یورپی یونین سے بیزاری، ترکی چین اور روس کے قریب ہوتا ہوا‎

یورپی یونین سے بیزاری، ترکی چین اور روس کے قریب ہوتا ہوا‎

انقرہ: ترکی کے صدر نے کہا ہے کہ اب اُن کا ملک یورپی یونین میں شمولیت کا زیادہ خواہشمند نہیں رہا۔ انہوں نے چین اور روس کی قیادت میں قائم وسطی ایشیائی ریاستوں کے بلاک میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ملک ترکی گزشتہ گیارہ برسوں سے یورپی یونین میں شمولیت کا مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت ترکی کا یونین میں شمولیت کا امکان اس لیے انتہائی کم ہو گیا ہے اور اُس کی وجہ رواں برس جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد کیے گئے اقدامات ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ دو تین ماہ کے دوران انقرہ حکومت نے جمہوری اقدار کے منافی جو انتظامی فیصلے کیے ہیں، اُن پر یورپ سمیت عالمی سطح پر تنقید سامنے آ چکی ہے۔

ترک اخبار حریت کے مطابق صدر رجب طیب اردگان نے پاکستان اور ازبکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد اپنے صدارتی ہوائی جہاز میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے یورپی یونین میں شمولیت پر بیزاری کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس کا بھی عندیہ دیا کہ یورپی یونین کی جگہ شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بنا جا سکتا ہے۔ اردگان کے مطابق انہوں نے قزاقستان اور روس کے صدور نور سلطان نذربائیف اور ولادیمیر پوٹن کو شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) میں شامل ہنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

ترک صدر کے مطابق اگلے مہینوں میں مثبت پیش رفت کے اشارے آئے تو اُن کا ملک شنگھائی گروپ کا حصہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا ہونے کی صورت میں ترکی کا سماجی و اقتصادی معاملات میں عمل کرنے کا دائرہ بہت وسیع ہو جائے گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام سن 2001 میں کیا گیا تھا۔ اس میں چین اور روس سمیت چار وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔

ازبکستان سے ترکی واپس جاتے ہوئے صدر رجب طیب اردگان نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے کہا ہے کہ وہ دہشت گرد فوجیوں کو پناہ دینے کوئی کوشش نہ کرے۔ ان کا یہ بیان جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد نیٹو کے دستوں میں شامل کئی فوجی افسران کی جانب سے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواستیں جمع کرانے کے تناظر میں ہے۔

ایردوآن کے بقول ایک دہشت گرد فوجی کوکسی طرح بھی دفاعی اتحاد نیٹو کی ملازمت اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ دو روز قبل نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن بگ نے بتایا تھا کہ نیٹو کی کمانڈ دستوں میں شامل کئی ترک فوجیوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔

مصنف کے بارے میں