اپوزیشن کا"پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ"اتحاد تشکیل،حکومت مخالف ملک گیر احتجاج کا اعلان 

اپوزیشن کا

اسلام آباد:اپوزیشن کی آل پارٹیز اکانفرنس نے حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کا"پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ"اتحاد تشکیل دیدیا اور وزیر اعظم عمرا ن خان سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا،جس کے تحت اکتوبر میں چاروں صوبوں میں مشترکہ جلسے ،دسمبر میں چاروں صوبائی دارلحکومتوں میں احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے منعقد ہونگے جبکہ جنوری میںاسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ ہوگا ۔مشترکہ اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں شفاف ، آزادانہ ، غیر جانبدارنہ اور شفاف انتخابات کیلئے انتخابی اصلاحات کی جائیں جس میں مسلح فوج اور ایجنسیز کا کوئی عمل دخل نہ ہو ، اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ،سیاست دانوں،عدلیہ،ڈیفنس سروسز ، بیورو کریسی کیلئے ایک ہی احتساب قانون بنائے جائے.

مشترکہ اجلاس میں منظور کئے گئے غیرآئینی ، غیر جمہوری ، غیر قانونی اور شہری آزادیوں کے منافی قوانین کو واپس لیاجائے،انتخابات سے قبل گگت بلتستان کی حیثیت کو تبدیل نہ کیا جائے،عاصم سلیم باجوہ سے متعلق رپورٹ کی تحقیقات کی جائیں، ٹروتھ کمیشن بنایا جائے جو 1947 سے اب تک کی پاکستان کی حقیقی تاریخ کو دستاویزی شکل دے ۔

مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف اور بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ موجودہ حکومت کا مزید قائم رہنا ملک کے وجود کے لئے خطرے سے خالی نہیں ہے، ہم مل کر سلیکٹڈ حکومت اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جدوجہد کرینگے،اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے، اپوزیشن اور حکومت میں سے کسی کا بھی ساتھ نہ دے،سلیکٹڈ حکومت کی دن گنے جا چکے ہیں، مشترکہ اعلامیےے سے جو بھی جماعت اس سے پیچھے ہٹے گی اس کا احتساب میڈیا کرے ، اپوزیشن کے سینئر ارکان پر مشتمل کمیٹی درست وقت اور درست نمبرز کے ساتھ حملہ آور ہونے کے وقت کا تعین کرے گی ، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس میں دھاندلی کی گئی اور اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا، ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کا جمہوری طریقوں سے مقابلہ کیا ، آئندہ بھی بندوق سے نہیں جمہوری طریقوں سے مقابلہ کرینگے ۔

پیپلزپارٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد وفاقی دارلحکومت کے نجی ہوٹل میں کیا گیا۔جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ، جمعیت علماءاسلام ، بی این پی مینگل ، اے این پی ، نیشنل پارٹی ، قومی وطن پارٹی ، جمعیت اہل حدیث ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی ، بی این پی بزنجو سمیت گیارہ اپوزیشن کی پارٹیوں نے شرکت کی ، اے پی سی سے سابق صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا ، دونوں قائدین نے تقاریر کے ساتھ ساتھ تجاویز بھی اجلاس میں دیں اور اے پی سی کے اختتام تک شریک رہے .

آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام پر یقین رکھنے والی قومی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ” پاکستان ڈیمو مومنٹ“ کے نام سے تشکیل دیا گیا ہے، اتحادی ڈھانچہ عوام اور غریب دشمن حکومت سے نجات کے لئے ملک گیر احتجاجی تحریک کو منظم اور مربوط انداز میں چلائے گا اور رہنمائی کرے گا ۔ اجلاس نے قرار دیا کہ موجودہ سلیکٹڈ حکومت کو مصنوعی استحکام اس اسٹیبلشمنٹ نے بخشا ہے جس نے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے اسے عوام پر مسلط کیا ۔ اجلاس نے اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں بڑھتے ہوئے عمل دخل پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسے ملک کی سلامتی اور قومی اداروں کے لئے خطرہ قرار دیا ۔

