عمران خان کو درپیش چیلنجز

عمران خان کو درپیش چیلنجز

آج تک پاکستان میں الیکشن کرانے کے لیے جتنی نگران حکومتیں آتی رہی ہیں ان کو کبھی اتنے مشکل حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا محسن نقوی حکومت کو کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نگران حکومت انتہائی غیر معمولی حالات میں لائی گئی ہے۔ پہلے کبھی کسی حکومت نے خود اسمبلی تحلیل نہیں کی تھی ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ پھر یہ بھی پہلے دیکھنے میں کبھی نہیں آیا کہ ملک کی ساری بڑی جماعتیں حکومت میں ہوں اور اپوزیشن میں ایک جماعت کھڑی نظر آئے۔ یہ بھی پہلے کبھی نہیں ہوا کہ حکومت میں شامل جماعتیں مل کے سارا زور اس بات پر ہی صرف کر رہی ہوں کہ کسی بھی طرح الیکشن کو روکا جائے۔  اقتدار کی بھول بھلیاں ایسی ہی کٹھن اور خطرناک ہوا کرتی ہیں جس کا مشاہدہ تو شاید بہت سارے لوگوں کو ہوتا ہے لیکن تجربہ صرف ان کو ہی ہوتا ہے جو اس کا حصہ بنتے ہیں۔ کسی بھی بڑے عہدے یا حیثیت پر بیٹھے آدمی کے لیے سب سے مشکل ہوتا ہے کہ اس تک انتہائی غیرجانبدارانہ رائے پہنچے کیونکہ اس کے ارد گرد پھرنے والے لوگ زیادہ تر یا تو اسے خوش کرنے والی رائے دیتے ہیں یا پھر ان کے مشوروں کا کوئی نہ کوئی زاویہ ہوتا ہے۔
جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ عمران مخالف دھڑوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوامی رجحان ہے۔ پی ڈی ایم کے لیے ابھی تک اس حقیقت کو سمجھنا عذاب بنا ہوا ہے کہ تحریک ِ انصاف کے علاوہ ساری کی ساری سیاسی جماعتیں نہ صرف عوامی حمایت کھو چکی ہیں بلکہ کروڑوں عوام کے دلوں میں ان سب کے خلاف غم و غصے اور نفرت کے الاؤ دہک رہے ہیں اور ان کے پاس عمران خان کو راستے سے ہٹانے کی شدید خواہش کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ سرچ کے بہانے عمران خان کے گھر پر دھاوا بولنے اور خاص طور پر باورچی کی گرفتاری کو بھی عمران خان کو قتل کرنے کے منصوبے سے جوڑا جا رہا ہے۔ خود عمران خان کے دوستوں نے ان کو باورچی بدلنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ ادھر پاکستانی عوام ان سیاستدانوں پر بھروسہ کرنے کو تیار ہے نہ کسی ادارے پر اس کا اعتماد باقی رہا ہے۔ میرے اپنے تجزیے کے مطابق تیس اپریل تک عمران مخالف دھڑے عمران خان کو منظر سے آؤٹ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس پوری صورتحال میں پی ٹی آئی کے پاس سوائے عوامی حمایت اور عدالتوں کا دروازہ 
کھٹکھٹانے کے اور کوئی چارا نہیں۔ حکومت میں رہ کر کیسوں سے بچنے کا تجربہ تو حکمرانوں کو ہو چکا ہے لیکن حکومت سے باہر ہو کر کیا کچھ ہوتا ہے اس کا تجربہ ابھی رہتا ہے اور یہ کتنا تلخ ہوتا ہے اس کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک سر پر ٹوٹ نہ پڑے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ جس قدر ممکن ہو خود کو بچا کر اور دامن سمیٹ کر چلا جائے کیونکہ 2023 کے پاکستانی عوام 1980 یا نوے والے نہیں نہ پاکستان کے حالات پہلے والے ہیں۔ لوگ اپنے بھوکے بلکتے بچے دیکھتے ہیں تو حکمرانوں کے عیاشیاں کرتے بچوں کو اسی طرح تڑپتا دیکھنے کی خواہش میں بدعائیں کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی بھی گریٹ گیم کی بات کر رہا ہے۔ اسے تو یہ تک پتہ ہوتا ہے کہ امریکہ کے کسی نمائندے کے بیان کو ڈی کوڈ کس طرح کرنا ہے۔ موجودہ صورتحال میں کسی چھوٹے موٹے اور وقتی فائدے یا مزے کے لیے حالات کا حصہ بننے کے بجائے اس سے بچ کر نکل جانے میں ہی دانائی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی نفرت سے نہ تو امریکہ کو کوئی فرق پڑنے لگا ہے نہ سیاستدانوں کو لیکن صحافیوں کی تو عزت ہی غیرجانبدار رہنے میں ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو اظہار کی جس طاقت سے نواز دیا ہے اور وہ بھی کسی ضابطے قانون اور تربیت کے بغیر اس کے سامنے اخبارات اور کنٹرولڈ میڈیا بے بس نظر آتا ہے۔ اس وقت اس مادر پدر آزاد طاقت کی حمایت صرف اور صرف عمران خان کو حاصل ہے۔ عمران خان کے خلاف برسرپیکار قوتوں کو اس کا سامنا صرف ذاتی سطح پر نہیں بلکہ بات خاندانوں اور اولاد تک جا پہنچتی ہے۔ بات بندوق کی طاقت سے بہت آگے جا چکی ہے۔ اس بات کو سمجھنے اور اناؤں کو پس پشت رکھ کر تسلیم کر لینے کی ضرورت ہے۔ آنے والا وقت پاکستان پر مزید بھاری ہوتا نظر آ رہا ہے اور اس بھاری وقت کا احساس صرف عمران خان کو ہے جو بار بار کہہ رہا ہے کہ پاکستانی عوام کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہ دھکیلا جائے۔ ہمارے موجودہ حکمران شکر کریں کہ مہنگائی کے مارے عوام ابھی تک صرف عمران خان کی کال پر ہی نکلتے ہیں یا اسے گرفتاری سے بچانے کے لیے باہر آتے ہیں۔ جس دن اس عوام کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا تو پھر یہ اپنی اپنی کال پہ باہر نکلیں گے اور خود کو بچانے کے لیے راستے میں نظر آنے والی کسی رکاوٹ کو سلامت نہیں رہنے دیں گے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عمران خان کے لیے بھی میرا مشورہ ہے کہ اس دن بہ دن بڑھتے ہوئے پریشر میں انہیں اب پہلے سے زیادہ صبر، تحمل اور بردباری کی ضرورت ہے۔ ان کے ہاتھ میں عوامی ایٹم بم کا وہ ٹریگر ہے جو اگر غلطی سے دب گیا تو ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ اگرچہ وہ اسی صبر کا مسلسل مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن زمان پارک پر پولیس کا دوسرا حملہ اور جوڈیشل کمپلیکس میں ان کی گرفتاری یا قتل کا منصوبہ ان کے جذبات کو بھڑکا سکتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جو بھی ملک کو انارکی کا شکار کرنے میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر ملوث ہے اس سے کسی طور بھی ملک کی بقا کے لیے کچھ کرنے کی توقع نہ رکھتے ہوئے خود ہی ایسی حکمت عملی وضع کی جائے اور ملک کو بخیر و عافیت اس چنگل سے رہائی دلائی جائے۔ عمران خان پر اگلا حملہ ان کے قریب ترین اور با اعتماد کسی فرد یا افراد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سنائپرز یا زہر یا بم بلاسٹ کے خطرات کو سختی سے پیش نظر رکھا جائے اور آئین و قانون کو ذاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے کے دباؤ میں آنے کے بجائے آئین و قانون کی جنگ حقیقی آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر لڑی جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ فتح ہمیشہ حق کی راہ میں صبر و استقامت اور خیر اختیار کرنے والوں کو نصیب ہوا کرتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے لیے دور رس حکمت عملی وضع کی جائے کیونکہ بھارت میں خالصتان کا مسئلہ شدت پکڑتا جا رہا ہے۔ فرانس نے جرمنی گیس پائپ لائن کی تباہی کا الزام امریکہ پر لگا دیا ہے اور خود امریکہ میں ٹرمپ کی گرفتاری اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والے ممکنہ سیاسی بحران کے شواہد مل رہے ہیں۔ یوکرین رشیا جنگ پہلے ہی دنیا بھر کی اکانومی اتھل پتھل کر چکی ہے۔ یہ سب میرے سال پہلے کے تجزیے کے مطابق دنیا میں اکنامک اور فنانشل پیراڈائم شفٹ کو تقویت دیتے نظر آتے ہیں۔ جو اس خیال کو بھی تقویت دے رہے ہیں کہ خطے میں پاکستان کی حیثیت کا تعین ہماری سیاسی، معاشی اور عسکری حیثیت کے مطابق ہو گا۔ بھارت، اسرائیل اور امریکہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اس پیراڈائم جو کہ معاشی قوت کے توازن کے مغرب سے مشرق میں شفٹ کی بنیاد پر ہوتا نظر آ رہا ہے۔۔۔ پاکستان ایک بڑی قوت بن کر ابھرے۔ ایسے حالات میں اب عمران خان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایک طرف تو پاکستان میں جاری داخلی تصادم سے بچاؤ کی حکمت عملی اپنائے اور دوسرا خارجی سطح پر جاری پاکستان دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم کو پورا نہ ہونے دے۔