پٹرول قیمت…… مسلم لیگی قیادت کے بیانیے میں تضاد!

پٹرول قیمت…… مسلم لیگی قیادت کے بیانیے میں تضاد!

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں بتدریج کمی، پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری اور پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کے ذمہ دار ادارے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 15روپے فی لیٹر تک کمی کی سفارش کا عندیہ دینے کے باوجود 15اور 16اگست کی درمیانی رات کو پٹرول کے نرخوں میں 6روپے 72پیسے فی لیٹر اضافے کی خبر سامنے آئی تو یہ خبر عوام الناس کے تمام طبقات کے لیے جہاں اچنبھے کا باعث بنی وہاں بڑی حد تک صدمے کا باعث بننے والی خبر (Shocking News)  کے طور پر بھی سامنے آئی۔ یقینا یہ اضافہ خلاف توقع تھا کہ عمومی طور پر یہی سمجھا جا رہا تھا کہ اگست کے نصف آخر کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی سامنے آئی گی۔ بلکہ یہاں تک کہا جا رہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان 15اگست کی رات کو کرنے کی بجائے ایک دن قبل 14اگست کو یوم آزادی کے موقع پر بطور خوشخبری کر دیا جائے گا۔ پھر پٹرول کی قیمت میں اضافے کے اعلان سے ایک روز قبل وفاقی وزیر خزانہ جناب مفتاح اسماعیل ایک نیوز چینل کے پروگرام میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ پٹرول پر کوئی ٹیکس عائد کیا جائے گا نہ لیوی میں اضافہ۔ اس تناظر میں پٹرول کی قیمت میں 6روپے 72پیسے فی لیٹربھاری بھر کم اضافہ اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 51پیسے فی لیٹر اور مٹی کے تیل میں 1روپے 67پیسے فی لیٹر معمولی کمی حکومت کا ایسا فیصلہ گردانا جا سکتا ہے جس کی مخالفت بہرکیف ہونی ہی چاہیے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں عوام کی طرف سے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہاں حکومت کے اندر سے بھی اس فیصلے کی مخالفت میں توانا آوازیں سنائی دی ہیں اور سنائی جا رہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اور حکومت کو ورثے میں ملنے والی پاکستان کی معاشی ابتری کو کم کرنے، پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے اور آئی ایم ایف کے ساتھ سابقہ حکومت کے دور میں طے پانے والے بیل آوٹ پیکج (معاہدے) کی شرائط کو پورا کرنے اور قرض کی چھٹی اور ساتویں اقساط حاصل کرنے کے لیے بعض انتہائی سخت، ناگوار اور مشکل فیصلے کرنے پڑے اور پڑ رہے ہیں۔ ان کے نتیجے میں بلاشبہ مہنگائی جہاں ناقابل برداشت حد تک بڑھی ہے وہاں عوام الناس کی مشکلات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی، عوام کو درپیش مشکلات، پریشانی اور تکالیف وغیرہ کا سامنے آنا ایسے پہلو ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کو طوعاً و کرعاً برداشت کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ لیکن اتنا تو ہو سکتا ہے کہ ان کو ایک سلیقے، قرینے اورمنطقی جواز کے ساتھ سامنے لایا جائے تاکہ عوام 
کے مختلف طبقات ان فیصلوں کے جواز کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو سکیں۔یہ نہیں کہ ان کو ایک مذاق، تماشے اور عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے انداز میں عوام پرٹھونسا جائے یااپنی صفوں میں سے ان کی ایسے مخالفت کی جائے کہ وہ ایک مذاق لگے۔کیا وزیر اعظم میاں شہباز شریف جو مسلم لیگ ن کے صدرہیں کی منظوری سے پٹرول کی قیمت میں تقریبا ً پونے سات روپے فی لیٹر اضافے کا فیصلہ حکومت نے کیا ہے تو مسلم لیگ ن کی دوسری بڑی لیڈر سمجھی جانے والی شخصیت نائب صدر محترمہ مریم نواز شریف کا یہ ٹیوٹر بیان کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کے فیصلے کو مسترد کرتی ہیں اور حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کریں گی،کیا ایک طرح کا مذاق نہیں لگتا ہے۔ کیااس سے یہ ظاہر نہیں ہوتاہے کہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے مابین فیصلہ سازی کے حوالے سے اختلاف رائے موجود نہیں بلکہ عوامی سطح پر اس کو سامنے لانے میں بھی کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی۔ یہاں تک معاملات کو پھر بھی کسی حد تک گوارا سمجھا جا سکتا ہے لیکن محترمہ مریم نواز شریف نے اس کے ساتھ ہی اپنے دوسرے ٹویٹ میں پٹرول کے قیمت میں اضافے کے حکومتی فیصلے کے بارے میں اپنی پارٹی کے قائداور والد محترم سابقہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے موقف کا جو حوالہ دیتے ہوئے جو ٹویٹ کیا ہے اور جس طرح میاں محمد نواز شریف کی طرف سے اس فیصلے کی مخالفت کا ذکر کیا ہے اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محترمہ مریم نواز اورلندن میں بیٹھے میاں محمد نواز شریف جس مسلم لیگ ن کی قیادت کر رہے ہیں وہ کوئی اور مسلم لیگ ن ہے اور جس مسلم لیگ ن کے صدر کے طور پر میاں شہباز شریف بطور وزیر اعظم پاکستان فیصلے کر رہے ہیں وہ مسلم لیگ ن کوئی اور ہے۔ محترمہ مریم نواز کی ٹویٹ کے مطابق میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات میں ایک پیسے کے اضافے کی بھی حمایت نہیں کریں گے اور حکومت کی کوئی مجبوری ہے تو وہ اس فیصلے کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ٹویٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف پٹرولیم مصنوعات کے اضافے کے لیے منعقدہ مشاورتی اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے لندن سے شریک تھے اور وہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی رائے یا فیصلہ سامنے آنے کے بعد ناراض ہو کر اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ 
محترمہ مریم نواز کا یہ ٹویٹ بلاشبہ مسلم لیگ ن کے حوالے سے کسی مثبت تاثر کی عکاسی نہیں کرتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی صفوں میں قیادت کی اعلیٰ ترین سطح پر فیصلہ سازی کے حوالے سے اتفاق رائے، یک جہتی اور یک سوئی نہیں پائی جاتی۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین یا حکومتی عمائدین یا کسی دوسری نچلی یا اوپر کی سطح پر ذمہ دار افراد کے مابین کسی بھی معاملے میں فیصلہ سازی کے حوالے سے باہمی طور پر مکمل اتفاق رائے کا نا ہونا یا دوسرے لفظوں میں ایک دوسرے سے متضاد موقف کا حامل ہونا یا اختلاف رائے کا سامنے آنا کوئی انہونی بات نہیں۔ ایسا اکثر ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن سچی بات ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے یا ردوبدل کے بارے میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اور مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر محترمہ مریم نواز اور کچھ دوسرے مسلم لیگی راہنما جن میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے کچھ محترم سینٹرز وغیرہ بھی شامل ہیں کا جو مخالفانہ موقف سامنے آیا ہے یا اس کو جس طرح سامنے لایا گیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے مسلم لیگ ن میں تقسیم یا تفریق پیدا ہو چکی ہوں۔
مسلم لیگ ن کے حوالے سے ابھرنے والا یہ تاثر ّ یا نقطہ نظر ایسا نہیں ہے جس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے بارے میں اس تاثر کو میڈیا کے بعض حلقوں نے بھی اجاگر کیا ہے۔ محترم انصار عباسی جن کا تعلق ایک بڑے میڈیا نیٹ ورکس سے ہے اور وہ اسی میڈیا نیٹ ورک کے انگریز ی اخبار کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن ہیں اور ان کا شمار سینیر، باخبر اور موقر اخبار نویسوں میں ہوتا ہے اور ان کے ساتھ سید طلعت حسین بھی جو سینیر صحافی موقر اور معتبر تجزیہ نگار، اینکر پرسن اور یوٹیوب لاگر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، ان دونوں محترم صحافیوں نے اپنی خبروں اور پروگراموں میں مسلم لیگ ن کے بارے میں اس تاثر کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ جناب انصار عباسی نے اپنے نام کے ساتھ چھپنے والی خبر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی اعلیٰ ترین قیادت کے موقف میں سامنے آنے والے اختلافات کو بیان کرتے ہوئے باقاعدہ مسلم لیگ ن اسلام آباد اور مسلم لیگ ن لندن کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔ انھوں نے اپنی خبر میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی مشاورتی اجلاس سے اٹھ کر جانے اور ان کی ناراضگی کا جہاں اظہار کیا ہے وہاں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اسلام آباد کی طرف سے مسلم لیگ ن لندن (میاں محمد نواز شریف) کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی وہ بھی زیادہ شائستہ نہیں تھی۔ 
محترم سید طلعت حسین نے بھی اپنے یوٹیوب وی لاگ میں مسلم لیگ ن کی قیادت میں سامنے آنے والے اختلافات کو حرف تنقید بنایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف اگر مسلم لیگ ن کے قائد ہیں تو مسلم لیگی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں کا بوجھ انھیں ہی اٹھانا ہوگا۔سید طلعت حسین کے اس وی لاگ کے بارے میں راقم نے بھی چند سطروں پر مشتمل تبصرہ کیا ہے جس کا یہاں تذکرہ بے جا نہیں ہوگا۔راقم نے لکھا "مریم بی بی ہوں یا بڑے میاں صاحب وہ مسلم لیگی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں سے اپنے آپ کو کیسے بری الزمہ قرار دے سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آرہی کہ ادھر ادھر کی باتیں کرکے یا قیادت میں سے کسی کی طرف سے اپنے آپ کو کیے جانے والے فیصلوں سے الگ قرار دینے سے بات نہیں بن سکتی، نہ ہی عوام اس کو پسند کرتی ہے۔ بات بڑی واضح ہے کہ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود نام مسلم لیگ ن کا ہی لیا جاتا ہے اور حکومت بنانے سے اگر مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے کچھ فوائد حاصل کیے ہیں یا حاصل کر رہی ہے تو مشکل یا ناپسندیدہ فیصلوں کا بوجھ بھی اعلیٰ قیادت کو مل کر اٹھانا ہوگا۔ اس سے کوئی بری الزمہ نہیں ہو سکتا۔ "

مصنف کے بارے میں