نرم دم گفتگوگرم دم جستجو

 نرم دم گفتگوگرم دم جستجو

علامہ اقبال کو اپنے عہد کی شخصیات میں ایک آفاقی شاعر کا مقام حاصل ہے۔ ان کے تصور اخلاق کا مرکزی نکتہ تصورِ خودی ہے۔ جس میں انہوں نے چار بنیادی اخلاقی اقدار عشق، فقر، جرأت اور حریت کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے استحکام خودی، اثبات خودی اور خودی کی نفی کو قرآن کی ہدایت کی روشنی میں اسلامی اور مغربی اخلاقی روایات کے حوالے سے جدید انداز میں پیش کیا ہے۔ 
اقبال کے تصوراخلاق کی تمام تر اٹھان اور ماخذ دراصل انسان ،خدا اور کائنات کے وجود میں آنے سے لے کربقائے دوام اور فکری آزادی کے تناظرمیں ہے۔ اقبال کو انہی فکری، اخلاقی بنیادوں کی بنا پر ممدوح عالم بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید علامہ اقبال کے فلسفہ اخلاق کا بنیادی منبع ہے۔ جس میں ارشاد خداوندی ہے،ترجمہ: جسے حکمت عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی سے نوازا گیا۔  ابتدائے اسلام میں جہاں مجاہدینِ اسلام کی کوششوں سے اسلام کی ترویج و اشاعت ہوئی وہیں زمانہ خیرالقرون کے نیک سیرت داعیانِ اسلام کے اخلاقِ حسنہ سے بھی اسلام خوب خوب پھیلا۔
عالمی مجلس بیداری فکراقبال کی ادبی نشست منعقدہ19اکتوبر2022ء میں ’’نرم دم گفتگوگرم دم جستجو(نصف اول)‘‘کے عنوان پرمحترمہ شہنازظہیر صاحبہ نے اپنے مقالے میں اخلاق حسنہ کومومن کااوج کمال قراردیااور نرم گفتگو،نرم چال،خلق حسن،نرمی و ملائمت اوردرگزرکواسلام کااعلی ترین شعارکہا۔ قرآن مجیدکے مطابق انسان کوبہت ساری مخلوقات پرفضیلت دی ہے،تمام مخلوقات پرنہیں دی۔ دیگر شرکاء نے کہا کہ صرف گفتگونہیں بلکہ اقبال کے پیغام میں عمل کاتقاضابھی شامل ہے۔اقبال ایک انقلابی شاعر ہیں اورآج کاموضوع شکوہ و جواب شکوہ میں بھی مذکورہے۔ قرآنی تشریحات کے 
ساتھ اقبالیات کی وضاحت بہت عمدہ اسلوب ہے۔اقبال کے نزدیک مسجدقرطبہ اور مردمومن کے درمیان جمال و جلال دومشترکات ہیں۔
حضرت اقبال کا تصور علم، تصور اخلاق کے ساتھ مربوط ہے۔ وہ علم جو صرف شکم پری کے لئے ہو بلند معیار زندگی کے لئے نہ ہو یعنی علم برائے معاش ہو وہ زہر ہلاہل ہے، وہ سم قاتل ہے۔ آپ جس علم کے داعی ہیں وہ انسان ساز، اخلاق ساز، کردار ساز اور شخصیت ساز ہونا چاہئے۔ یہی سبق انہوں نے اپنے مرشد گرامی سے سیکھا۔
بچوں کے لیے لکھے گئے کلام میں آہنگ بھی ہے اور اس میں بنیادی اخلا قی تصورات کو بھی سادگی اور خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔علا مہ اقبال کی لکھی گئی بچوں کی نظموں میں احترام انسانیت ، خدمت خلق، بھلائی و خیر خواہی وقت کی قدر ، خوداری اور سیدھی راہ پر چلنے کا درس جا بجا ملتا ہے۔ ان نظموں میں سرفہرست ’’بچے کی دعا‘‘ہے۔ یہ بچوں میں بے حد مقبول نظم ہے اور ایک عرصے سے سکولوں میں صبح اسمبلی میںپڑھی جاتی ہے۔ اس میں علا مہ اقبال نے دعا کی شکل میں وہ تمام اخلا قی صفا ت طلب کی ہیں جن سے ہر بچے کو چھوٹی عمر سے متصف ہو نا چاہیے۔ علم سے محبت، وطن کی خد مت ،بڑوں کا احترام اور کمزوروں اور ناداروں کی مدد کرنا وہ اوصاف حمید ہ ہیں جن کو اگر طالب علمی کے زما نے ہی سے اپنا لیا جائے تو یہ تا حیا ت کام آتے ہیں۔ اس نظم کا آخری شعر ہے
میرے اللہ ! برائی سے بچا نا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلا نا مجھ کو
شخصیت کا استحکام اور ارتقا ایک اخلاقی ضابطے کا محتاج ہے۔ اس بنا پر اقبال نے آزادی افکار کو ابلیس کی ایجاد قرار دیا۔ انہوں نے مغربی تہذیب میں اخلاقی انحطاط و انتشار کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا:"بدقسمتی سے مسلمان اپنے سیاسی انحطاط، اقتصادی بحران اور فکری افلاس کی بنا پر مغربی تہذیب کے زیر اثر مغرب زدہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنی شکست خوردہ ذہنیت کے سبب اسلام کو بھی مسیحیت کے مترادف مذہب قرار دے لیا اور سیاسی ادارے سے اسے خارج یا معطل کردیا۔ چنانچہ مذہب کی جگہ قومیت کے وطنی تصور نے لے لی جس سے امت واحد کا شیرازہ بکھر گیا۔‘‘
علامہ اقبال نے زندگی بھر مسلمانوں کے دلوں سے مغربی تہذیب کے طلسماتی نقوش مٹانے کی کوشش کی تاکہ وہ اسلامی اخلاقیات سے بہرہ مند ہوں جس کی رو سے آدمیت کا مطلب احترام آدمی لیا جاتا ہے اور ساری مخلوق کا کنبہ قرار پاتی ہے۔اقبال کے نزدیک اسلام ہی انسان کو اعلیٰ اخلاقی شعور دے سکتا ہے اور منتشر افراد کو ایک نصب العین کی صورت عطا کرسکتا ہے۔ کیونکہ ملت نصب العین کی وحدت سے معرض وجود میں آتی ہے۔ انہوں نے فرمایا:’’اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمود ہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے اور جن سے متفرق و منتشر افراد بتدریج متحد ہو کر ایک متمیز اور معین قوم کی صورت اختار کرلیتے ہیں اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہوجاتا ہے۔ اسلامی تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کارفرما ہے۔ ‘‘
اسلام میں اخلاقیات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ایمان و عقائد کی درستی کے بعد نیک اعمال و افعال کرتے ہوئے جب تک ایک مسلمان حْسنِ اخلاق جیسی صفت سے متصف نہ ہوجائے اس کی زندگی دوسروں کے لیے نمونہ عمل نہیں بن سکتی۔ جب کہ ہر مسلمان دین کا داعی ہے۔ اس لحاظ سے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اخلاقِ حسنہ سے آراستہ و پیراستہ کرے۔