھی یہ محسوس کیا جاتا ہے ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘… میری والدہ کی ڈیتھ ہوئی، اُن کی رسم قل پر میں مٹن کے ساتھ نانوں کا کہنے لگا، میری بڑی بہن مجھ سے خفاسی ہوگئی، کہنے لگی ’’مٹن کے ساتھ بریانی بنوائو، لوگ کیا کہیں گے مٹن کے ساتھ نان رکھ دیئے ہیں ؟‘‘…یہ معاملہ اب اس حدتک بگڑ گیاہے اگلے روز ایک صاحب مجھے بتارہے تھے اُن کی بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی، کچھ ہی روز بعد اُس کی ساس اُس سے کہنے لگی ’’کوشش کرنا تمہارے گھر پہلا بیٹا ہی ہو، اگر پہلی بیٹی ہوگئی لوگ کیا کہیں گے؟۔ایک اور واقعہ بھی سُن لیں، نوے سالہ ایک دولت مند شخص بیمار ہوگیا، اُسے جب آئی سی یو میں لے جارہے تھے اُن کے ایک صاحبزادے نے کہا ’’ابا جی بُرے وقت کا کوئی پتہ نہیں ہوتا، یہ بہت سنہری موقع ہے کہ آپ جائیدادہم بھائیوں میں تقسیم کردیں ورنہ لوگ کیاکہیں گے کہ بابا جی بغیر جائیداد تقسیم کیے مرگئے ہیں … ہمیں اپنی اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی لوگوں کی ہوتی ہے کہ ہم فلاں کام کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے ؟ فلاں کام نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟، ساری عمر آپ لوگوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، اور آپ پر جب مشکل وقت آتا ہے آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں دُور دُورتک کہیں لوگ آپ کو دکھائی نہیں دیتے، سو میں یہ سمجھتا ہوں یہ مت سوچیں لوگ کیا کہیں گے یا کیا نہیں کہیں گے؟ جو آپ کو ٹھیک لگتاہے وہ کریں، اُن لوگوں کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں جومشکل پڑنے پر آپ کوکہیں دکھائی نہیں دیتے۔ مجھے یادہے شریف برادران کے آخری دور اقتدار میں، میں اُن کی کچھ ناقص پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا، جس روزمیرا کالم شائع ہوتا ، مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال آجاتی، ایک شخص میرے کالم کی تعریف کرتا اور ساتھ ہی ساتھ آخر میں یہ کہہ کر فون بند کردیتا ’’ ایناں گنجیاں نوں ہورتونوں‘‘…ایک بارتنگ آکر میں نے اُس سے کہا ’’اوئے تم ہوکون جو اس طرح کے مشورے مجھے دیتے ہو ؟ میں اپنی ہمت کے مطابق جتنا اُنہیں تُن سکتا ہوں تُن دیتا ہوں، جس روز اُنہوں نے مجھے تُنا تمہارا پتہ ہی نہیں چلنا تم کدھر ہو اور کون ہو‘‘… بس وہ دن اور آج کا دن کبھی اُس کا مجھے پھر فون نہیں آیا، البتہ ان دنوں ایسے ہی کچھ لوگوں کے دوبارہ مجھے فون آنا شروع ہوگئے ہیں، وہ مجھے یہ مشورے دے رہے ہوتے ہیں آپ فلاں شخص ، فلاں جماعت یا فلاں ادارے کے حق میں لکھیں گے تو معاشرہ آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھے گا، اور فلاں شخص فلاں جماعت یا ادارے کے خلاف لکھیں گے تو معاشرہ آپ کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا، وغیرہ وغیرہ، … میں جواباً اُنہیں صوفی دانشور حضرت واصف علی واصف کا یہ قول سناتا ہوں ’’اس معاشرے میں عزت دراصل بے عزتی ہے‘‘ لہٰذا مجھے کوئی ضرورت نہیں میں یہ خواہش کروں لوگ مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھیں، اس معاشرے میں عزت دار اور بے عزت ایک ہی مقام پر کھڑے ہیں، بلکہ جو جتنا بڑا بے غیرت ہے لوگ اُتنی ہی اُس کی عزت کرتے ہیں، یہ واقعہ میں نے شاید پہلے بھی لکھا تھا، چند برس قبل لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں شادی کی ایک تقریب میں ایک بڑے ٹیبل پر میں بیٹھا تھا۔ اِس دوران پنڈال میں ایک نامی گرامی بدمعاش جسے بدمعاشی کا برانڈ سمجھاجاتا ہے داخل ہوا، مجھ پر اُس کی نظر پڑی وہ سیدھا میرے پاس آیا اور اُسی ٹیبل پر بیٹھ گیا جس پر میں بیٹھا تھا، … اگلے ہی لمحے اس میز پر ایک ہجوم اُمڈ آیا، یہ ہجوم بدمعاشی کے اُس برانڈکے ساتھ تصویریں بنوانا چاہتا تھا، لوگ خصوصاً نوجوان دھرا دھرا اُس کے ساتھ سیلفیاں بنوارہے تھے، اچانک اس نے میرے کان میں کہا ’’بھائی جان اگر اجازت ہو میں کسی اور میز پر چلے جائوں ؟‘‘ میں نے پوچھا ’’ یہاں بیٹھنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ، وہ بولا ’’ مجھے بڑی شرم آرہی ہے ملک کے ایک نامور ادیب، استاد، کالم نگار توفیق بٹ صاحب میرے ساتھ بیٹھے ہیں اور یہ پاگل لوگ بجائے اس کے آپ کے ساتھ سیلفیاں لیں مجھ ایسے بدمعاش کے ساتھ لے رہے ہیں، مجھے تو بڑی شرم آرہی ہے، لہٰذا میں دوسرے میز پر جارہا ہوں ‘‘…میں نے عرض کیا کچھ نہیں ہوتا آپ یہاں ہی بیٹھے رہیں، میں بھی اپنی فیلڈ کا ایک ’’بدمعاش‘‘ ہی ہوں مسئلہ صرف یہ ہے یہ لوگ مجھے پہچانتے نہیں ہیں ورنہ دوچار سیلفیاں یہ میرے ساتھ بھی بنوالیتے۔ اگلے روز ہمارے سابقہ محلے میں ایک ایسے شخص کا انتقال ہوگیا جو چھ افراد کا قاتل تھا۔ لوگوں کی زمینوں جائیدادوں پر ناجائز قبضے کئے ہوئے تھے۔ جہاں سے گزرتا لوگوں کو گالیاں دیتا دھمکیاں دیتا۔ اگلے روز کسی نے مجھے بتایا اُس کا انتقال ہوگیا۔ سینکڑوں لوگ اُس کے جنازے میں تھے،… ادھر کل شادمان میں جہاں میں رہتا ہوں ایک انتہائی دین دار، انتہائی متقی، پرہیزگار انتہائی حلیم ایک ایسے ایماندار افسرکا انتقال ہوگیا جس کے بارے میں ایماندار لوگ قسم اُٹھاتے ہیں وہ بڑے بڑے عہدوں پر رہا ایک پائی کبھی حرام کی اس نے نہیں کمائی۔ اُس کا لائف سٹائل بھی اس کا گواہ تھا۔ کہ جنازے میں چند لوگ موجود تھے وہ بھی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد چلے گئے اور کل اٹھارہ لوگوں نے اُنہیں قبر میں اُتارا…یہ جو خیر سے اپنے سابق وزیراعظم خان صاحب آج کل اقتدار سے اُترنے کے بعد اپنی قوم عرف اپنے ’’ہجوم‘‘ کوبار بار عزت سے جینے کے جو درس دیتے ہیں کوئی ان سے پوچھے یہ کیا درس بے ہنگم سے اِک ہجوم کو آپ دے رہے ہیں ؟۔ یہاں عزت سے جی کے مرناہے کسی نے ؟ ؟؟۔ خود اپنی سیاسی زندگی میں کتنی عزت سے رہے ہیں آپ ؟ ۔ آپ کے کون سے اصول تھے، کون سے اعمال تھے جس کی بنیاد پر رمضان المبارک کے اس پاک وبابرکت مہینے میں حلفاً ہم یہ کہہ سکیں کہ آپ کے فلاں اعمال تھے جن کی بنیاد پر لوگوں کو عزت سے جینے کا درس آپ دیتے رہے، …آپ کے اقتدار کی آخری شب جو کچھ ہوا جس کے نتیجے میں آپ کو اپنے سارے اُصول سارے سرپرائز قربان کرنا پڑ گئے۔ عزت سے جینے یا رہنے کا یہ کون سا سلیقہ تھا؟۔ جس تھالی میں آپ کھاتے ہیں اسی میں سوراخ کرتے ہیں، عزت سے جینے کا یہ کون سا انداز ہے ؟؟؟(جاری ہے)

مصنف کے بارے میں