اجلاس نے مطالبہ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ہر کسی قسم کی مداخلت فوری طور پر بند کرے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے تمام ادارے آئین کے تحت لئے گئے حلف اور اس کی متعین کردہ حدود کی پابندی و پاسداری کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت سے باز رہیں ۔ مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں شفاف ، آزادانہ ، غیر جانبدارنہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے اس مقصد کے حصول کے لئے فی الفور ایسی انتخابی اصلاحات کی جائیں جس میں مسلح فوج اور ایجنسیز کا کوئی عمل دخل نہ ہو ،سلیکٹڈ حکومت نے ریکارڈ توڑ مہنگائی، بیروزگاری ، ٹیکسوں کی بھرمار سے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔ یہ اجلاس آٹے ، چینی ، گھی ، بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو فوری کم کرکے اعتدال پر لانے کا مطالبہ کرتا ہے ۔سلیکٹڈ حکومت کی ناکام پالیسیز کے نتیجے میں تباہ حال معیشت پاکستان کے دفاع ایٹمی صلاحیت اور ملک کی باوقار خود مختاری کے لئے سنگین خطرہ بن چکی ہے ۔

اجلاس اعادہ کرتا ہے کہ 1973 کا آئین اٹھارہویں ترمیم اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ قومی اتفاق رائے کا مظہر ہیں ان پر حملوں کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا اور پوری قوت سے صوبائی خود مختاری کا تحفظ کیا جائے گا اوران پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔اجلاس ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ارادے کو رد کرتا ہے اور وفاقی پارلیمانی جمہوریت کو پاکستان کے تحفظ کا ضمان سمجھتا ہے ۔ اجلاس دو ٹوک انداز میں واضح کرتا ہے کہ پارلیمان کی بالا دستی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی اور نہ ہی اس پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا ۔یہ سلیکٹڈ حکومت سقوط کشمیر کی ذمہ دار ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور عالمی قانون کے منافی مودی سرکاری کا عمل پاکستان کی موجودہ کٹھ پتلی حکمرانوں کی ملی بھگت کا شاخسانہ ہے ۔ اجلاس سلیکٹڈ حکومت کی افغان پالیسی کی مکمل ناکامی پر شدید تشویش کا اظہارکرتا ہے ۔

اجلاس میڈیا پر تاریخ کی بدترین پابندیاں لگانے ،دباﺅ اور سینسر شپ کے حکومتی ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ میر شکیل الرحمان سمیت تمام دیگر گرفتار صحافیوں ، میڈیا پرسنز کو رہا کیا جائے اور ان کے خلاف غداری اور درج دیگر بے بنیاد مقدمات خارج کئے جائیں ۔ اجلاس نے عزم ظاہر کیا کہ شہریوں اور میڈیا کی آزادیوں کو چھیننے کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ اجلاس سیاسی قائدین، رہنماﺅں اور کارکنان کے خلاف سیاسی انتقام پر مبنی بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات قائم کرنے ان کی گرفتاریوں اور قیدو بند کی صعوبتوں کی شدید مذمت اور ان کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے ۔

حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کی بنیادی آئینی ذمہ داری ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔ اجلاس اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حالیہ فرقہ وارانہ تناﺅ میں اضافے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس معاملے پرحکومت کی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کی شدید مذمت اور گہری تشویش ظاہر کرتا ہے ۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے ۔سی پیک قومی معیشت کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نااہل ، کرپٹ اور ناتجربہ کار حکمرانوں نے سی پیک کو رول بیک کرکے اس کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ سی پیک کے منصوبوں کی رفتار کو فی الفور تیز کیا جائے ۔ مغربی روٹ پر موٹروے اور ریلوے ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کی جائے ۔ سلیکٹڈ حکومت نے پارلیمان کو بے توقیر اور بے وقعت کرکے مفلوج کر دیا ہے ۔ عوام کے آئینی ، بنیادی ، قانونی اور انسانی حقوق کے منافی قانون سازی بلڈوز کی جا رہی ہے اور اپوزیشن کی آواز دبائی جا رہی ہے ۔

