ہم کِس گلی جارہے ہیں؟

 ہم کِس گلی جارہے ہیں؟

ملک تباہی کے جِس مقام پر آکے کھڑے ہوگیاہے یہ سلسلہ گزشتہ چار برسوں سے یا چار ماہ سے شروع نہیں ہوا، چوہتر برسوں سے اس ملک کا ہر اقتدار اور عوام اپنی اپنی بساط کے مطابق اِسے نوچتے جارہے ہیں، اب اِس کا صرف ڈھانچہ ہی باقی رہ گیا ہے، اب اِس کی ہڈیاں چوسنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، میرے محترم بھائی جان پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز بڑے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، پاکستان کی موجودہ حالت پر اکثر اُن کی آنکھیں بھرآتی ہیں، وہ اکثر یہ دعا فرماتے ہیں، جِس جِس نے اِس ملک کو تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اللہ اُن سب کو غارت کردے۔ یہ کِسی کے لیے ’’بددعا‘‘ نہیں اُس ملک کے لیے ’’دعا‘‘ ہے جِسے قائداعظم ؒ اورہمارے بزرگوں نے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ بدقسمتی سے اِس ملک کے لیے قربانیاں دینے والے عظیم لوگ کوئی اور تھے اور اِن ’’قربانیوں کا گوشت‘‘ کھانے والے اب بھی اقتدار میں بیٹھے ہیں، آج پاکستان کی حالت بے یارومددگار ، ایک مسافر جیسی ہے جِسے کوئی سایہ کوئی آرام گاہ میسر نہیں، یہ مسافر ٹوٹ چکا ہے، تھک چکا ہے، …یہ شاید فیض احمد فیض اور قدرت اللہ شہاب کے درمیان ایک مکالمہ ہے ، ایک بار قدرت اللہ شہاب نے فیض احمد فیض سے کہا ’’ یار فیض جو حالات بنتے جارہے ہیں، مجھے خدشہ ہے یہ ملک کہیں ختم ہی نہ ہوجائے ‘‘…فیض بولے ’’ شہاب جی میرا خطرہ آپ کے خطرے سے زیادہ بڑا ہے، اور وہ یہ ہے یہ ملک کہیں ایسے ہی نہ چلتا رہے‘‘… گزشتہ چوہتر برسوں سے جِس انداز میں اِس ملک کو چلایا بلکہ نوچا جارہا ہے اللہ کا خاص کرم اِس ملک پر نہ ہوتا یہ ملک آدھا نہیں پورا چلے گیا ہوتا۔ میں نے کبھی خود کو ایک ’’قوم‘‘ کا فرد نہیں سمجھا، میں نے خود کوہمیشہ ایک ’’ہجوم‘‘ کا حصہ سمجھا ہے، ہم ’’قوم ‘‘نہیں ہیں ہم ایک ہجوم ہیں، ایک بار میں ایک بھارتی رسالے ہند سماچار میں بھارتی دانشور خشونت سنگھ کا ایک انٹرویو پڑھ رہا تھا، کِسی سوال کے جواب میں اُنہوں نے فرمایا ’’ 1947ء سے پہلے برصغیر کے مسلمان ایک قوم کی طرح تھے جنہیں ایک ملک کی ضرورت تھی۔ آج پاکستان ایک ملک ہے جِسے ایک قوم کی ضرورت ہے‘‘۔…قومیں کبھی کِسی ایک شخص کے لیے اتنی تقسیم نہیں ہوتیں جتنی ہماری ’’قوم ‘‘(ہجوم) اب تک ہوچکی ہے، گھر گھر میں فساد برپا ہے، مذہبی فرقوں کی تقسیم نے ہمارا خانہ خراب کردیا، رہی سہی کسر ’’سیاسی قوتوں‘‘ کی تقسیم نے نکال دی ۔ نقصان کِس کا ہورہا ہے؟ نقصان صرف اِس ملک کا ہورہا ہے جِسے اب ہرکوئی کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ یہ اب بچا ہی کتنا ہے؟ جِسے مزید اب ہڑپ کیا جاسکے؟۔ اِس کے اندر طاقت ہی اب کتنی رہ گئی ہے کہ اِسے مزید کمزور اب کیا جاسکے؟، سیاسی تقسیم نے گھر گھر لڑائیاں ڈال دیں۔ بھائی بھائی کو  قتل کررہا ہے، دوست دوست کے گلے پڑرہا ہے۔ ایک دوسرے کو گالیاں دی جارہی ہیں، ماں بہن کی اُس عزت کا اب کوئی تصور تک نہیں رہ گیا جو ’’پرانے پاکستان‘‘ میں سانجھی ہوتی تھیں، ’’نئے پاکستان‘‘ نے سب کی عزتیں خاک میں ملاکر رکھ دیں، ہم سارے ہی بُری طرح ’’ایکسپوز‘‘ ہوگئے … اگلے روز دِل دہلا دینے والا ایک واقعہ میں نے سنا، ایک دوست نے بتایا اُن کے کسِی قریبی عزیز کے گھر عشائیہ تھا۔ کچھ مہمانوں کی موجودگی میں وہاں موجودہ سیاسی صورت حال پر بحث چھڑگئی۔ ایک نوجوان سابق وزیراعظم عمران خان کا حمایتی تھا۔ وہ وہاں موجود اُن مہمانوں سے مسلسل بدتمیزی کررہا تھا جو عمران خان کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ اُس نوجوان کے سترسالہ باریش والدِ محترم نے اُسے سمجھایا کہ گھرآئے مہمانوں کے ساتھ ایسی بدسلوکی نہیں کرتے، والد کے سمجھانے کا ظاہر ہے بعض اوقات اپنا انداز ہوتا ہے جو والد کا حق ہوتا ہے، نوجوان نے اُس انداز کا اِس قدربُرا منایا وہ اپنی کُرسی سے اُٹھا اور دوتھپڑاپنے والد کو مار دیئے۔ باپ بولا ’’بیٹا میں تو تمہیں بددعا بھی نہیں دے سکتا‘‘ …یہ کیا ہورہا ہے؟یہ ہم کِس تباہی کی طرف نکل پڑے ہیں؟۔ہماری اخلاقی روایات کو کون نِگل گیاہے ؟۔ اِس ملک میں گالی گلوچ کا کلچر چلیں جن بدبخت حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں نے بھی متعارف کروایا ، مگر ’’تبدیلی‘‘ کے دعوے داروں نے جس طرح اِسے فروغ دیا اُسے تاریخ ہمیشہ یادرکھے گی ۔ یوں محسوس ہوتا ہے اِس ملک پر اب صرف بدمعاشوں کا قبضہ ہے، کوئی شریف آدمی کِسی شعبے یا کِسی مقام پر دکھائی نہیں دیتا، آسمان کی طرف بھی اب ہم دیکھیں سوائے کوئوں، چیلوں، گدھوں اور اُلوئوں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ مدت ہوئی میں نے کوئی تتلی کوئی کوئل، کوئی فاختہ کوئی جگنو نہیں دیکھا ۔ کیسے کیسے خوبصورت پرندے، رنگ برنگی چڑیاں درختوں پر چہچہاتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ سڑکوں پر بھی اب گدھوں اور کتوں کا راج ہے، جیسے اپنی طرف سے وہ بھی اقتدار میں آئے ہوں۔ آسمان بھی اب پہلے جیسا صاف شفاف دکھائی نہیں دیتا، یوں محسوس ہوتا ہے ہماری گندگیاں آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں، … میرے محترم بھائی رئوف کلاسرا کتاب کی بات کرتے ہیں تو میں حساب کی دنیا سے نکل آتا ہوں، جیسے سُکھ کا کوئی ساہ آگیا ہو، وہ دنیابھر کے عظیم مصوروں کی خوبصورت پینٹنگز اپنی فیس بک وال پر لگاتے ہیں میں کِسی اور ہی دنیا میں کھوجاتا ہوں، مصوری، موسیقی اور شاعری کا کیا خوبصورت زمانہ تھا ،’’مِلو نہ تم تو ہم گھبرائیں، مِلو توآنکھ بچائیں، ہمیں کیا ہوگیا ہے‘‘ …موسیقی ، مصوری اور شعروشاعری کا وہ زمانہ واپس آنہیں سکتا ؟۔ ہمارے اینکرز ، ہمارے لکھاری، ہمارے دانشور، ہمارے میڈیا چینلز، ہمارا سوشل میڈیا رشتوں کی قدر کا وہ زمانہ ہمیں واپس دلانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا؟ کیا یہ سب سیاست کی گندگیوں سے تھوڑی دیر کے لیے الگ نہیں ہوسکتے ؟۔ہمارے گھروں اور دِلوں میں دوبارہ سکون نہیں ہوسکتا ؟ ہماری کتابیں فٹ پاتھوں سے دوبارہ دکانوںپر نہیں سج سکتیں؟۔ہمارے خوبصورت کھیل اور گرائونڈیں پھرسے آباد نہیں ہوسکتے؟… مامے دی دھی بہن، چاچے داپُتر والا دور واپس نہیں آسکتا؟ہمارے پھلوں اورہماری سبزیوں کے ’’رنگ روپ ‘‘ واپس نہیں آسکتے؟…ہم اُس دور میں لوٹ نہیں سکتے جب سب سے بڑا ہتھیار ’’ گراری والا چاقو‘‘ ہوتا تھا؟ وہ بھی صرف دکھایا جاتا تھا چلایا نہیں جاتا تھا … ’’ چھری ‘‘ اُس دور کی ’’کلاشنکوف ‘‘ ہوتی تھی۔ جب شدید لڑائی میں لوگ ایک دوسرے پر شیشے کی بوتلیں پھینکتے تھے جس سے معمول زخم و خراشیں آجاتیں۔جب میلے ہوتے تھے مشاعرے ہوتے تھے۔ کتابوں کی تقریب رونمائی ہوتی تھی …رؤف کلاسرا صاحب کچھ تو بتائیں ہم کِس گلی جارہے ہیں ؟ہماری منزل کیا ہے؟ ہمارے مقدر میں اب صرف گِرنااور بھٹکنا ہی رہ گیا ہے؟؟؟ 

مصنف کے بارے میں