ن لیگ اور انتخابات

ن لیگ اور انتخابات

سابق وزیر اعظم نواز شریف کا تازہ ترین ارشاد ہے ”اصل مسئلہ میری وطن واپسی نہیں، معیشت کی بحالی ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اب بتا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں جونیئر ججوں کی تعیناتی کے پیچھے جنرل قمر جاوید باجوہ تھے۔ ویسے تو ملک کا پورا سیاسی، عدالتی اور معاشی نظام تماشا بنا ہوا ہے لیکن ان دو بیانات یہ پتہ چلتا ہے کہ جن شخصیات نے ہمیں پیچیدہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے رہنمائی کرنی ہے ان کی اپنی سوچ واضح نہیں۔ یہ بات بچے بچے کے علم میں ہے کہ سیاسی جماعتوں کی حد تک اس وقت مسلم لیگ ن کا سٹیک سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں سیاست کیا کسی بھی شعبے میں خطرات موجود رہتے ہیں۔ آخر کوئی کب تک باہر رہ کر اپنی سیاست اور پارٹی بچا سکتا ہے۔ کیا نواز شریف یہ بتانا پسند کریں گے کہ وہ جرنیلوں کے خوف سے باہر بیٹھے ہیں یا ججوں سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ ویسے تو سیاسی لیڈروں کے لیے ایسے خطرات بے معنی ہوتے ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ تین مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم رہنے اور ججوں و جرنیلوں سے ڈسے جانے کے باوجود آپ کی جماعت نے اپنے خلاف بد ترین کارروائیاں کرنے والے آرمی چیف کے کہنے پر اپنے کھلے مخالف اور پی ٹی آئی کے علانیہ حامی چیف جسٹس کو سنیارٹی کا اصول نظر انداز کر کے کیسے جونیئر جج دے کر اب اور اگلے کئی سال تک اپنی شامت اعمال یقینی بنانے کا بندوبست کیا؟ یہ تاثر کیوں پھیل رہا ہے کہ اب جب بھی انتخابات ہوئے پنجاب سے ن لیگ کا صفایا ہو جائے گا۔ ایسا نہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے پورا صوبہ آپ کے خلاف ہو گیا ہے۔ آپ کے ووٹر بھی موجود ہیں اور سپورٹر بھی، بات صرف اتنی ہے کہ آپ کی پوری جماعت بطور ایک تنظیم کے سیاسی میدان سے ہی غائب ہے۔ وقفے وقفے سے سیاست کرنے والی مریم نواز جب بھی کسی سرگرمی میں حصہ لیتی ہیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ پارٹی میں اس وقت بھی اتنی جان ہے کہ ڈھنگ سے ایک تسلسل کے ساتھ پارٹی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں تو نہ صرف سیاسی بلکہ عوامی پوزیشن بھی بہت کم وقت میں بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ ن لیگ کو کس نے روکا ہے کہ اپنے وکلا ونگ کو متحرک نہ کرے، لیبر ونگ، کسان ونگ، ٹریڈر ونگ کہاں ہیں؟ حال تو یہ ہے کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران مریم نواز نے دو تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم نے ایم ایس ایف کو بحال کر دیا ہے۔ لیکن اس پر ایک انچ بھی پیش رفت نہیں۔ سوشل میڈیا سیل کو مربوط اور منظم بنانے کا اعلان کیا۔ مختلف اجتماعات میں بار کوڈ ڈاؤن لوڈ کرنے کی ترغیب بھی دی مگر عمل درآمد صفر ہی رہا۔ کیا میڈیا اور کیا سوشل میڈیا، اگر دو ریاستی اداروں کی من مانیوں اور پراجیکٹ عمران خان کے اپنے طور پر مخالف غیر جانبدار اور جرأت مند صحافیوں کی ایک معقول تعداد اپنے طور پر وی لاگ، ٹویٹر، فیس بک، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر متحرک نہ ہوئی ہوتی تو آپ کا رہا سہا بھرم بھی کھل جاتا۔ مین سٹریم میڈیا حکمت عملی بھی مکمل طور پر ناکام ہے۔ جو جمہوریت پسند اینکر و کالم نگار اپنے نظریات کے مطابق کچھ بول اور لکھ رہے ہیں وہ آپ کے لیے مفت میں ڈھال بنے ہوئے ہیں۔ ن لیگ میڈیا منیجروں کا اپنا حال تو یہ ہے کہ حال ہی میں مریم نواز نے اپنے حامی تصور کیے جانے والے ایک اینکر کو انٹرویو دیا۔ بعض حقائق سے لاعلم ہونے کے باعث (حالانکہ پروگرام میں پوری تیاری کر کے آنا چاہیے تھا) ایک موقع پر فرمائش کی یہ ایک حصہ ایڈٹ کر دیا جائے۔ مگر وہ نہ صرف لیک بلکہ وائرل ہو گیا، اب یہ کہا جا رہا ہے اسے پھیلانے میں اینکر خود ملوث ہے۔ سادہ سی بات ہے اپنا جج، اپنا جنرل، اپنا جرنلسٹ کی سوچ ہی غلط ہے۔ آپ کے اچھے بُرے تعلقات کسی کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر بات پروفیشنل ازم تک محدود رہنی چاہیے۔ خصوصاً ن لیگ تو اس حوالے سے کئی بار تجربات کر کے دیکھ چکی ہر مرتبہ نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر سب سے اہم بات اپنی پارٹی کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ اپنے ساتھ حکومت میں شامل دو بڑی اتحادی جماعتوں کو ہی دیکھ لیں کیا پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کسی بھی لمحے تنظیم سازی سے غافل ہوئیں۔ ہر طرح کے مصائب اور آزمائشوں کا سامنا کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی آج بھی سندھ میں آسانی سے انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہے اور وفاقی سیٹ اپ میں بھی اسے مناسب پوزیشن مل سکتی ہے۔ جے یو آئی اپنے حلقوں میں نہ صرف بھرپور طریقے سے الیکشن لڑنے کی پوزیشن میں ہے بلکہ اس کی سٹریٹ پاور سے ہر کوئی خائف ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ن لیگ آج جس طرح ہم خیال ججوں سے رگڑا کھا رہی اس میں 90 فیصد قصور کسی اور کا نہیں ن لیگ کا اپنا ہے۔ جس قدر بھی پریشر تھا مگر آئین ری رائٹ ہونا آخری حد تھی۔ عمران خان کی حکومت تبدیل ہونے کے بعد سے ہم خیال ججوں نے ایک دن کے لیے بھی سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی اتنی کھلی سہولت کاری کی گئی کہ یک جان دو قالب کا محاورہ بھی بہت پیچھے رہ گیا۔ اس صورتحال سے بروقت اور ٹھوس انداز میں نمٹنے کی حکمت عملی کسی نے باہر سے تو طے نہیں کرنا تھی۔ اس سے زیادہ سنگین مذاق کیا ہو گا کہ کل تک جو پارلیمنٹ اور پارٹیاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے استعفا مانگ رہی تھیں اور ہم خیال ججوں کے فیصلوں کو قراردادوں کے ذریعے رد کر رہی تھیں اب ہاتھ باندھے اسی تین رکنی بینچ کے سامنے کھڑی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کسی کی دوست نہیں۔ اس کا الائنس کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ کمزور کا ساتھ دیا جائے تو طاقتور کا اپنا وار بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہ تو طے ہو چکا کہ مولانا فضل الرحمن کے سوا کوئی بھی لیڈر عدالتی آمریت کا کھل کر سامنا کرنے پر تیار نہیں۔ بیان تو اے این پی نے بھی دیا ہے مگر اس وقت اس کا سیاسی وزن زیادہ نہیں، دوسرے یہ کہ وہ پیپلز پارٹی کی لائن پر چلتی ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ یہ دوسری جماعت پیپلز پارٹی ہی ہے جس نے سپریم کورٹ کے پنچایتی عمل کا خیر مقدم کر کے حکومتی صفوں کو تتر بتر کر دیا ہے۔ ن لیگ کو مگر کسی اور سے گلہ کرنے سے پہلے دیکھنا ہو گا کہ ان کی اپنی تیاری کیا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور حلقوں کی انتخابی سیاست کا تجربہ رکھنے والے حمزہ شہباز کہاں غائب ہیں؟ سلمان شہباز کبھی مفتاح، کبھی شاہد خاقان کے متعلق الٹے اور کبھی خود مریم نواز کے بارے میں عجیب سے ٹویٹ کیوں کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پھر ایسا ہی ہونے جا رہا ہے کہ نواز شریف لندن، مریم نواز لاہور، حمزہ گھر پر اور شہباز شریف کسی طاقتور کے در پر پڑے نظر آئیں گے۔ ن لیگ کے کارکن بے سمت ہیں تو ارکان اسمبلی شدید ترین کنفیوژن کا شکار، کوئی گائیڈ کرنے والا ہے نہ دلاسہ دینے والا، یہ سب اسی انداز میں چلنا ہے تو پھر انتخابات جب بھی ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