بلدیہ کراچی

بلدیہ کراچی

جس وقت تاج برطانیہ کا طوطی بولتا تھا، وائسراے کی وساطت سے امور مملکت برطانیہ سے چلائے جارہے تھے، اس دور میں بھی مونسپلیٹی کے اداروں کی ضرورت محسوس کی گئی، بمبئی، مدراس اور کراچی میں ان کا قیام عمل میں لایا گیا، ایکٹ کے نفاذ سے اصلاحات کا کام جاری رہا، بلدیہ کراچی ا رض وطن کا قدیم ترین ادارہ ہے۔176 سال قبل اس کا وجود تھا۔1843میں جب کراچی کو سندھ کا دارالحکومت بنایا گیا تو سر چارلس نیپئر نے یہاں پہلا بلدیاتی ایکٹ مجریہ 1850 نافذ کیا۔ قیام پاکستان کے وقت بھی یہاں بلدیاتی نظام موجود تھا۔
1933 میں جو میونسپل ایکٹ نافذ کیا گیا وہ1959 تک جاری رہا، اس شہر کا یہ بھی امتیاز ہے کہ1939 میں عالمی میئرز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں برما، انڈیا اور دوسرے ممالک کے مئیرز نے شرکت کی،کراچی کی ترقی کو سراہا اور شہریوں کے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا،اس شہر کو’’ ملکہ مشرق‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا۔قدرتی بندرگاہ،عمارتوں کی خوبصورتی،سڑکوں کی کشادگی،ساحل سمندر کی دل ربائی سیاحوں کی نگاہوں کا مرکز تھی، پچاس کی دہائی میں اسکی آبادی چند لاکھ تھی،بنیادی سہولیات میسر تھیں، ہر صبح سڑکوں کو دھویا جاتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ 25اگست1947کو اہل کراچی کی جانب سے بانی پاکستان کے اعزاز میں استقبالیہ کی تقریب منعقد کی گئی، جس میں مادر ملت، محترمہ فاطمہ جناح، پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے شرکت کی،اس وقت کے میئر حکیم محمد احسن نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے بلدیہ کو درپیش مسائل بحیثیت گورنر جنرل سامنے رکھے، بلدیہ کے اختیارات میں توسیع کا مطالبہ کیا، اس کے جواب میں قائد اعظم نے کہا کہ کراچی شہر معمولی نہیں ہے، میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب کراچی کا شمار دنیا کے بہترین عروس البلاد میں ہو گا، انھوں نے میئر کے مطالبات سے اتفاق کیا، 1947سے1958تک چھ مئیر منتخب ہوئے، اس کے بعد نیا بی ڈی سسٹم متعارف کرایا گیا، یوں مقامی حکومتوں میں مد اخلت کا باقاعدہ آغاز ہوا ، 1979میںکنٹونمنٹ کے علاقہ جات میں بورڈ قائم کر دیئے گئے، جو 5-25  ارکان پر مشتمل ہیں، انکی قیادت کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا ہے، مگر آدھے ممبرزسرکار کے نامزد کردہ ہوتے ہیں، اسٹیشن کمانڈر عہدہ کے لحاظ سے اس بورڈ کا سربراہ ہوتا ہے۔ 
مقامی حکومت کے قیام کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ دیہات ہو، شہر یا قصبہ مقامی لوگ اپنے مسائل از خود مقامی سطح پر حل کرتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں یہی ادارے سب سے زیادہ تختہ مشق بنے رہے ہیں، ہر حکومت میں ان پر زوال آیا ہے، یہ ادارے کسی سرکار کی ترجیح نہیں رہے، عدالتی حکم ناموں کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہی مقامی حکومتوں کے انتخاب کا رسک لیا جاتا رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک سامراجی حکومت جو سرے سے بنیادی حقوق دینے سے گریزاں تھی اس نے بھی ان اداروں کی اہمیت اور افادیت کو محسوس کیا اور انکے قیام میں دلچسپی لی، ماضی میںکر اچی شہر کی خوبصورتی،نفاست بلدیہ کے مرہون منت تھی، وسرے ممالک کے سفراء بھی  جب یہ خواہش کرتے تھے کہ کاش ! وہ اس کے باسی ہوتے۔
 شہر کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ جن کی حیاتی یہاںگذری، جنہوں نے اپنی جوانی اس کی نذر کی وہ راہ فرار اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں، جہاںزندگی اتنی ارزاں ہے کہ دن دیہاڑے، سر بازار شاہراہوں پر موت رقص کرتی نظر آتی ہے، مگر کسی منتظم کے کان پے جوں نہیں رینگتی  فرسودہ ٹرانسپورٹ،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، بدبودار ماحول اب اسکی پہچان ہے۔
