ملک آئین کے مطابق چلانے سے ہی ٹھیک ہوگا، مولانا فضل الرحمان

The country will be fine only if it is run according to the constitution, Maulana Fazlur Rehman
کیپشن: فائل فوٹو

اسلام آباد: جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ملک تب ٹھیک ہوسکتا ہے جب آئین کے مطابق چلایا جائے، اس طرح کی نااہل حکومت کی موجودگی میں یہ ایک سراب ہو سکتا ہے۔

گزشتہ روز دیئے گئے ایک اہم بیان میں مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ  آرمی چیف نے اپنے خطاب میں ملک کے مستقبل سے متعلق نکات اٹھائے،2018 ء میں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی نے جو رپورٹ مرتب کی، وہی کچھ انہوں نے فرمایا۔ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی تمام سفارشات ہم نے کیں، سفارتی ناکامی کی بات ہمیں نے میڈیا کے سامنے رکھی، پاکستان کے موجودہ حالات بارے قوم کو آگاہ کرتے رہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہیے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں ملک میں قانون کی حکمرانی اور جائز پارلیمنٹ ہو۔ آرمی چیف نے جو نکات اٹھائے، انہیں تسلیم کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کا اداروں کے ساتھ باہمی جوڑ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کو ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنا دیا۔ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک دہشتگردی کی جنگ کو اپنے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہبی طبقے نے تحمل، برداشت اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ آئمہ کرام کو دھمکانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے یہ کسی طور درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو مغربی اداروں کے آگے گروی رکھ دیا گیا، سٹیٹ بینک کسی بھی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ جو قانون سازی ہونے جا رہی ہے اسے پاکستان سے لاتعلق کرکے بیرون ملکوں کے ہاتھ دیا جا رہا ہے۔ میڈیا میں اس حوالے سے بڑی بحث چل رہی ہے اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے اقدامات کرنا چاہیں۔

جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ اگر بند کمرے میں میٹنگ کی ہر بات باہر جا رہی ہو تو اس کا تاثر عوام کے سامنے ٹھیک نہیں جاتا۔ پی ڈی ایم میں لفظ موومنٹ کا مقصد تحریک کی طرف جانا ہے۔ پیپلز پارٹی نے سی اے سی کی طرف جانے کی مہلت مانگی۔ پہلے بھی انہیں مہلت دی اور اب بھی دی ہے، اب ان کا انتظار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہماری اتحادی ہے، چاہتے ہیں پی ڈی ایم میں اتحاد قائم رہے۔ تحریک کو ملتوی کرنے سے قوم میں مایوسی گئی ہے۔ لانگ مارچ کا مقصد ہونا چاہیے۔ بامقصد لانگ مارچ کیلئے ضروری ہے پارلیمنٹ سے استعفے دیئے جائیں۔ ہم کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کر رہے، ایک پارٹی کو قربان کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن ہم یکجہتی چاہتے ہیں۔ قوم کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، تحریکیں چلیں گی اور آگے بڑھیں گی۔