پیپلز پا رٹی کا سندھ

پیپلز پا رٹی کا سندھ

سندھ کا ایک بڑا حصہ سیلاب کے پانی میں گھرا ہوا ہے ، وہاں سے کسی انتظامی افسر کو بلدیاتی انتخاب کے دن فرائض کی انجام دہی کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں یہ الفاظ ادا کیے، پھر جرمنی چلے گئے۔ کراچی کے شہریوں کو زہر آلود پانی ٹینکرز کے ذریعہ فراہم کیا جارہا ہے۔ ٹینکر گھارو سے زہر آلود پانی جمع کرتے ہیں۔ واٹر بورڈ کے نئے چیف ایگزیکٹو نے ایک خط کے ذریعہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے استدعا کی ہے کہ اس گھناؤنے کاروبار کو روکا جائے۔ سندھ کے کچھ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا ایک مرحلہ چند ماہ قبل ہوا تھا مگر ان اضلاع میں بیوروکریسی ہی بلدیاتی اداروں کو چلا رہی ہے۔ سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی تھی کہ سیلاب کی بنا پر ایک دفعہ پھر انتخابات ملتوی کیے جائیں مگر اس دفعہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کی ایک عجیب کہانی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ازخود کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے مگر سپریم کورٹ کے احکامات کی بنا پر بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے بانی اور پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے 1973 کا آئین تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے تیارکیا اور اس آئین کے تحت بلدیاتی نظام کا قیام ضروری ہے مگر پیپلز پارٹی کو بلدیاتی نظام کے نفاذ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے 1988 کے منشور میں واضح طور پر New Social Contract نیا سماجی معاہدہ کا ذکر تھا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اس منشورکو کسی محفوظ لاکر میں رکھ دیا۔ شاید بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس منشورکا بغور مطالعہ نہیں کیا۔ پاکستان میں ہمیشہ فوجی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے۔ مقصد اس نظام کو منتخب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا تھا ، مگر جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے بلدیاتی نظام کے قیام کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف نے پہلی دفعہ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا بلدیاتی نظام نافذ کیا مگر ان کے دور میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں کام کرتی رہیں۔ اس نظام کی کچھ خوبیاں اورکچھ خامیاں تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے نظام کے تحت ڈپٹی کمشنر اورکمشنر کا ادارہ ختم کیا گیا ، کراچی اور لاہور میں سٹی گورنمنٹ قائم ہوئی۔ سٹی گورنمنٹ کے ناظمین کو بے پناہ اختیارات حاصل تھے۔ اس نظام میں یونین کونسل اور کونسلر با اختیار تھے۔ اس نظام کی بنا پرکراچی اور لاہور میں ترقی کا نیا دور شروع ہوا۔ کراچی میں بڑی سڑکیں ، انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج تعمیر ہوئے۔ نئی سڑکوں کی تعمیر سے جدید شہر کا تصور واضح ہوا ، شہر میں صفائی کا نظام بہتر ہوا۔ پانی کی فراہمی کے لیے کئی اسکیمیں شروع ہوئیں۔ جماعت اسلامی کے ناظم نعمت اﷲ خان نے شہر کی ترقی کے لیے کئی منصوبے شروع کیے۔ ایم کیو ایم کے سٹی ناظم مصطفی کمال نے کراچی کی ترقی کے لیے بہت سے منصوبے شروع کیے۔ ان میں سے کچھ مکمل ہوئے اور کچھ نہ ہوسکے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم سٹی گورنمنٹ کے دائرہ کار میں آئی۔ اسی طرح ہسپتالوں کا نظام بھی سٹی گورنمنٹ کے سپرد ہوا۔ مصطفی کمال کے منصوبوں کی تکمیل پر سہراب گوٹھ سے سی ویو تک سڑکیں بننے سے متوسط طبقہ کو آسانی ہوئی۔ گلستانِ جوہر اور نارتھ ناظم آباد کا نقشہ تبدیل ہوا۔ شاہراہ قائدین سے صدر جانے کے لیے ایک نیا کوریڈور بن گیا۔ مصطفی کمال کی ترقی کے ماڈل میں لیاری اور دیگر کچی آبادیوں کو نظرانداز کیا گیا جہاں کراچی کے محنت کش رہتے تھے۔ ان کے دور میں لیاری میں کوئی اوور ہیڈ برج یا انڈر پاس تعمیر نہیں ہوا۔ شہر کے دیرینہ مسئلہ یعنی پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے کچھ نہیں ہوا۔ اُمید کی جاتی تھی کہ کراچی میں انڈرگراؤنڈ ٹرین، الیکٹرک ٹرام اور بڑی بسیں چلیں گی۔ صدر پرویز مشرف نے آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کو نظرانداز کیا تھا۔ وفاق سٹی گورنمنٹ سے براہِ راست رابطہ رکھتا۔ یوں خاص طور پر سندھ میں اکثریتی آبادی میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ پیپلز پارٹی 2008 میں ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کرکے برسر اقتدار آئی۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے مہینوں نئے بلدیاتی قانون پر غوروخوض کیا۔ ایک مسودہ قانون نافذ ہوا تو سندھ کے قوم پرست جاگ اٹھے ، انہیں سندھ کا مفاد یاد آگیا۔ ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی 
