ایف اے ٹی ایف کامیابی سب کی ہے!

ایف اے ٹی ایف کامیابی سب کی ہے!

آج کل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ملک بھر میں خاصے چرچے ہیں، اس کی وجہ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کی اْمید ہے،ہر کوئی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کررہا ہے، اس کے لیے پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 34شرائط (نکات) پر عمل درآمد کرکے اْسے یقینی بنایا ہے۔ درحقیقت ایف اے ٹی ایف دو فہرستیں رکھتا ہے۔ ایک بلیک لسٹ اور دوسرا گرے لسٹ۔ اس کی بلیک لسٹ میں شامل ممالک وہ ہیں جن پر واچ ڈاگ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کا الزام ہوتا ہے ، وہ ممالک اس کو روکنے کے لیے عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے ہیں۔دوسری جانب گرے لسٹ کو سرکاری طور پر ’’بڑھتی ہوئی مانیٹرنگ کے تحت دائرہ اختیار‘‘ کہا جاتا ہے، وہ قومیں تشکیل دیتی ہیں جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے اہم خطرات پیش کرتی ہیں لیکن جو ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ اس کے بعد ایک ایکشن پلان تیار کیا جاتا ہے ، جو اس کمی کو دور کرتا ہے۔
آگے چلنے سے پہلے اگر FATFکی تاریخ پر بات کریں تو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام 1989ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے اراکین کی تعداد 39 ہے، جن میں 37 ممالک اور 2 علاقائی تعاون کی تنظیمیں شامل ہیں۔ اس کے علا وہ ایف اے ٹی ایف سے 8 علاقائی تنظیمیں بھی منسلک ہیں۔پاکستان ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ سے وابستہ ایشیا پیسفک گروپ کا حصہ ہے۔ ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کی براہِ راست اور بالواسطہ وسعت 180 ملکوں تک موجود ہے۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔’’ایف اے ٹی ایف‘‘ بنیادی طور پر ایک ٹاسک فورس ہے جس کے قیام کا مقصد منی لانڈرنگ کے خلاف مشترکہ اقدامات کرنا تھا۔ امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ دہشت گردی کے لیے فنڈز کی فراہمی کی روک تھام کے لیے بھی مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے بعد اکتوبر 2001ء میں ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی فنانسنگ کو بھی شامل کرلیا گیا۔ اپریل 2012ء میں بڑے پیما نے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پرعمل درآمد کرانے کی ذمہ داری بھی اسی ٹاسک فورس کے سپرد کی گئی۔ٹاسک فورس اپنے کھلے ایجنڈے پر خالصتاً ٹیکنیکل بنیادوں پر کام 
کرتی ہے، اسی لیے اس ٹاسک فورس میں مختلف ملکوں کے ماہرین برائے انسدادِ منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ شریک ہوتے ہیں۔
اگر ہم پاکستان کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کے اقدامات کی بات کریں تو عالمی ادارہ نے جون 2018ء میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔ پاکستان کو 2019 کے آخر تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لیے کہا گیا تھا۔ پاکستان اس سے قبل 2012 سے 2015 تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں رہ چکا ہے۔ایف اے ٹی ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی مالی امداد کرنے والے لوگوں اور اداروں کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے۔ پاکستان ایسے اقدامات بھی اٹھاتے ہوئے نظر آئے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خطرات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ان پر کڑی نظر رکھ رہا ہے۔ایف اے ٹی ایف کا پاکستان سے یہ بھی مطالبہ رہا کہ غیرقانونی طور پر دولت اور اثاثے منتقل کرنے والے ذرائع کی شناخت کی جائے اور ان کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنائے جانے کے بعد پاکستان میں سرمایہ لگانے والے ممالک کی تعداد قدرے کم ہو گئی تھی۔ مارچ 2021ء میں ہونے والے ریویو میں ٹیررسٹ فنانسنگ کے ادارے نے پاکستان کو گرے لسٹ میں باقی رکھتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے سفارشات کی تکمیل میں خاصی پیشرفت کی ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں اور افواج پاکستان نے ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ بلکہ افواج پاکستان نے اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا اور حکومت اور قومی اداروں کے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا، بھارتی کوشش تھی پاکستان کو ہر حال میں بلیک لسٹ کر دیا جائے، پاک فوج نے اس سازش کو بھی ناکام بنایا۔ ایف اے ٹی ایف کے تحت ٹیرر فنانسنگ کے 27 میں سے 27 پوائنٹ اور منی لانڈرنگ کے 7 میں سے 7 پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔ دونوں ایکشن پلانزکل ملا کر34 نکات پر مشتمل تھے۔اینٹی منی لانڈرنگ اور کائونٹر ٹیررسٹ فنانسنگ پر مبنی اس ایکشن پلان کو 4 سال کی مسلسل کوششوں کے بعدمکمل کیا، پاکستان کو گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ کی طرف گامزن کیا اس حوالے سے حکومت سے مشاورت کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے احکامات پر 2019 میں جی ایچ کیو میں DGMO کی سربراہی میں سپیشل سیل قائم کیا۔جی ایچ کیو سیل نے جب اس کام کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت صرف 5 نکات پر پیشرفت تھی اس سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوارڈینیشن میکنزم بنایا ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا اور اس پر ان تمام محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز سے عمل درآمد بھی کروایا۔جی ایچ کیو میں قائم سیل نے دن رات کام کرکے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر ایک مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیا، جس کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں کامیابی حاصل ہوئی، پاکستان نے اپنا 2021 کا ایکشن پلان ایف اے ٹی ایف کی طرف سے مقرر کردہ ٹائم لائنز یعنی جنوری 2023 سے پہلے مکمل کر لیا۔
بہرکیف یہ ایک کامیابی ہے، اور اب ستمبر تک ابھی رسمی واچ لسٹ پر ہیں جس کے مطابق ایف اے ٹی ایف ٹیمیں ستمبر 2022ء تک پاکستان میں اینٹی منی لانڈرنگ (AML) اور کائونٹر ٹیررسٹ فنانسنگ (CFT) سسٹمز کی پائیداری اور ناقابل واپسی کو چیک کرنے کے لیے جلد ہی آن سائٹ وزٹ کریں گی، جس کے بعد 22 اکتوبر تک وائٹ لسٹنگ کی راہ ہموار ہو گی۔ اْمید ہے پاکستان اس میں بھی یقینی طور پر کامیاب ہوگا، اور ہم پر لگے الزامات کے بادل جلد ہی چھٹ جائیں گے، اور پاکستان میں جلد ہی بیرون ملک سے سرمایہ کاری آئے گی۔ یہی پاکستان کی ترقی کا پہلا زینہ ہوگا اور اس کامیابی کا سہرا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور بالخصوص افواج پاکستان کے سر ہوگا!

مصنف کے بارے میں