گرین لائن بس کا منصوبہ اور بے بس عوام

گرین لائن بس کا منصوبہ اور بے بس عوام

اگر ن لیگ کے ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کیا جائے تو اس میں سر فہرست موٹر وے اور میٹرو بس کے منصوبے نظر آتے ہیں جن کا تذکرہ اکثر حکمران جماعت کے جلسوں میں زور و شور سے کیا جاتا ھے اور اسی بنیاد پر عوام سے ووٹ بھی مانگے جاتے ہیں پنجاب کو ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ھے اس لیئے وہاں پر لاہور راولپنڈی اور ملتان میں میٹرو بس چلانے کے لیئے اسپیشل ٹریک بنائے گئے اور باہر سے بسیں منگوائی گئیں جن پر اربوں روپے لاگت آئی ۔


سندھ میں ن لیگ کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے اپنی اس کمزوری کو دیکھتے ہوئے تین سال قبل کے بجٹ میں کراچی شہر کے لیئے بھی میٹرو بس منصوبے کا آغاز کیا گیا جسے گرین لائن بس کا نام دیا گیا ابتدائی طور پر اسکی لاگت 16 ارب بتائی گئی اور تکمیل مدت دو سال رکھی گئی تا ہم وقت گزرنے کے ساتھ اس منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ رقم 34 ارب روپے تک جا پہنچی ہے اس منصوبے میں ٹریک کی لمبائی سرجانی ٹاؤن تا گرو مندر 19 کلو میٹرہے ۔ ن لیگی حکومت کے آخری ایام میں بمشکل 60 فیصد کام مکمّل ہوا ہے


ابتدائی طور پر اس منصوبے میں 100 بسیں چلائیں جائیں گی جس سے روزانہ 20 سے 25 ہزار افراد مستفید ہو سکتے ہیں اس منصوبے کی افادیت اپنی جگہ مگر اہلیانِ کراچی نوحہ کناں ہیں کے اس منصوبے کو ڈیزائن کرتے وقت متبادل سڑکوں کا انتظام اور مرمت کا کوئی بندوبست کیا گیا جس کے باعث سارا دن شہری شدید ٹریفک جام اور ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں مگر متعلقہ حکام کے کانوںپر جوں تک نہیں رینگتی ۔


اس 19 کلو میٹر ٹریک کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کی تعداد 80 لاکھ سے زائد ہے اور یہ حصہ شہر کراچی کا گنجان ترین علاقہ سمجھا جاتا ہے اور اس منصوبے سے مستفید ہونے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ھے بعض حلقوں کا کہنا ہے کے جتنی بڑی لاگت کا منصوبہ ہے اتنی بڑی رقم میں کراچی کی 70 فیصد مرکزی شاہراہوں کی بہترین مرمت کر کے انہیں کشادہ کیا جا سکتا تھا مگر اس منصوبے کے بعد جو بھی سڑک موجود تھی اس میں سے کم از کم 20 فٹ چوڑائی مزید کم ہوگئی ہے اور یہ سب کچھ ایک بس کے لیئے کیا جا رہا ہے جبکہ اس ٹریک کے دونوں طرف سارا دن میں بکا مبالغہ لاکھوں گاڑیاں چلتی ہیں جو کے سڑک کی چوڑائی کم ہونے کے باعث شدید ٹریفک جام کا باعث بن رہی ہیں اور دس منٹ کا سفر گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے ۔
شہر کراچی میں اس وقت بلدیاتی حکومت تو موجود ہے مگر اس کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اختیارات کا مرکز سندھ حکومت ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کے کراچی جیسے میگا سٹی کے لئے روڈز کا انفراسٹرکچر صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔


وفاقی حکومت کی طرز پر چلتے ہوئے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اورنج لائن ٗ ریڈ لائن ٗ بلیو لائن اور بلو لائن کے نام سے کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں میٹرو بس ٹائپ کے منصوبے متعارف کروائے ہیں -جس میں ابتدائی طور پر اورنج لائن جسکے ٹریک کی لمبائی 4 کلو میٹر اور لاگت ڈیڑھ ارب روپے ہے دو سال کے عرصہ میں ایک ہی منصوبے پر کام ہوا ہے جس پر ابھی 50 فیصد تک ترقیاتی مکمّل ہوا ہے اور صوبائی حکومت کے خاتمہ کی مدت بھی قریب ہے۔


سوال یہ ہے کے آئندہ جو بھی جماعتیں اقتدار میں آئیں ان مصوبوں کے حوالے سے انکی ترجیحات کیا ہونگی ۔پنجاب میں ریکارڈ مدت میں میٹرو بس کے منصوبے مکمّل کرنے والے سندھ میں اب تک ناکام کیوں ہے کیا اسکا مقصد آئند انتخابات کے لیئے ماحول بنانا ھے یا عدم دلچسپی ۔


کچھ باتیں آنے والا وقت ظاہر کرے گا مگر جب تک کراچی کی اکثریتی آبادی اس جبر مسلسل سے گزرتی رہے گی اور حکمرانوں سے پوچھتی رہے گی۔کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ۔

محمد علی خان

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں )