15 اگست: فتح کابل کا دن

Asghar Khan Askri, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا لیکن پوری دنیا اب بھی حیران ہے کہ 15 اگست کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان بغیر لڑائی اور خون خرابے کے کیسے قابض ہو گئے تھے؟ دنیا ان اسباب اور وجوہات کو بھی تلاش کر رہی ہے کہ آخر کیوں افغانستان کی فوج طالبان کے سامنے مزاحمت نہ کرسکی؟عالمی برادری اس سوال کا جواب بھی تلاش کر رہی ہے کہ آخر کیوں سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو کابل چھوڑنا پڑا؟حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور امریکا کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے فوجی انخلاپر سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔سابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی 15 اگست تک اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ واشنگٹن،کابل سے مکمل انخلا نہیں کر یگا۔ان کے کچھ فوجی دستے کابل میں سفارتی انکلیو،صدارتی محل اور دیگر اہم سرکاری اداروں کی حفاظت کے لئے موجود رہیں گے، لیکن امریکا نے مکمل انخلا کا فیصلہ کر لیا تھا جبکہ وہ سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو ایسا تاثر دے رہے تھے کہ ہم مکمل انخلا نہیں کریں گے۔امریکا نے سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی فضائیہ ان کی مدد کے لئے موجود ہوگی۔جب امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل شروع کیا اور طالبان نے قندوز اور ہلمند پر قبضہ کرلیا تو امریکا نے سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو تسلی دینے کے لئے ایک دو دن وہاں بمباری بھی کی لیکن اس کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔ قندوز اور ہلمند میں طالبان پر امریکی بمباری سے سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا یقین اور بھی پختہ ہوگیا تھا کہ واشنگٹن مکمل فوجی انخلا نہیں کریگا۔
سابق صدر ڈاکٹر اشرف کو ان کے مشیروں نے یہ مژدہ سنایا تھا اور وہ خود بھی اس خیال کے حامی تھے کہ امریکی فوجی انخلا کے بعد جب طالبان ملک 
کے مختلف حصوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کو بڑے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔لیکن پورے ملک میں کہیں سے بھی طالبان کو عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔حالانکہ ابتدائی دنوں میں چند خواتین نے احتجاج کیا۔ عالمی پریس نے ان کو نمایاں جگہ بھی دی،لیکن بعد میں وہ بھی خاموش ہو گئیں جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان خواتین کو مالی لالچ دے کر ان سے احتجاج کرایا گیا تھا۔سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو ان کے وزیروں اور مشیروں نے یہ بھی پٹی پڑھائی تھی کہ قندھار پر طالبان کا قبضہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے،اس لئے کہ عوام ان کے سامنے مزاحمت کریں گے جبکہ سابق کمانڈر مر حوم جنرل رازق کا خاندان بھی بھر پور مزاحمت کریگا۔لیکن یہاں بھی سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے وزیروں اور مشیروں کے تمام اندازے غلط نکلے۔ قندھار میں عوام نے مزاحمت کی اور نہ جنرل رازق مرحوم کے خاندان نے طالبان کے سامنے مزاحمت کی اور یوں قندھار بھی بغیر کسی مزاحمت،لڑائی اور خون خرابے کے فتح ہو ا۔ یہی موقع تھا کہ سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی اپنی رائے سے رجوع کرتے لیکن وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہنوز دلی دور است۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ جنرل رشید دوستم اور اسماعیل خان سے انہوں نے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لی تھی۔جنرل دوستم اور اسماعیل خان نے بھی سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو تسلی دی تھی کہ طالبان مزارشریف اور ہرات کو فتح نہیں کر سکتے۔لیکن یہاں بھی جنرل دوستم اور اسماعیل خان نے سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو دغا دیا۔ جنرل رشید دوستم نے بغیر لڑے مزار شریف کو طالبان کے لئے خالی کر دیا۔ ابھی تک وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ہیں کہاں؟رشید دوستم کے گھر پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے ان کی جو ویڈیو جاری کی ہے اس کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ان کے لئے نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔اس لئے کہ ایک تباہ حال ملک جہاں غربت،مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے وہاں کے کمانڈر کا اس طرح سے عیاشی کے ساتھ زندگی بسر کرنا کسی بھی طرح وہاں کی عوام کو پسند نہیں۔اسماعیل خان کے بارے میں بھی بانت بانت کی بولیاں بولی گئی۔ ان کو شیر ہرات کا خطاب دیا گیا۔ بین الاقوامی پریس نے ان کے انٹر ویو شائع کئے،لیکن وہ چند دن تک طالبان کا مقابلہ کر سکے اور آخر کار ان کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔یہ ایک اور موقع تھا کہ سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی اپنے موقف پر نظر ثانی کرتے لیکن ان کو جن وزیروں اور مشیروں نے گھیر رکھا تھا وہ اب بھی ان کو باور کرا رہے تھے کہ طالبان کا افغانستان پر قبضہ کرنا ایک دیوانے کا خواب ہو سکتا ہے حقیقت ہر گز نہیں اس لئے کہ عوامی مزاحمت ہو گی۔ امریکا بھرپور جواب دے گا جبکہ افغان نیشنل آرمی اس قابل ہے کہ طالبان کا مقابلہ کر سکے۔ایک طرف اگر چہ سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے صلاح کار ان کو ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہے تھے تو دوسری طرف امریکا نے رات کے اندھیرے میں بگرام ائیر بیس خالی کر دیا۔بگرام ائیر بیس کو افغان حکام کو بتا ئے بغیر خالی کرنے سے نقصان یہ ہوا کہ افغان نیشنل آرمی اور وہ چند لوگ جو طالبان کے خلاف ممکنہ طور پر مزاحمت کر سکتے تھے وہ بھی مایوس ہو گئے۔اب ان کو یقین ہو گیا تھا کہ امریکا افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کر رہا ہے جبکہ ان کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
بگرام ائیر بیس کو اچانک خالی کرنے کے بعد سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے پاس ایک اور موقع تھا لیکن وہ خود اور ان کے وزیر اور مشیر اب بھی اس انتظار میں تھے کہ امریکا ان کو تنہا نہیں چھوڑے گا لیکن امریکا چونکہ مکمل انخلا کا فیصلہ کر چکا تھا جبکہ سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کی انتظامیہ کو اس منصوبے سے مکمل طور پر لاعلم رکھا گیا تھا اس لئے وہ آخر تک اس انتظار میں تھے کہ واشنگٹن ان کو بچانے کی کوشش ضرور کریگا لیکن ان کی یہ امید بر نہ آئی اور 15 اگست کو طالبان بغیر خون خرابے اور لڑائی کے کابل میں داخل ہوئے جبکہ سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی اپنے وزیروں اور مشیر وں سمیت ملک چھوڑ کر چلے گئے۔