ذکر ایک روحانی ملاقات کا

ذکر ایک روحانی ملاقات کا

گذشتہ کئی روز سے ذہنی وجسمانی طور پر شدید تھکاوٹ کا شکار تھا جس کی وجہ سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف ورک اور پھر بڑی بیٹی کا ڈینگی وائرس میں مبتلا ہو نا اور اس کے ساتھ ہی چھوٹی بیٹی کوہیپا ٹائٹس ۔اے ہوجانا،جس کی وجہ سے کرب تھا جو بڑھتا چلا جا رہا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے زندگی تھم سی گئی ہے ۔ پریشانیوں کا ریلہ ہے جو جوق در جوق اپنی گرفت میں لئے جا رہا ہے اور بچوں کی تکلیف دیکھ کر اذیت و روح کو زخمی کر دینے والی فکر تشویشناک حد تک روح میں زہر گھول رہی تھی۔ کچھ بھی کر نے کو جی نہیں چاہتا تھا اورڈینگی کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر ایک عجیب سا خوف تھا جو دامن گیر رہتا۔ 
کریم رب کی مہربانی کہ جو اپنے بندے سے ستر مائوں سے زیادہ محبت رکھتا ہے ۔ وہی ہے جو مضطرب دل کی فریاد کو سنتا ہے ۔اپنے بندے پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور کرب و تکلیف سے نکلنے کا رستہ بھی خود فراہم کرتا ہے ۔مجھے زندگی میں جب بھی ان حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کریم اللہ بہت جل اس سے نکالنے کا رستہ بھی بنا دیتا ہے ۔ اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ بھلا ہو جناب وسیم بھائی کا جنہوں نے اس روحانی ملاقات کا بندو بست کیا۔امیر تنظیم اسلامی جناب شجاع الدین شیخ جن کا اصل تعارف قرآن کے داعی کی حیثیت سے ہے ۔ ڈاکٹر اسرار ؒ کی وفات کے بعد جس طرح قرآنی تعلیمات کو عام کر نے کے لئے یہ کاوشیں کر رہے ہیں بلاشبہ وہ قابل تحسین ہیں ۔ ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ بطور سر براہ علم فائونڈیشن ، انہوں نے تمام مکاتب فکر کا متفقہ ترجمہ قرآن مکمل کر لیا ہے اور جسے سب سے پہلے خیبر پختونخوا بورڈ اور اب 
پنجاب بورڈ کے نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ شعبہ تعلیم کے ذمہ داران کی سنجیدگی بھی قابل فخر ہے کہ  اس مضمون میں فیل ہونے والا باقی تمام مضامین میں بھی ناکام سمجھا جائے گا۔ 
قارئین کرام ! بلاشبہ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ گذشتہ کئی صدیوں میں اتنا بڑا کام نہ ہو سکا اور یہ کام اتحاد امت کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ ان شا ء اللہ اس کام سے امت میں خیر کا جو سر چشمہ پھوٹا ہے اس کے فیوض و برکات پھیلتے چلے جائیں گے۔ نورانی چہرے، محبت و اپنائیت سے بھر پور مزاج اور عاجزانہ لہجے سے لبریز شجاع الدین شیخ کی شخصیت کو دیکھ ہی روح میں سکون اتر جاتا ہے ۔ مزاج میں عاجزی اور لہجے میں نر می پیدا ہو جاتی ہے ۔ یہی وہ وجہ تھی کہ کچھ دیر کی ملاقات نے کئی ہفتوں سے جاری اضطراب کو جڑ سے اکھاڑ ڈالا۔ محبت خداوندی میں گوندھی ہوئی گفتگو دل پر اثر کر رہی تھی اور مجھ جیسا کمزور انسان بھی یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ اتنے کریم رب کی لاکھوں مہربانیوں کے باوجود بھی ہم اس سے لاپروائی برتتے ہیں۔ یہ صرف ان کی گفتگو کا نتیجہ تھا کہ کچھ ہی دیر میں دل کی دنیا ،جس پر، ویرانیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے،آباد ہونا شروع ہو گئی اور میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیوں نہیں ایسے خوبصورت لوگوں کو جو چند ہی لمحوں میں آیات خداوندی و احادیث نبویہ ﷺ کی بدولت لوگوں کے دلوں کو تبدیل کر کے رکھ دیتے ہیں ، پروموٹ کیا جاتا؟۔ کیوں ایسے لوگوں کے علم، تقویٰ اور پر ہیز گاری سے فائدہ اٹھایا جاتا اور کیوں نہیں حکمران ایسے لوگوں کو کسی ایسے پروجیکٹ کی ذمہ داری نہیں دیتے جوقال اللہ و قال الرسول ﷺ کی صدائیں  لگا کر لوگوں کے دلوں کو تبدیل کر سکیں ۔ معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت، نفرت اور روحانی بیماریوں سے لڑنے کی تربیت فراہم کر سکیں۔ بالخصوص ہمارا معاشرہ جس نہج پر پہنچا ہوا ہے ، اس وقت یہاں انسانوں کی جسمانی تربیت کے بجائے روحانی تربیت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے شجاع الدین شیخ جیسے لوگ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 
قارئین کرام ! مجھے یہ جان کر بھی از حد خوشی ہوئی کہ اتحاد امت کے لئے وہ ترجمہ قرآن سے نکل کر بھی کئی محاذوں پر کام کر رہے ہیں اور بطور امیر تنظیم اسلامی ، بجائے اختلاف برائے اختلاف کے جہاں سب لوگ مختلف نکتوں پرمتفق ہیں ، اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے امت کی اصلاح کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بہت ہو چکا۔ ماضی کی طرح مسائل کا ذکر کر کے ، اب ہمیں اس کے حل کی جانب جانا ہو گا۔ پاکستان کے مستقبل کو لے کر وہ انتہائی پر اعتماد تھے اورہمیں بھی اس بات کی تلقین کر رہے تھے کہ ابھی اس دھرتی سے بہت خیر برآمد ہونی ہے ۔ بلا شبہ کچھ منٹوں کی یہ ملاقات میرے ذہن پر انتہائی مثبت نقوش چھور کر گئی ہے اور روحانی طور پر جس قدر مزید تقویت حاصل ہوئی ہے ، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں تنظیم اسلامی کے ذمہ داران سے بھی گذارش کروں گا کہ شیخ صاحب کی ان نشستوں کو جاری رکھتے ہوئے اس میں اضافہ کیا جائے تاکہ مجھ جیسے مایوسی و نا امیدی میں ڈوبے ہوئے لوگ روحانی طور پر مضبوط ہو سکیں اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی روحانی بیماریوں پر قابو پایا جا سکے ۔ میرے نزدیک انسان کا اتنا نقصان جسمانی بیماری نہیں کرتی جتنی روحانی کرتی ہے اور اگر اس کا علاج نہ ہو تو پھر انسان کی نارمل زندگی کی جانب آنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