قلم اور کرپان

قلم اور کرپان

یہ عبرت کا مقام ہے کہ وقت کی بے اماں طاقت سے کوئی بھی ڈھونگ سلامت نہ رہا۔ جمہوریت نہ ڈکٹیٹرشپ نہ ہائبرڈ نظام، آزاد عدلیہ نہ تبدیلی نوٹنکی، مذہبی ٹچ نہ معاشرت کی اساس، وٹس ایپ پر فیصلے ہوئے نہ ہی نگران ججز۔ شکاگو سے امریکن جوڈی کیچر سوسائٹی کے اہم رکن نے ضرب المثل جسٹس (ر) جناب رستم کیانی سے فرمائش کی کہ آپ مجھے حضرت علیؓ کے اس خط کی کاپی بھجوائیں جو انہوں نے حاکم مصر کو لکھا تھا۔ امریکہ کی عدالت عظمیٰ کے جسٹس ڈگلس، کیانی صاحب کے معترف ہی نہیں فکری اعتبار سے فالوور بھی تھے۔ ہماری عدالتی تاریخ میں جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئس، جسٹس رستم کیانی، جسٹس صمدانی، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس ملک سعید حسن وہ چند ایک نگینے ہوں گے یا اب ان شاء اللہ وطن عزیز کے عوام جسٹس جناب فائز عیسیٰ کو دیکھیں گے، جو یاد رکھے جائیں گے۔ زیادہ تر جج صاحبان جنہوں نے انمٹ نقوش چھوڑے وہ انتظامیہ سے عدلیہ میں Induct کیے گئے۔ جن میں جسٹس کارنیلئس، جسٹس رستم کیانی سر فہرست ہیں۔ ہماری عدالتی تاریخ کے وہ فیصلے جن کا تعلق اجتماعی اور سیاسی طور پر وطن عزیز کے مستقبل، قوم کی آزادی اور آئین و قانون کی بالا دستی ہے وہ سب کے سب قلم نہیں کرپان سے لکھے گئے۔ مولوی تمیز الدین کیس جس میں ایوب خان کا اقتدار جائز قرار دیا گیا، اب کون جانتا ہے جسٹس محمد شریف، جسٹس ایس اے رحمن، جسٹس اے ایس ایم اکرم کون تھے بس چیف جسٹس محمد منیر یاد رکھا گیا کہ اگر یہ نہ لیٹتا تو قوم بھی کھڑی رہتی یا پھر کارنیلئس صاحب جنہوں نے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ نصرت بھٹو کیس شاید قوم ہضم کر جاتی مگر جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا مقدمہ وطن عزیز کی تاریخ کا دھارا منفی سمت کی طرف موڑ گیا۔ کون جانتا ہے، جسٹس زکی الدین پال، جسٹس گلباز خان، جسٹس ایم ایچ قریشی کون تھا، مولوی مشتاق یاد رہ گیا جو ذلت و عبرت کا نشان بن گیا۔ کون بات کرتا ہے جسٹس حلیم، جسٹس یعقوب اور جسٹس انوارالحق کی جنہوں نے نصرت بھٹو کیس میں نظریہ ضرورت ایجاد کیا۔ یاد رہ گئی گیارہ سالہ سیاہ رات جو اب تک جاری ہے۔ جسٹس افتخار چودھری، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ کی صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ حالیہ تاریخ میں میاں نوازشریف کیس کا فیصلہ کرنے والے کردار تو ابھی زندہ ہیں اور بعض تو عہدوں پر قائم ہیں، کیا اس فیصلے کو لوگ نہیں سمجھتے کہ یہ بھی قلم نہیں کرپان سے لکھا گیا تھا۔ بابا رحمتا جسٹس ثاقب نثار جس نے عدالتی نظام تہہ و بالا کر کے رکھ دیا نے آقا کریمؐ کا لقب جو صرف آقا کریمؐ کے لیے مخصوص ہے، صادق اور امین ایک پرانے پلے بوائے کو دے دیا۔ یہ قلم نہیں کرپان تھی جس نے ایمان کو بھی چھلنی کر دیا۔ اللہ کریم نے قلم پر ایک مکمل سورۃ مبارکہ نازل فرمائی اور قلم کی قسم کھائی (قسم گواہ رکھنے کو بھی کہتے ہیں) ”قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں“ یعنی اللہ نے علم و عقل اور سماعت و بینائی یہ نعمتیں حق شناسی کے لیے دی تھیں (مفہوم)۔ اس حوالے سے تفصیلاً پھر لکھوں گا ابھی ایک اشارہ دیئے دیتا ہوں کہ قلم کی حرمت کیا ہے۔ اب اندازہ کریں اگر قلم لوگوں میں انصاف کی غرض سے حرکت میں آئے تو اس میں منصف کے فرائض بھی شمار و شامل ہوتے ہیں یہ تفویض کردہ اختیارات ہیں۔ اس میں لغزش اور زیادتی قہر خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ تو قلم کی بات ہے، دوسرا اظہار جو عام ہے اللہ کریم فرماتے ہیں  ”اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان کرنا سکھایا (مفہوم)“۔ لہٰذا اگر آپ اپنا درد دل بیان نہ کر سکیں تو گویا آپ اپنی پیدائش کا منشا پورا نہیں کرتے۔ قلم اور بیان کے ذریعے اظہار کے لیے ایک مکمل ضابطہ اخلاق دنیا کے قوانین اور ہمارے دین میں موجود ہے۔ تہمت کی سزا ہے۔ جھوٹ پر مقدمہ۔ دھوکہ دہی، فراڈ پر مقدمہ ہے۔ حق اور خیر کی بات کرنا باطل اور شر میں تمیز کرنا اس کو لکھنا اور بیان کرنا انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی واجب اور جائز ہے مگر یہ ذمہ داری حکمران طبقوں اور رہبروں پر عام آدمی کی نسبت علما، فقہا پر بہت زیادہ ہے۔ اللہ کریم خیر کرے۔ ہمارے وطن کے جو حالات ہیں اس وقت کرہ ارض پر کوئی دوسرا ملک نہیں جو اس اذیت میں مبتلا ہو۔ جس کے دانشور صحافی سب جانبدار ہو جائیں۔ اگر عدلیہ کے فیصلے خاص طور پر سیاسی فیصلے قلم کے بجائے کرپان سے نہ لکھے گئے ہوتے تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی کہ بنچ اور جج کا نام سن کر عام آدمی فیصلہ آنے سے پہلے فیصلہ سنا دیتا۔ اللہ کریم حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ دیکھا گیا ہے کہ مولوی تمیزالدین، جناب بھٹو صاحب، محترمہ نصرت بھٹو، نوازشریف کی مخالفت، عمرانداری میں عدلیہ حد سے گزر گئی اور میں اللہ کے حکم کے تابع قلم اور بیان کا فرض پورا کرتے ہوئے اپنے حقیقی لارڈ کی اجازت سے یہ ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ جانبداری کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ میں وکیل ہوں ہائی کورٹ ہو یا کوئی کورٹ جج صاحبان کے آنے سے پہلے پہنچتا ہوں۔ بعض جج صاحبان ایسے کرسی سے اُٹھ اُٹھ کر بات کرتے ہیں جن کو بتانا پڑتا ہے کہ جناب کونسل ہیں کریمنل نہیں، وکیل ہیں ملزم نہیں مگر اب کی بار ایک انصاف کی گنگا دیکھنے میں آئی کہ جج صاحب انتظار فرمایئے کا کلپ دیکھ رہے ہیں۔ نیازی صاحب کی عدالتوں میں پیشیوں اور مقدمات کے حوالے سے ایک اینکر نے کہا کہ یہ کوئی کالو شاہ پوریا یا اچھو بارلا ہے اس سے پہلے میں ماجھو پہلوان اور بلو گھنٹہ گھریا گوجرانوالہ، اصغر بٹ فاروق گنج لاہور اور ججی شاہیے دا کی مثالیں دے چکا مگر یہ میری اس وقت کی بات ہے جب ابھی عدالت پیشی تھی مگر وارنٹ کے حوالے سے گرفتاری کے لیے پولیس کی کوشش اور سامنے سے جو بلوائیوں نے کیا اس سے تو بیت اللہ محسود، صوفی محمد، افغان وار کے کردار، سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کی یاد تازہ ہو گئی۔ ایم کیو ایم، نائن زیرو اور کچے کے علاقے  کے نوگو ایریا یاد آ گئے۔ مقبولیت کی بات کرنے والے خاطر جمع رکھیں یہ مقبولیت نہیں دہشت ہے جو کسی بھی مطلوب شخص کی ہوا کرتی ہے۔ پٹرول بم، لوہے کی گولیاں، غلیلیں، شیشے کے کنچے، اور نا معلوم چہرے، ان کو عمران نیازی کی شاباش یہ سب کیا تھا۔ عدالت کی اجازت سے سرچ کرنے والی پولیس کے ساتھ کیا ہوا۔ رکاوٹیں دور کرنے پر شریف عورتوں کی شکر گزاری کے کلپ بھی دیکھے۔ ایک نہیں کئی لوگوں نے، تجزیہ کاروں نے کہا کہ 70/80 ایف آئی آرز کٹ گئیں حالانکہ غور کریں تو نیازی صاحب کا انداز بیان، دشنام طرازی، زبان درازی اور قانون و آئین کے ساتھ کھلواڑ پر تو 2011 کے بعد 2014 کے دھرنے سے آج تک ہر روز ان کے زبان بیان پر ہی ہزاروں ایف آئی آرز کٹ سکتی ہیں۔ تہمت پر لوگ قتل کر دیتے ہیں۔ موصوف کا تکیہ کلام ہے۔ بہرحال زبان درازی، عمران درازی اور اظہار بیان میں فرق ہونا چاہئے۔ قلم اور کرپان میں فرق ہونا چاہئے مگر افسوس کرپان قلم کی جگہ آ گئے۔