کیا یہ ملک کبھی ترقی کر سکتا ہے؟

کیا یہ ملک کبھی ترقی کر سکتا ہے؟

سنا تھا 2023ء الیکشن کا سال ہوگا، سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہوں گی، اس ملک کے لوگ اگلے پانچ سال کے لیے اپنا رہنماتلاش کریں گے اور پھر اقتدار باعزت طریقے سے اگلی حکومت کو سونپ دیا جائے گا۔ مگر یہاں تو ہر گزرتے دن سیاسی حالات کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تازہ صورتحال کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان اور حکومتی اداروں کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے۔انہیں کسی نہ کسی طور پرگرفتار کرنے کی کوشش ہنوز کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسلام آباد کی ایک عدالت نے ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے‘ ان کا”پلے کارڈ“ بنا کر یعنی بڑے تختے پر چسپاں کر کے اسلام آباد پولیس کے سپاہی لاہور زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ کے باہر پہنچے تھے۔ پنجاب پولیس کی تائید وحمایت بھی انہیں حاصل تھی لیکن خان صاحب تک رسائی نہیں ملی۔ان کے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں پرستاروں نے راستہ روک لیا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے خطرے کی گھنٹی بجائی گئی اور دیوانے دوڑے چلے آئے‘ انہوں نے اپنے کپتان اور پولیس کے درمیان دیوار کھڑی کر دی۔ پولیس کی بے چارگی قابل ِ دید تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد اْسے بھری بندوقوں کے ساتھ اجتماعات میں نہیں بھجوایا جاتا۔ یعنی اب پولیس پانی پھینک سکتی‘آنسو گیس سے لوگوں کو رُلا سکتی اور ڈنڈے برسا کر انہیں منتشر ہونے پر مجبور تو کر سکتی ہے‘ جانوں سے کھیلا نہیں جا سکتا۔ اس طرح لوگ تو محفوظ ہو گئے ہیں‘ لیکن پولیس غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ پولیس کے دستے جب خان صاحب کی خدمت میں ہتھکڑی پیش کرنے کے لیے راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تو پٹرول بم اڑتے ہوئے آئے‘ اور آگ لگاتے چلے گئے۔ اس بلا سے پالا پڑا تو بڑھتے ہوئے قدم پیچھے ہٹ گئے۔ 
الغرض ایک عام پاکستانی یہ تمام حالات دیکھ کر نم آنکھیں لیے اس ملک سے رخصت ہونے کے بارے میں یا تو سوچ رہا ہے یا جا چکا ہے۔ یعنی ایک اندازے کے مطابق 30لاکھ پاکستانی ہر سال اس ملک کو چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کسی کو اس چیز کی پروا ہو۔ بس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ہر کوئی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں تو میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی آئے اور ڈنڈا پکڑ کر سب کو سیدھا کر دے۔ بلکہ مجھے اسی اثنا میں ایک قصہ یاد آیا کہ ایک گاؤں میں مولوی 
صاحب رہتے تھے،ان کا کوئی دوسرا ذریعہ آمدن نہ تھا،گزارہ بہت مشکل تھا۔ اسی گاؤں میں ایک نیک دل جاگیردار رہتا تھااس نے زمین کا ایک ٹکڑا مولوی صاحب کو ہدیہ کیا کہ ویسے بھی سارا دن آپ فارغ ہو تے ہیں تو کھیتی باڑی کریں تاکہ آپ کا گزارا اچھا ہو جائے۔مولوی صاحب نے گندم کاشت کر لی، اور جب فصل ہری بھری ہو گئی تو انہیں بڑی خوشی ہو ئی وہ اکثر کھیت میں ہی بیٹھے رہتے اور فصل دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے لیکن اچانک ایک ناگہانی مصیبت نے ان کو گھیر لیا، گاؤں کا گدھا روزانہ کھیت میں چرنے لگا، مولوی صاحب نے پہلے چھوٹے موٹے صدقے دیے لیکن گدھا نہ مانا اور فصل کی تباہی جاری رکھی۔ پھر مولوی صاحب نے مختلف سورتیں پڑھ پڑھ کر پھونکنا شروع کر دیں لیکن گدھا پھر بھی ٹس سے مس نہ ہو ا، ایک دن پریشان حال بیٹھے گدھے کو فصل اجاڑتے دیکھ رہے تھے تو ادھر سے ایک کسان کا گزر ہو ا، گدھے کو فصل میں چرتا دیکھ کر کسان نے پوچھا مولوی صاحب آپ عجیب آدمی ہیں گدھا فصل تباہ کر رہا ہے اور آپ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