آج کے بعد ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کرے گی ۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ غیرآئینی ، غیر جمہوری ، غیر قانونی اور شہری آزادیوں کے منافی قوانین کالعدم کیا جائے ۔ میڈیکل کمیشن سمیت بلڈوز کرکے جو قانون سازی کی گئی ہے اسے واپس لیا جائے ۔اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ گلگت بلتستان میں مقررہ وقت پر صاف شفاف اور بغیر کسی مداخلت کے انتخابات کرائے جائیں ۔ انتخابات کے بعد قومی رائے سے گلگت بلتستان کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں ۔ اجلاس قرار دیتا ہے کہ گلگت بلتستان کا علاقہ بہت حساس ہے وہاں انتخابات میں ایجنسیز کی مداخلت ختم کی جائے تاکہ کوئی بھی ان انتخابات کی شفافیت پر اعتراض نہ اٹھا سکے ۔ اجلاس نے فیصلہ کیا کہ گلگت بلتستان کے انتخابی عمل پر گہری نظر رکھی جائے گی ۔

اجلاس نے مطالبہ کیا قبائلی علاقہ جات کو نو گو ایریاز بنا دیا گیا ہے یہ سلسلہ ختم کیا جائے ۔ اجلاس نے خیبر پختونخوا میں نجی جیلوں کے قیام کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ان غیر قانونی نجی جیلوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے ۔ اجلاس نے منصف مزاج ، غیر جانبدار ججوں کو ریفرنسز اور بے بنیاد مقدمات کے ذریعے جکڑنے اور آئین ، قانون اور انصاف کے منافی فیصلے کرانے کے لئے دباﺅ کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مذمت کی ۔ اجلاس نے قرار دیا کہ یہ تمام واقعات آئین کے تحت غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ کے تصور کے لئے سنگین دھچکا اور ملکی سلامتی کے لئے خطرناک ہیں ۔اجلاس نے پاکستان بار کونسل کی مورخہ 17 ستمبر 2020 کو منعقدہ اے پی سی میں منظور کردہ قرار داد کی توثیق کرتے ہوئے قرار دیا کہ اعلیٰ عدلیہ کی ججوں کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار ایک آزاد عدلیہ کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔

اس ضمن میں پاکستان بار کونسل کی اے پی سی میں منظور کردہ متفقہ قرار داد کے نکات پر عمل کیا جائے ۔اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے ، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کی روشنی میں احتساب کا نیا قانون بنایا جائے اور ملک کے تمام اداروں اور افرد کا خواہ ان کا تعلق عدلیہ یا ڈیفنس سروسز یا بیورو کریسی یا پارلیمان سے ہو ایک ہی قانون اور ادارے کے تحت احتساب کیا جائے ۔مشترکہ اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی اطلاعات عاصم سلیم باجوہ کے بارے میں سامنے آنے والی حالیہ رپورٹ کی مکمل اور شفاف تحقیقات اسی طریقہ کار کے تحت کی جائیں جو ملک کے دیگر سیاستدانوں سے متعلق اپنایا گیا ہے ۔ تحقیقات کے مکمل ہونے تک انہیں عہدے سے ہٹایا جائے ۔

پاکستانی شہریوں کو مسنگ پرسن بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے اور پہلے سے مسنگ پرسن کو قانون کے مطابق عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے ۔ مشترکہ اعلامیے میں پنجاب میں آئینی و قانونی مدت کی تکمیل سے قبل ہی بلدیاتی ادارے ختم کرنے کی مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ انہیں فی الفور بحال کیا جائے ۔ اجلاس ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات مسترد کرتا ہے ۔ اعلامیہ میں حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی بھی مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کی جامیعات کی مالی مدد کی جائے اور فیسوں میں اضافہ واپس لیا جائے ۔مشترکہ اعلامیہ میں آغاز حقوق بلوچستان کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اس عمل پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے ۔ مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ بلوچستان میں سول حکمرانی کا احترام ،ایف سی کی جگہ سول اتھارٹیز کو بحال کیا جائے ۔ ہر ضلع میں ایف سی کی قائم کردہ رکاوٹیں ختم کی جائیں ۔

اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ ٹروتھ کمیشن بنایا جائے جو 1947 سے اب تک کی پاکستان کی حقیقی تاریخ کو دستاویزی شکل دے ۔ مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ اے پی سی میں چارٹر آف پاکستان مرتب کرنے کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی جسے یہ ذمہ داری سونپی جائے گی کہ وہ پاکستان کو درپیش مسائل کا اعادہ کرتے ہوئے ایسی ٹھوس حکمت عملی مرتب کرے جس میں بانی پاکستان قائدا عظم محمد علی جناح کے ارشادات اور 1973 کے آئین کی روشنی میں پاکستان کی جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر واضح سمت متعین ہو ۔مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف پلان آف ایکشن کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس سلیکٹڈ وزیر اعظم کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتی ہے ۔

پہلے مرحلے میں اکتوبر میں چاروں صوبوں میں مشترکہ جلسے کیے جائیں گے ۔ جس میں وکلاء، تاجر ، کسان ، طالبعلم ، میڈیا اور عوام کو اس تحریک کی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے گا ۔دوسرے مرحلے میں دسمبر 2020 صوبائی دارالحکومتوں میں بڑی ریلیاں اور مظاہرے منعقد ہونگے اور عوام کے ساتھ مل کر بھرپور ملک گیر احتجاج کیا جائے گا ۔ جنوری 21 میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ ہوگا ۔ حکومت کی تبدیلی کے لئے متحدہ اپوزیشن پارلیمان کے اندر اور باہر تمام جمہوری سیاسی اور آئینی آپشنز استعمال کرے گی جن میں عدم اعتماد کی تحریک اور مناسب وقت پر اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا آپشن بھی شامل ہے ۔

مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ مشترکہ اعلامیہ اے پی سی میں شریک تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی مشاورت سے تیار کیا گیا ۔ موجودہ حکومت سلیکٹڈ اور دھاندلی کی پیداوار ہے ۔ ملک میں کرپشن ، مہنگائی کی بھرپور مار ہے ۔ موجودہ حکومت کا مزید قائم رہنا ملک کے وجود کے لئے خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ آج سے ہی کام شروع کردے گا ۔ جس طرح آر ڈی اے کی تحریک کامیاب ہوئی تھی اس طرح یہ تحریک بھی ضرور کامیاب ہو گی ۔ ہم مل کر سلیکٹڈ حکومت اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جدوجہد کرینگے ۔

ملک میں حقیقی جمہوریت کا قیام ہمارا مشن ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس میں صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف صاحب موجود تھے انہوں نے نا صرف تقاریر کی بلکہ اپنی تجاویز بھی دیں ، دونوں قائدین کی سرپرستی میں ہم اس مشن پر نکل رہے ہیں ۔ سلیکٹڈ حکومت کی دن گنے جا چکے ہیں ۔ہم سب متحد ہیں اور طاقت کے ساتھ تحریک چلائیں گے ۔ جو بھی جماعت اس سے پیچھے ہٹے گی اس کا احتساب میڈیا کرے ۔ ہم نا صرف کٹھ پتلی حکومت بلکہ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی جدوجہد کریں گے ۔ حکومت گرانے کے لئے صرف جمہوری ، آئینی طریقہ کار کا انتخاب کرینگے ۔ عدم اعتماد اور استعفی دونوں آپشنز آئین کے تحت استعمال کرینگے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے ۔ استعفوں سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن کے سینئر ارکان پر مشتمل کمیٹی درست وقت اور درست نمبرز کے ساتھ حملہ آور ہونے کے وقت کا تعین کرے گی ۔

شہباز شریف نے شاعرانہ انداز میں مولانا فضل الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر ۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ختم کرنا چاہتے ہیں ۔آئین کے تحت فوج کو سیاسی مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔ ہم غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ چاہتے ہیں ۔ ہم نہیں چاہتے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت یا اپوزیشن کاساتھ دے ۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس میں دھاندلی کی گئی اور اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا۔ شہزاد اکبر ووٹنگ کے دوران کھڑا تھا جب کہ وہ ووٹ نہیں دے سکتا تھا ۔ ہم نے ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کا جمہوری طریقوں سے مقابلہ کیا ۔ ہم آئندہ بھی بندوق سے نہیں جمہوری طریقوں سے مقابلہ کرینگے ۔