منی بجٹ اور سامراجی ادارے

Rana Zahid Iqbal, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

اپنی خراب معاشی صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان کی ہر حکومت امریکہ سے مالی مدد طلب کرتی ہے تو امریکہ لوٹ کھسوٹ کے بارے میں تمام کارروائیاں عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے کرتا ہے۔ خود وہ کسی ملک کا دوست بن جاتا ہے اور سخت شرائط وغیرہ کے لئے اس کا کام آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے کرتے ہیں، اس لیے جب پاکستان اس سے مالی مدد طلب کرتا ہے تو وہ اسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو امداد کی درخواست دے۔ پاکستان نے امداد کے لئے گزشتہ برس آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی۔ آئی ایم ایف نے امداد کی منظوری بعض سخت شرائط کے ساتھ دی، یہ شرائط عائد کرنے کا مقصد بظاہر پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانا تھا، معاشی اور مالی پالیسیوں کو سخت کرنا، غریبوں کو تحفظ دینے کے لئے سوشل نیٹ ورک کو مضبوط بنانا، ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کے ذریعے ملک کی آمدنی میں اضافہ کرنا تھا۔ ماضی میں بھی پاکستان کو معاشی مضبوطی اور بہتر اقتصادی صورتحال کا جھانسہ دے کر آئی ایم ایف کے چکر میں پھانسا گیا تھا، آئی ایم ایف کا پہلا مطالبہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو زیادہ ٹیکس لگانے چاہئیں۔ آئی ایم ایف اپنی امداد کے ساتھ جو دوسری شرائط عائد کرتا ہے ان میں آزاد تجارت اور پرائیوٹائزیشن پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ دونوں شرائط عام طور پر غریب ممالک کی معیشت کے لئے تباہ کن اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ آئی ایم ایف کا خیال ہوتا ہے کہ اگر تجارت کو آزاد کیا جائے تو اس سے معاشی صورتحال میں استحکام آ جاتا ہے، ایک بڑا دھوکا ہے۔ جب یہ ملک تجارت میں آزادانہ پالیسی اختیار کرتے ہیں تو اس وجہ سے ان ممالک کا استحصال بہت آسان ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف غریب اور ترقی پذیر ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ آزدانہ تجارت کے لئے اپنی سرحدیں کھول دیں اور دوسرے ملکوں کے مال کو اپنے ملک کی منڈیوں تک رسائی دیں، جس وقت بھی ترقی پذیر ممالک اپنی سرحدیں تجارت کے لئے کھولتے ہیں سب سے پہلے سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک کی مارکیٹوں پر قبضہ جما لیتی ہیں۔ بیرونی سرمائے پر زیادہ انحصار بہت ہی خطرناک ہوتا ہے، اس طرح اس ملک کا سرمایہ دار میدان سے بھاگ جاتا ہے اور حکمران قرض کی مے کے عادی ہو کر نکمے ہو جاتے ہیں۔ بیرونی قرضدار کبھی بھی کسی ملک کو اپنے پیروں 
پر کھڑا ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اس طرح حکمران عوام کی طرف سے غافل ہو جاتے ہیں، صنعت تباہ ہو کر ملک بیرونی اشیاء کی منڈی بن جاتا ہے۔ آج پاکستان کی مارکیٹیں دنیا بھر کے سیکنڈ ہینڈ مال سے بھری ہوئی ہیں جن کو ہم کباڑ کا مال کہتے ہیں۔  
پاکستان آج کل خطرناک حد تک قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ اسی لئے آئی ایم ایف نے ایک بار پھر مجبور پاکستان کو اگلی قسط کی ادائیگی کے لئے کچھ شرائط عائد کر دیں جن کے تحت  343ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے اسے معاشی اصلاح کا عمل قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عوام پر اس کا کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ٹیکسوں میں یہ چھوٹ مراعات یافتہ طبقوں نے اپنے مفاد میں حاصل کر رکھی تھی۔ حکومت کے مؤقف کے مطابق 74 برس میں جتنے بھی مفاد پرست ٹولے آئے انہوں نے من پسند ٹیکس استثنیٰ دیا اور اپنی مرضی سے ایف بی آر کے قوانین میں ترمیم کرتے رہے۔ وہ ٹیکس استثنیٰ دیا جو کسی با اثر ایلیٹ گروپ سے متعلقہ تھے ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ استثنیٰ کی واپسی سے عام آدمی کی روز مرہ استعمال کی ا شیاء پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بظاہر حکومت کا یہ مٔوقف قابلِ فہم نظر نہیں آتا۔ بجلی، گیس، ادویات اور عام استعمال کی بہت سی دوسری اشیاء کی مہنگائی آخر کیسے ممکن ہے عوام پر نہیں صرف خواص پر اثر انداز ہو اور اس سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ نہ ہو۔ بالفرض اگر ایسا بھی ہے کہ بعض ٹیکس استثنیٰ کا خاتمہ صرف مراعات یافتہ طبقوں سے ہی متعلق ہے تب بھی انہیں اپنا بوجھ دوسروں پر منتقل کرنے سے آخر کیسے روکا جائے گا؟ حکومتی ارکان حالیہ فیصلوں کے لئے جواز تراشنے میں مصروف ہیں جیسے آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ تمام اشیاء پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگایا جائے لیکن جب کہ ہم نے ایسا نہیں کیا اور ماضی میں جب بھی آئی ایم ایف کوئی بھی مطالبہ کرتی تھی تو اسے من و عن قبول کر لیا جاتا تھا اور پالیسی سطح کی تبدیلیوں پر کسی نے توجہ نہیں دی کیونکہ ایسے فیصلے غیر مقبول ہوتے ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے میں بھی آئی ایم ایف سے طے کی گئی شرائط کا ہاتھ نمایاں ہے۔ آئی ایم ایف سے وعدوں کے پیشِ نظر ترقیاتی بجٹ کی رقوم تا حال نچلی سطح پر ہیں۔ سرکلر قرضے سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔
اس منی بجٹ کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور معیشت کی شرح نمو سست ہو گی جس سے روزگار کے مواقع میں مزید کمی واقع ہو گی کیونکہ حکومت ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کر رہی ہے۔ پاکستان کی معاشی بربادی کا سامان بھی عالمی مالیاتی اداروں کے قرض نے پیدا کیا ہے، ہر شے مہنگی کرانے کا مقصد ان کے سود کی قسطوں کی بر وقت ادائیگی ہے۔عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط پر ہوش ربا مہنگائی کے پھیلنے کے عمل کو روکنے کی مؤثر معاشی حکمتِ عملی حکمرانوں کا اقتدار اور قوم کو غربت کی ذلت سے بچا سکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ متعدد ترقی پزیر ممالک میں بھی ہوش رباء مہنگائی ہے لیکن پاکستان میں صورتحال ابتر ہے۔ ہمارے ہاں مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے کوئی مٔوثر طریقہ نہیں۔ کرنسی کی قدر روز بروز کم ہونے سے معیشت کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ مہنگائی کے تناسب سے اشیاء کی تیاری پر بھی لاگت زیادہ آتی ہے۔ حکومتی ارکان جیسے کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹیکس مراعات یافتہ طبقے پر لگے گا مگر اس کو قیمت میں ایڈجسٹ نہ کیا گیا تو بزنس مین کے لئے مسائل پیدا ہوں گے۔ کاروباری حالات تشویشناک ہیں، اس وقت سرمایہ دار سہما ہوا ہے۔ مارکیٹ میں بے یقینی کی صورتحال ہے۔   
ہم ہر بار آئی ایم ایف سے مدد اس امید پر لیتے ہیں کہ یہ ہمارے حالات سدھارنے میں معاون و مددگار ہو گا لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ عمل دہرانے کے باوجود آج تک ہمارے حالات نہیں سدھرے ہیں اور نہ ہی ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوئے ہیں۔ اس سے معیشت کو وقتی طور پر ایک سہارا ضرور مل جاتا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں اور آج یہ حالات ہو گئے ہیں کہ ان قرضہ جات کے حصول کے بغیر ملک کا چلنا بالکل ہی ناممکن ہو گیا ہے۔ ماضی میں بھی حکومت کسی بھی جماعت کی ہو سب کا رخ آئی ایم ایف کی طرف تھا۔ جو پاکستانی سیاست دان گلے پھاڑ کر پی ٹی آئی پر تنقید کر رہے ہیں کہ اس نے آئی ایم ایف کے پاس جا کر ملک کی آزادی گروی رکھ دی ہے، وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔ وہ کونسی سیاسی جماعت ہے جس کا ماضی عوام کے سامنے نہ ہو۔ پاکستان کے سیاسی لیڈروں کی منافقت اور دو عملی نے اس ملک کو مسائل کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت کو مالی مدد دے دی تو وہ کسی حد تک معاشی بحران سے نبرد آزما ہونے کے قابل ہو جائیں گے اور انہیں پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا، یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ انتظار تو ایک منٹ کا کرب ناک ہوتا ہے ورنہ آئی ایم ایف سے کسی کو کوئی گلہ نہیں ہے۔ 

مصنف کے بارے میں