 مولوی صاحب نے عرض کیا کہ جناب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کہاں بیٹھا ہوں؟ ابھی تک ایک مرغی اور بکری کے بچے کا صدقہ دے چکا ہوں اور کل سے آدھا قرآن شریف بھی پڑھ کر پھونک چکا ہوں لیکن گدھا ہٹتا ہی نہیں ہے مجھے تو یہ گدھا کافر لگتا ہے، جس پر کوئی شے اثر نہیں کرتی، کسان کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا وہ سیدھا گدھے کے پاس گیا او ر گدھے کو دو چار ڈنڈے کس کر مارے، گدھا کسی ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا ہو ا بھاگ کھڑا ہوا۔ کسان نے کھیت سے باہر آ کر ڈنڈا مولوی صاحب کے حوالے کرتے ہوئے کہا، قبلہ مولوی صاحب گدھوں کو بھگانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ ڈنڈا بھیجا ہے۔ لہٰذااس وقت ڈنڈے کی اشد ضرورت ہے، تبھی یہ ملک ترقی کر سکتا ہے ورنہ نہیں! اس حوالے سے آپ چین کی مثال لے لیں، چین میں آج بھی کئی چوراہوں پر پھانسی گھاٹ بنائے گئے ہیں، جو اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ کس طرح اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا گیا۔ پھر ملائیشیا کی تاریخ پڑھ لیں، مہاتیر محمد نے کرپشن اور بدامنی پھیلانے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں رکھیں تبھی اْن کا ملک ترقی کر گیا۔ آپ دبئی، امریکا، یورپ چلے جائیں وہاں قانون توڑنا اس قدر آپ کو مصیبت میں ڈال دیتا ہے کہ آپ دوبارہ کبھی کوئی غلطی نہیں کرتے۔ 
اور رہی بات خان صاحب کی گرفتاری کی تو خدارا گرفتاری دے دیں، کیونکہ ہم نے تو سنا تھا کہ ہتھکڑی سیاستدان کا زیور اور جیل دوسرا گھر ہوتی ہے۔برطانوی استعمار کا زمانہ ہو یا پھر قیام پاکستان کے بعد کا دور،سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والے بیشمار رہنماؤں نے قید وبندکی صعوبتیں برداشت کیں۔مولانافضل حق خیرآبادی انگریزوں کے دورِ حکومت میں کالے پانی کی سزا کاٹتے چل بسے۔اگر قیام پاکستان کے بعد ابتلا و آزمائش کا ڈٹ کر سامنا کرنے والے رہنماؤں کی فہرست مرتب کرنے لگیں تو اخبار کے صفحات کم پڑ جائیں۔ایوب خان کے مارشل لاء دور میں سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو نہ صرف ایبڈو کے تحت نااہل قرار دیا گیا بلکہ 31جنوری1961ء کوغداری کے الزام میں گرفتار کرکے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔سات ماہ بعد عوامی دباؤ پر سہروردی کو رہا کیا گیا تو دل کا دورہ پڑنے کے بعد علاج کیلئے بیرون ملک چلے گئے۔ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے سایہ عاطفت سے نکلے تو عوام کی امیدوں کا مرکز بن گئے۔ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تو سابق وزیراعظم کوگرفتار کرکے طویل عرصہ جیل میں رکھا گیا۔
بھٹو کی موت کے بعد ان کی بیٹی بینظیر اور اہلیہ نصرت بھٹو نے استقامت کا بے مثال مظاہرہ کیا۔آصف زرداری نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کا داماد ہونے کا حق ادا کیا اور 11سال تک کوئی گلہ شکوہ کئے بغیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈٹ کر کھڑے رہے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں مجید نظامی نے ”مرد حُر“ کا خطاب دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں نواز شریف اٹک قلعہ میں قید رہے۔جاوید ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی طویل عرصہ پابند سلاسل رہے۔ جب پروجیکٹ عمران کا آغاز ہوا تو کئی سیاستدانوں کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔میاں نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ اڈیالہ جیل میں قید تھے تو ان کی اہلیہ کلثوم نواز کا انتقال ہوگیا۔چوہدری نثار علی خان کے خلاف الیکشن لڑنے والے انجینئر راجہ قمر الاسلام کو نیب نے گرفتار کرلیا تو ان کے کم سن بیٹے نے انتخابی مہم چلائی۔شہباز شریف،آصف زرداری، رانا ثنا اللہ، فریال تالپور،احسن اقبال،خورشید شاہ، شاہد خاقان عباسی،خواجہ آصف،جاوید لطیف،خواجہ سعد رفیق سمیت کتنے ہی سیاسی رہنما بے بنیاد مقدمات میں گرفتار رہے۔
الغرض اگر اس بحرانی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے عمران خان عدالتوں میں پیش ہونا شروع کر دیں تو یقینا یہ اس ملک کے لیے سیاستدانوں کے لیے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے بھی اچھا ہو گا ورنہ یہ لوگ اگلے انتخابات کی صحیح طرح تیاری بھی نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی پوری توجہ کے ساتھ الیکشن لڑ سکیں گے۔ نتیجہ شکست کی صورت میں نکلے گا۔