ہماری سیاست کی سمت

ہماری سیاست کی سمت

دانشوروں کی دانش، پیش بینوں کی عمیق نظری اور تجزیہ نگاروں کے تخمینے سب فیل ہو گئے، عمران خان کا بیانیہ چھا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات کے نتائج نے بڑوں کی بنائی ہوئی، سجی سجائی بساط کو الٹ کر رکھ دیا۔ 10/9 اپریل کی رات تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جو ایک نیا سیاسی سیٹ اپ قائم کیا گیا تھا وہ متزلزل نظر آنے لگا ہے۔ آج کے دن، حمزہ شہباز شریف پی ٹی آئی کے 25 منحرفین کے ووٹوں کے ساتھ 21 مارچ کو وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی نے ان میں سے 20 نشستیں واپس لے لی ہیں، 5 مخصوص نشستوں پر پہلے ہی دوبارہ نامزدگی کے ذریعے اور 15 حالیہ ضمنی انتخابات میں جیت کر پی ٹی آئی سردست سادہ اکثریت لیتی نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کی طویل سیاسی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر یعنی 20 نشستوں پر بیک وقت کبھی ضمنی انتخابات منعقد نہیں ہوئے ہیں اور یہ بھی تاریخ ہے کہ حکمران جماعت کو اتنی عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور عمران خان کی ایوانِ وزارت عظمیٰ سے رخصتی کے بعد سے عمران خان ایک دن کے لئے بھی آرام و چین سے نہیں بیٹھے، ان کی مزاحمتی تحریک جاری رہی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ انتخابی تحریک کی شکل میں ڈھل گئی۔ نتیجتاً شاندار کامیابی پی ٹی آئی کا مقدر بن گئی۔ عوام نے واضح انداز میں ن لیگ کی پالیسیوں کے خلاف اور عمران خان کے بیانیے کے حق میں ووٹ دے کر انہیں جتوا دیا۔ 
ہم ابھی تک بحیثیت قوم یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے اور بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات کے حوالے سے ہمارے فیصلہ ساز ادارے اور پالیسی ساز ابھی تک گومگو کا شکار ہیں۔ ہم نے ایک طویل عرصہ پہلے اپنا وزن چین کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے سی پیک کو اختیار کر کے اسے پاکستان کے لئے گیم چینجر قرار دیا گیا۔ پھر سی پیک منصوبوں پر بڑے زورشور کے ساتھ کام شروع ہوا۔ ابھی یہ معاملات پیپلز پارٹی دور حکمرانی (2008-13) اور ن لیگی دور حکمرانی (2013-18)میں آگے بڑھ رہے تھے کہ 2016 میں سیاسی بحران پیدا کر دیا گیا۔ کرپشن کے نام پر نوازشریف کو پانامہ 
لیکس کی معلومات کی بنیاد پر کٹہرے میں لاکھڑا کیا گیا پھر عدالت کے ذریعے انہیں منظر سیاست سے ہٹانے کے لئے کاوشیں کی گئیں۔ 2018 میں عمران خان کو ایوان اقتدار میں لایا گیا۔ جہانگیر ترین، علیم خان اور ایسے ہی انویسٹروں کی کاوشوں کے ذریعے ایک نیا سیاسی نظام/سیٹ اپ قائم کیا گیاپھر44 مہینوں کے بعد 10/9 اپریل 2022 کو اسے بھی چلتا کیا۔
عمران خان کی نااہلی، نالائقی اور انتقامی سیاست نے ملک کو تھوڑے ہی عرصے میں تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا، فیصلہ سازوں نے اپنے تئیں انہیں ہٹانے اور اتحادی سیٹ اپ لانے کی حمایت کی۔ 
شہباز شریف حکومت نے تھوڑے ہی عرصے میں معاشی معاملات کو درست کرنے کی کاوشیں کیں، آئی ایم ایف کو راضی کرنے اور منانے کے لئے ان کی تمام جائز و ناجائز باتیں مان لیں، مہنگائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ، اشیاء خورونوش اور بجلی، گیس و پٹرولیم کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچیں۔ ن لیگ کی عوامی پذیرائی زمین بوس ہوتی نظر آنے لگی۔ اس کا واضح ثبوت 17 جولائی کو 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔ جن میں مسلم لیگ بری طرح شکست کھا چکی ہے۔ مسلم لیگ کے بقول انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی قومی مفادات کی خاطر دی کہ قومی معیشت کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ مسلم لیگ کی ’’آئی ایم ایف دوست‘‘ پالیسیوں کے حتمی نتائج ابھی سامنے نہیں آئے کیونکہ آئی ایم ایف نے ابھی تک ہماری قربانیوں کو سندِ قبولیت نہیں بخشی ہے۔ فنڈ کے بورڈ کا اجلاس اگلے ماہ ہونا ہے جس میں ہماری ’’عوام دشمن پالیسیوں‘‘ کو سند قبولیت دیئے جانے کی اطلاعات ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عالمی و علاقائی بدلتے حالات کے تناظر میں، پاکستان صرف معاشی و سیاسی بدحالی کا شکار نہیں ہے بلکہ فکری و نظری طور پر بھی دیوالیہ پن کا شکار نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کی سب سے مقبول پارٹی کے سربراہ عمران خان امریکہ اور اس کی بالادستی کو للکارتے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے تو امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی قرار دے رکھا ہے۔ روس کے ساتھ معاشی و تجارتی تعلقات قائم کرنے اور انہیں موثر بنانے کا نعرہ بھی لگا چکے ہیں۔ فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن سمیت وہ آئی جی، سیکرٹری لیول کے اہلکاروں کو بھی عمران خان للکارنے، دھمکانے اور برا بھلا کہنے سے نہیں چوکتے۔ ان کی زبان نفرت انگیز ہی کے شاہکار تخلیق کرنے میں مہارت کی حامل ہے۔ سیاستدانوں کو برے برے ناموں سے پکارنا بھی ان کا شیوہ ثانی بن چکا ہے۔ جب وہ اقتدار میں تھے تو اپوزیشن کو نہیں مانتے تھے جس ایوان کی منظوری سے وہ وزیراعظم بنے تھے اسی ایوان کے منتخب کردہ اپوزیشن لیڈر کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے اب اسی ایوان نے ان کی وزارت عظمیٰ چھین کر شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب کر لیا ہے تو اب وزیراعظم کو ماننے سے انکاری ہیں۔ اس حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں اور فوری الیکشن کرانے کا بھی کہہ رہے ہیں۔ موجودہ چیف آف الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے پھر الیکشن کون کرائے گا، کیونکہ نیا چیف لگانے کے لئے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت ضروری ہے اور وہ ایوان سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ ایوان کے منتخب کردہ حالیہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو بھی عمران خان مانتے نہیں ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ معاملات کیسے سدھریں گے۔ معاشی عدم استحکام بڑھے گا۔ مہنگائی پہلے ہی تاریخی بلندی پر ہے۔ سیاسی عدم استحکام اس میں اضافہ کرے گا۔ عوام ایک طرف مہنگائی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے اور لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں پریشان ہی نہیں بلکہ مایوسی کے گہرے بادل بھی چھائے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اپنے فالوورز کو دیگر سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف بہکا اور گرما رہے ہیں، نفرت انگیزی پھیلائی جا رہی ہے۔
ایسے ماحول میں کسی بہتر اور خوشگوار مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ عالمی سطح پر ہی نہیں بلکہ ریجنل سیاست میں بھی چین کو نیچا دکھانے کی روش پر چل نکلا ہے۔ سی پیک اس کے یعنی چین کے عالمی منصوبے کی شہ کلید ہے۔ ہمارے لئے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے امریکہ ہم پر دبائو ڈال رہا ہے کہ ہم اس سے دستبردار ہو جائیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور دیگر ایسے مالیاتی اور زری اداروں کے ذریعے دبائو بھی ڈالا جا رہا ہے کہ ہم امریکی ڈکٹیشن پر چلیں، جاری سیاسی ابتری میں کسی بھی حکومت کے لئے کام کرنا اور موثر فیصلے کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ معاملات گمبھیر ہیں اور کسی خوشگوار مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتے ہیں۔ باقی سب کچھ اللہ کے پاس ہے۔

مصنف کے بارے میں