کے بعد بلدیاتی ادارے غیر موثر ہوئے۔سندھ کے تمام شہر تنزلی کا شکار ہوئے۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر میںکوڑے کے ٹیلے بن گئے۔ ہر شہر میں سیوریج کا نظام تباہ ہوا۔ کراچی میں آدھے شہر کو واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی ملنا بند ہوا اور کوڑے کا مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ بن گیا۔ نیویارک ٹائمز نے اس مسئلہ پر فیچرز اور تصاویر شائع کیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات تو منعقد ہوئے مگر ایک اپاہج بلدیاتی نظام وجود میں آیا۔ سندھ حکومت نے کوٹہ سسٹم کے قانون کو پامال کیا۔ بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہوئی تو پھر حکومت سندھ نے نئے انتخابات کے انعقاد کو اپنے ایجنڈے سے نکال دیا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد نے بلدیاتی قانون کو غیر آئینی قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تیاری کا کام شروع کیا۔ سب سے پہلے جماعت اسلامی نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کے لیے ایک ماہ تک سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا۔ پیپلز پارٹی کی 
حکومت نے جماعت اسلامی سے ایک معاہدہ کیا ، اس کے بعد مصطفی کمال دھرنا پر بیٹھ گئے ، سندھ حکومت نے ان سے بھی معاہدہ کیا۔ جب سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے علیحدہ علیحدہ معاہدے کیے۔ ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے منتخب اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی بنی۔ اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے مگر پیپلز پارٹی نے کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔ یوں ایک کمزور قانون کے تحت انتخابات کے انعقاد کے امکانات ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سیلاب ، قدرتی آفات اور بیماریوں وغیرہ میں یونین کونسل اور کونسلر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ کونسلر کو اپنے علاقے کے لوگوں کے بارے میں جتنی معلومات ہوتی ہیں وہ کسی اور ادارہ کے پاس نہیں ہوتیں۔ سندھ میں اگر موثر بلدیاتی نظام موجود ہوتا تو سیوریج کا نظام فعال ہوتا اور کئی علاقوں سے پانی کی فوری نکاسی فوری طور پر بحال ہوجاتی۔ غریب افراد امدادی سامان کے لیے کونسلر اور یونین کونسل سے رابطہ کرتے۔ بلاول بھٹو نے زندگی کا ایک حصہ برطانیہ میں گزارا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ برطانیہ میں کاؤنٹی کے نظام کی کیا اہمیت ہے۔ برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد لندن کا میئر سب سے زیادہ با اختیار ہے ، وہ جرمنی گئے ہیں وہاں بلدیاتی نظام انتہائی موثر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے دماغ میں یہ مفروضہ ڈال دیا گیا ہے کہ نچلی سطح کے بلدیاتی نظام سے پیپلز پارٹی کی سندھ میں بالا دستی ختم ہوجائے گی۔ یہ مفروضہ ایک امتیازی سلوک اور غیر جمہوری مفروضہ ہے۔ بلدیاتی نظام پورے سندھ میں نافذ ہوگا تو سندھ کے تمام شہر اورگوٹھ ترقی کریں گے۔ عجیب بات ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے عمران خان کے لشکر کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے جو پلان تیار کیا ، اس کے لیے سندھ حکومت نے پولیس کی نفری اسلام آباد بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی پلاٹون موجود ہیں اور امن و امان کے لیے فوجی دستے بھی طلب کیے جاسکتے تھے۔ مضرِ صحت پانی کا مسئلہ ، کوڑا اور سیوریج کا نظام ، پبلک ٹرانسپورٹ ، تعلیم، صحت کے سارے نظام بلدیاتی نظام کے بااختیار ہونے سے بہتر ہوسکتے ہیں۔ کراچی کو ایک سپر بلدیہ کی ضرورت ہے۔ سپر بلدیہ کراچی کا دائرہ کار کنٹونمنٹ سمیت تمام علاقوں پر ہونا چاہیے۔ کونسلر اور یونین کونسل کے اختیارات واضح ہونے چاہئیں اور میئر کو مکمل طور پر بااختیار ہونا چاہیے۔ کراچی کی ترقی اس خواب کی عملی تعبیر میں مضمر ہے۔