بانی پاکستان کا یہ شہر انکے خوابوں کی تعبیر تو نہ پا سکا مگر جرائم کی دنیا میں بڑا نام کماچکا ہے، اس پر راج کرنے والوںنے شہرکے نوجوانوں کے ہاتھ کتاب، قلم پکڑانے کے بجائے کلاشنکوف تھما دی، خود کمائو ہمیں بھی کھلائو کا ایسا بھیانک درس دیا کہ روشنیوں سے اندھیروں تک سفرہی طے ہو ا۔
یہ تو ہمیں معلوم نہیں کہ جب انسانوں کے جسم مشینوں سے داغدار کئے جاتے ا ور، مزار قائد کے گردونواح میں انسانوں کے لاشے گرائے جاتے تھے تو آسودہ خاک شخصیات کے روح کو کس قدر تکلیف ہوتی ہوگی، جن کی شبانہ روز محنت سے لٹے پٹے مہاجرین کو نئی ریاست کی صورت میں پناہ ملی تھی، مگر جن لوگوں نے بھی اس شہر کے وسائل کو نوچ کھایا وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے، اسکی سزا اب وہاں کے عوام کو مل رہی ہے۔
اس وقت ایک توانا، نڈر، ایماندار،شخصیت سوشل میڈیا کی وساطت اہل کراچی کے دل کی آوازبنی ہوئی ہے، اس کے پیچھے انکی کارکردگی ہے،یہ فرد ہر طاقت ور سورما سے ٹکراگیا جس نے بے بس اور مجبور شہریوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے، بحریہ کراچی کے متاثرین کو انکا حق دلوانے میں اس نے کوئی مصلحت اختیار نہیں کی بلکہ طاقتور فرد کے حلق سے پیسہ نکال کر حق داروں کو دلوایا ہے، نسلہ ٹاور کا معاملہ ہو ،واٹر بورڈ میں پانی کی چوری کی بات ہو شانہ بشانہ کھڑا نظر آتا ہے،پانی، بجلی کے معاملات میں عوام کو ریلیف دلوانے کے لئے اس نے عدالت کے در پر دستک دی ہے، سٹریٹ کرائم کے خلاف اس کی آواز سب سے بلند ہے، تین کروڑ کی آبادی کو حق دلانے کے لئے اس سچے انسان نے ’’ حق دو کراچی کو ‘‘ تحریک کھڑی کی ہے،قانون کو ہاتھ میں لینے کی ترغیب کے بجائے یہ نسل نو ’’ بنو قابل‘‘ کا نعرہ دے رہا ہے تاکہ خود روزگار کا اہتمام کیا جائے، کراچی کے افق پر دمکتا ستارہ ’’ محسن کراچی‘‘ انجینئر حافظ نعیم الرحمان ہے،جو جماعت اسلامی کے امیر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انکی مقبولیت سے خائف حکومت بار بار بلدیاتی انتخابات ملتوی کر رہی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ایک فرد کا مسئلہ نہیں،اس عوام کا دکھ ہے جو کرب ناک ماحول میں رہ رہی ہے، جب سندھ کے علاقہ جات میں پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے تو عروس البلاد میں الیکشن سے راہ فرار کیوںہے۔ اس وقت سندھ میں اس پارٹی کی حکومت ہے جو خود کو سب سے زیادہ جمہوری کہلانے پر نازاں ہے، اس کا غیر جمہوری وتیرہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
کراچی محض ایک شہر نہیں ہے اسکی آبادی کئی ممالک سے زیادہ ہے، اس کے باوجود اس کے حقیقی مسائل اور قیادت سے صرف نظر کرنا خودکو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، یہ الگ بات کہ مئیر کے امیدوار محترم حافظ نعیم الرحمان بھی بلدیہ کے پہلے مئیر کی طرح  اختیارات کی کمی پرتحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
سابقہ مئیرز کی کارکردگی کا پول تو بارش کے پانی نے کھول دیا ہے،جہاں گاڑیاں گٹروں میں جا گری تھیں اور پانی بڑی سوسائٹیوں میں بلاامتیاز داخل ہوا ۔اس کے پیچھے کھلی بدعنوانیاں تھیں ،جس نے عوام کو پانی میں ڈبو دیا تھا۔
 کوئی دورائے نہیں کہ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی ،نعمت اللہ خاں مرحومین کی بطورمیئرز کارکردگی کا اعتراف ان کے سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں جن کے دامن پر کرپشن پر کوئی دھبہ نہ تھا،اسی لئے حافظ نعیم الرحمان کو عوامی پذیرائی مل رہی ہے، بلدیہ کا انتظام و انصرام اگر شفاف ہاتھوں میں ہوگا تو اس کے فوائد عام فرد تک لازمی پہنچیں گے اور بانی پاکستان کے خواب کو بھی تعبیر ملے گی جو انھوں بلدیہ کے استقبالیہ میں شہر کرا چی کو ’’عروس البلاد ‘‘بنانے کا دیکھا تھا۔