کورونا پاکستان میں دوبارہ پنجے گاڑنا شروع، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 19 مریض ہلاک

کورونا پاکستان میں دوبارہ پنجے گاڑنا شروع، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 19 مریض ہلاک

اسلام آباد: عالمی وبا کورونا وائرس نے پاکستان میں دوبارہ پنجے گاڑنا شروع کر دیئے ہیں۔ سرکاری اعددوشمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں اس موذی مرض کے ہاتھوں 19 افراد اپنی جانوں کی بازی ہار چکے ہیں۔ حالیہ اموات کے بعد مرنے والوں کی مجموعی تعداد 6 ہزار 692 ہو گئی ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پاکستان میں کورونا وائرس کے 660 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد مجموعی تعداد 3 لاکھ 24 ہزار 744 تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان میں کورونا کے 9 ہزار 378 مریض زیرعلاج ہیں اور 3 لاکھ 8 ہزار 674 صحتیاب ہو گئے ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث پنجاب میں 2 ہزار 319 اور سندھ میں 2 ہزار 2587 اموات ہو چکی ہیں۔

خیبرپختونخوا میں اموات کی تعداد ایک ہزار 265، اسلام آباد میں 199، بلوچستان میں 148، گلگت بلتستان میں 90 اور آزاد کشمیر میں 84 ہو گئی ہے۔

اسلام آباد میں کورونا کیسزکی تعداد 18 ہزار 309 ہوگئی ہے۔ پنجاب ایک لاکھ ایک ہزار 936، سندھ میں ایک لاکھ 42 ہزار 348، خیبر پختونخوا میں 38 ہزار 779، بلوچستان میں 15 ہزار 717، گلگت بلتستان میں 4 ہزار 91 اور آزاد کشمیر میں 3 ہزار 564 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

دنیا کے کئی علاقوں میں کورونا وائرس کے نئے متاثرین گذشتہ کچھ مہینوں میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جیسے ایشیا میں انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق متاثرین اور اموات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے متنبہ کیا ہے کہ کارآمد ویکسین کے وسیع استعمال سے قبل اموات کی مجموعی تعداد 20 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ انڈیا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق متاثرین کی تعداد 60 لاکھ ہو گئی ہے۔ یہ امریکہ کے بعد دنیا میں کورونا متاثرین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

عالمی وبا انڈیا میں دنیا کے کسی بھی حصے کے مقابلے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ستمبر کے دوران ملک میں اوسطاً روزانہ تقریباً 90 ہزار نئے متاثرین کی تصدیق کی گئی۔ انڈیا میں نئے متاثرین میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب حکومت نے وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عائد پابندیوں کو معیشت کی بحالی کے لیے ختم کر دیا۔ لیکن نئے متاثرین کی تصدیق میں اضافہ بڑھتی ہوئی ٹیسٹنگ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ تاہم انڈیا میں اس کی آبادی کے اعتبار سے اموات کی شرح نسبتاً کم ہے۔

برازیل میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ متاثرین والے ممالک کی فہرست میں 47 لاکھ متاثرین کے ساتھ برازیل کا تیسرا نمبر ہے۔ ارجنٹینا میں بھی نئے مصدقہ متاثرین میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہاں اب کل تعداد سات لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران اس وائرس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ گذشتہ ہفتے یہاں جون کے اوائل کے بعد سے سب سے زیادہ نئے متاثرین کی تشخیص ہوئی ہے۔ اس کے ہمسایہ ملک عراق میں متاثرین میں بھی متاثرین میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انڈونیشیا میں بھی نئے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ یہاں اب تک کل 10 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں جو جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ افریقہ میں اب تک 14 لاکھ متاثرین کی تصدیق ہوئی ہے لیکن اب تک اس براعظم میں عالمی وبا کی شدت غیر واضح ہے۔ یہاں ٹیسٹنگ کی شرح کم ہے جس سے سرکاری اندازے بگڑ سکتے ہیں۔

کئی یورپی ممالک میں کورونا کے یومیہ متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وائرس کی دوسری لہر کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کئی یورپی ممالک نے متاثرہ علاقوں میں دوبارہ لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اور لوگوں سے دوبارہ چہرے پر ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد متاثرین میں اضافے کا رجحان محض یورپ تک محدود نہیں۔ اسرائیل نے گذشتہ دنوں نئے متاثرین کی تصدیق کے بعد ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ روس، پیرو، جنوبی کوریا، کینیڈا اور آسٹریلیا ان ممالک میں شامل ہیں جو دوبارہ وائرس کی لہر سے متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن اب سخت اقدامات کے بعد یہاں کورونا متاثرین میں کمی واقع ہوئی ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن کی ایک تحقیق کے مطابق رواں سال کے اختتام تک ملک میں تین لاکھ 70 ہزار اموات ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ اگر 95 فیصد امریکی شہری عوامی مقامات پر ماسک پہن لیں تو یہ تعداد دو لاکھ 73 ہزار تک محدود ہو سکتی ہے۔ عالمی وبا سے امریکی معیشت کو کافی نقصان پہنچا ہے اور قومی پیداوار اپریل سے جون کے دوران 33 فیصد گِری ہے۔

اس بیماری کی تشخیص پہلی بار چین کے شہر ووہان میں 2019 کے اواخر میں ہوئی تھی۔ 2020 کے ابتدائی مہینوں میں یہ وبا پوری دنیا تک پھیل گئی اور 11 مارچ کو عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی وبا قرار دیا تھا۔ جب کوئی وبائی مرض ایک سے دوسرے شخص میں دنیا کے کئی حصوں میں ایک ساتھ پھیل رہا ہو تو اسے عالمی وبا کا نام دیا جاتا ہے۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں اپریل کے دوران وبا تیزی سے پھیلی اور پھر نئے متاثرین میں کمی واقع ہوئی۔ اس کے ساتھ لاطینی امریکہ اور ایشیا میں وائرس کے متاثرین بڑھنے لگے۔ پوری دنیا میں کئی حکومتوں نے وائرس سے بچاؤ کے لیے عوامی نقل و حرکت کو محدود کیا اور کاروباری مراکز بند کر دیے جس سے عالمی معیشت کو کافی نقصان پہنچا۔ معاشی تعاون اور ترقی کے ادارے او ای سی ڈی کے مطابق سنہ 2009 کے عالمی مالی بحران کی نسبت اس بار بڑی معیشتوں کو چار گنا زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ دریں اثنا اقوام متحدہ نے بتایا کہ کووڈ 19 کے اثرات کی وجہ سے رواں سال کے آخر تک 26 کروڑ پانچ لاکھ افراد غربت کے باعث فاقہ کشی پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگین نتائج سے خبردار کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ گزشتہ ہفتے کورونا سے یومیہ جاں بحق افراد کی تعداد بارہ تھی جو پچھلے کئی ہفتوں کے مقابلے میں ایک سو چالیس فیصد زائد ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ ہم تمام احتیاطی تدابیر کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اجتماعی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اس کے نتائج نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ روش نہ بدلی گئی تو ہم زندگیاں اور روزگار کے ذرائع سے محروم ہو جائیں گے۔