توپھر یہ کون ہے؟

توپھر یہ کون ہے؟

خدانخواستہ اگر میں کسی مقدمہ میں ضمانت پر ہوں اور ایک دہشتگرد میرے گھر میں گھس جائے تو کیا پولیس اُس صورت میں صرف اس لئے میرے گھر داخل نہیں ہو سکتی کہ میں ضمانت پرہوں؟عدالت نے مجھے گرفتارنہ کرنے کی ضمانت دی ہے نہ کہ میرے گھر کو ”دار الامان“ قرار دے دیا ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ زمان پارک کے بلوہ میں مجھے تحریک انصاف لاہورکے نمایاں کارکن نظر نہیں آئے بلکہ لاہورکا صدر اورجنرل سیکرٹری تک ورکروں کو زمان پارک بلا کر خود روپوش ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ کون لوگ تھے؟ یہ کیسے احتجاجی تھے جن کو لاہوریوں نے پہلی بار دیکھا ہے۔ جن کے پاس پیٹرول بم ٗ غلیلیں اور اُن میں پڑنے والے گول پتھر جو یقینا لاہور میں نہیں ملتے ٗ سپیشل ڈنڈے ٗ ریاستی ملازمین پر بے رحم تشدد ٗدرختوں اور دیواروں پر چڑھنے کی تربیت ٗ آنسو گیس سے بچنے والے ماسک ٗ حفاظتی بینکرز ٗ ریت کی بوریاں اور مورچے! یہ سب کیا تھا؟کیا کسی مسلح جہاد کا غیراعلانیہ آغاز؟ کیاکوئی زیر زمین بغاوت کی کوشش؟دیکھتے دیکھتے لاہور کیا سے کیا ہو گیا؟عمران نیازی زبان سے کچھ بھی کہہ سکتا ہے لیکن کسی بھی عملی انقلابی جدوجہد کیلئے نہ صرف غیر موزوں بلکہ سو فیصد ناکارہ ہے تو پھر یہ سب اہتمام ِ بربادی کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ عمران نیازی اس سارے کام کی اجازت تو دے سکتا ہے لیکن ایسا خود نہیں کرسکتا اور اجازت بھی اُسی صورت میں جب اُسے خود جان کی امان ملی ہوورنہ چیئرمین تحریک انصاف کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ اتنا بڑا انتشار خودکر سکتے ہیں تو ماضی قریب تک اُن کا قریبی ساتھی ہونے کی وجہ سے میں یہ بات حلف پر ماننے کیلئے بھی تیار نہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ عمران نیازی نہیں۔۔۔ تو پھر یہ کون ہے؟یا پھر اس ملک پر یہ کون ہے اوروہ کون تھا ہی حکومت کرتے رہیں گے؟
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ عمران نیازی اپنی زندگی میں پہلی بار ناموس رسالت ریلی نکالنے پر گرفتار ہوا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ڈنمارک کے خاکے پہلی بار چھپے تھے۔ ہم نے 14ظفر علی روڈ کے دفتر سے نکل کر ریلی کی شکل میں ناصر باغ جانا تھا لیکن عمران نیازی کے ذاتی دوست اُسے مشورہ دے رہے تھے کہ ظفر علی روڈ پر چکر لگا کر فوٹیج بنو ا کر جاری کر دیں۔ میں غور سے یہ سب کچھ سن رہا تھا اور اِس بزدلانہ مشورے پر دل ہی دل میں کڑ رہا تھا لیکن جونہی عمران فارغ ہوا میں نے کہا:”جنابِ چیئرمین ٗ آپ ریاست ِ مدینہ بنانے کے داعی ہیں اورہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ آج کے دن ہم بزدلی دکھا جائیں ٗ آپ نے اے پی سی میں ناصر باغ پہنچنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔“ میری باتوں کا اثر ہوا یا اللہ کو یہی منظور تھا کہ وہ مختصر سی ریلی عمران نیازی کی قیادت میں ناصر باغ کی طرف روانہ ہو گئی۔ سارا رستہ خیر سے گزر گیا لیکن جونہی ہم ایم اے او کالج لاہور سے متصل پیٹرول پمپ کے سامنے پہنچے تو تھانہ پرانی انارکلی کی پولیس ایس ایچ او ملک نثار کی قیادت میں ریلی پر حملہ آور ہوئی۔ مجھے اور احمد علی بٹ کوبدترین تشدد کرکے پولیس وین میں ڈال لیاگیا جبکہ عمران نیازی ٗ عمر سرفراز چیمہ ٗ ایڈمرل جاوید اقبال ٗامین ذکی ٗ ائرمارشل شاہد ذوالفقار جو ایک شاہ زور ڈالے پر سوار تھے انہیں پولیس کی بڑی گاڑی میں بٹھایا اور یہ کارواں تھانہ پرانی انارکلی کی طرف روانہ ہو 
گیا۔ تھانہ پہنچ کر چیئرمین تحریک انصاف نے میرے اوپر بدترین تشدد پر افسوس کا اظہار کیا تو احمد علی بٹ نے کہا: ”اس تشدد کے ہم پرانے عادی ہیں آپ اپنی سنائیں سب خیریت سے ہے؟“ تھوڑی دیر میں اعلیٰ پولیس افسران آنا شروع ہو گئے تو چیئرمین تحریک انصاف نے مجھے ٗ احمد علی بٹ اور عمر سرفراز چیمہ کو بلا کر کہا مجھے یہ لوگ جیل لیجارہے ہیں۔دیکھیں آپ کے ساتھ کیا کرتے ہیں اور پھر عمران وہاں سے زمان پارک چلے گئے اور تقریباً 30 کے قریب ورکرز تھانے میں ہی بند تھے۔ رات گئے ہمیں بھی چھوڑ دیا گیا لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ عمران نیازی گرفتار ہوا اور اپنے جانثار ساتھیو ں کو چھوڑ کررفو چکرہوگیا۔
مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو عمران نیازی کو بھی گھر نظر بند کردیا گیا۔ہم رات گئے تک چیئرمین عمران نیازی کے ساتھ تھے۔ عمران پنجاب یونیورسٹی طلبا کے کسی پروگرام میں جانے پر بضد تھے لیکن کوئی بھی ورکر انہیں پنجاب یونیورسٹی جانے کا مشورہ نہیں دے رہا تھا لیکن عمران کی ہٹ دھرمی دیکھ کرہم نے آخری مشورہ یہ دیا کہ ”جنابِ چیئرمین ٗ آ پ جماعت اسلامی اور جمعیت کو نہیں جانتے لیکن ہم اِن کے پرانے بھیدی ہیں اول توآپ وہاں تشریف نہ لے جائیں اوراگرجانا اتنا ہی ضروری ہے توہم ہر صورت میں آپ کے ساتھ جائیں گے تاکہ جو بھی ہو دیکھا جائے گا۔ عمران نیازی نے وعدہ کرلیا اورصبح نو بجے کا وقت طے ہو گیا۔ صبح نو بجے جب ہم زمان پارک پہنچے تو یہ دلخراش خبر ملی کہ چیئرمین تحریک انصاف رات گئے ہی حفیظ اللہ نیازی کے ساتھ نکل گئے ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی کا اپنا سیاسی پس منظر جمعیت کا تھا اور اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کا تعلق عمران کی فیملی سے وہی تھا جو گھر کے کسی بزرگ کا ہوتا ہے۔پھر عمران نیازی خود بھی اُن دنوں قاضی حسین احمد کے بہت زیر اثر تھے پنجاب یونیورسٹی میں رات یہ کسی پروفیسر کے گھر ٹھہرے لیکن جب صبح وہاں سے نکلے تو جمعیت نے دھر لیا کیونکہ جماعت اسلامی تو پرویز مشرف کے مکمل رابطے میں تھی قاضی حسین احمد ایل ایف او سائن کرچکے تھے او ر اسلامی جمعیت طلبا کی قیادت بھی مختلف لوگوں کے رابطے میں ہمیشہ رہتی ہے۔ عمران خان پر بدترین تشدد کیا گیا ٗ قومی ہیرو کی تذلیل کی گئی اور اُس کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کر دیا گیا جس نے کارروائی مکمل کرکے عمران خان کو ڈیرہ غازی خان جیل بھیج دیا۔ان چند دنوں کی روداد بھی بہت دلچسپ ہے کیونکہ وہاں کے ضلعی اورڈویژنل صد ر برادرم عامر ہاشمی نے وہا ں ہر طرح سے اپنے چیئرمین کا خیال رکھا لیکن جو باتیں انہوں نے بتائیں وہ بھی بزدلی کی تاریخ کا حصہ ہیں۔اِس ہتک آمیز واقعہ کا سب سے بزدلانہ اور قابل نفرت پہلو یہ ہے کہ عمران نیازی پر تشدد کرنے میں پیش پیش جمعیت کے کارکن حافظ فرحت کو بعد ازاں نہ صرف تحریک انصاف میں شامل کر لیا گیا بلکہ وہ عمران نیازی کی ناک کا بال بن گیا اور اکثر عمران نیازی کو ماموں کہتے ہوئے پایا گیا جبکہ وہ آج جب عمران نیازی کا پولیٹکل سیکرٹری ہے وہ اُسے ماموں ہی بنا رہا ہے جس کا عقد اُس پر آنے والے دنوں میں کھل جائے گا۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران نیازی پر تشدد کرنے والے حافظ فرحت کے دوسری ساتھی عثمان گجر کو بھی تحریک انصاف میں شامل کر لیا گیا اور وہ یوتھ کا کرتادھرتا بنادیا گیا۔جتنی دیر تک جمعیت کے کارکنوں کی معافی نہیں ہوئی ہارون الرشید کالم چھوڑ کر صرف معافی نامے لکھتا رہا 
اسلام آباد میں عمران نیازی کی پیشی کے موقع پر ہونے والا بلو ہ انتظامیہ کی نااہلی یا پلاننگ کا حصہ ہے ورنہ اسلام آباد پاکستان کا واحد شہر ہے جو پلان سے بنا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں داخلے اور خروج کے چندرستے بند کردیئے جائیں تو اسلام آباد میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ یہی سمجھ آ رہا ہے کہ اگر یہ انتظامیہ کی نا اہلی نہیں تو پھر شعوری کوشش اور پلاننگ سے عمران نیازی سے وہ سب کچھ کرایا جا رہا ہے جو ریاست چاہتی ہے۔ اُسے ٹریپ کیا جا رہا ہے جس میں وہ تمام بھی شامل ہیں جو عمران کی نااہلی کی صورت میں تحریک انصاف سنبھالنے کے دعویدار ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ تحریک انصاف ایک فرد کا نام ہے جسے عمران خا ن کہا جاتا ہے اور اگر خدا نخواستہ اُس کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو تحریک انصاف کی سیکنڈ لیڈر شپ کو تو تحریک انصاف کا نوجوان برداشت ہی عمران خان کی وجہ سے کررہا ہے ورنہ اگر یہ لوگ اتنے معتبر ہوتے تو جب یہ دوسری جماعتوں میں تھے تو تحریک انصا ف کا ورکر اِن کی اُس وقت بھی عزت کرتا۔ پاکستان ایک بدترین بحران کی طرف بڑھ رہا ہے ایک طرف انتہا پسند اپوزیشن اوردوسری طرف نالائق حکومت ہے۔اِن حالات میں پاکستان اور اِس میں بسنے والوں کا کیا بنے گا کوئی نہیں جانتا۔