اپوزیشن کے بغیر طاقتور احتجاج

Barkha Dutt, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

اس سے قطع نظر کہ آپ کسانوں کے متعلق نئے قوانین پر کیا رائے رکھتے ہیں، کسانوں کا احتجاج چند غلطیوں یا بے ترتیبی کے باوجود انتہائی منظم ہے، یہ کامیاب ہو یا ناکم اس سے قطع نظر اس قدر منظم کہ وہ اپنے اعصاب و حواس پر قابو رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کے خلاف اتنا منظم احتجاج شہریت قانون میں تبدیلی کے خلاف ”مہذب“ سول سوسائٹی کا بھی نہ تھا۔ اس سے ہندوستان میں جمہوریت کے حوالے سے کی گئی ایک سازش بھی آشکار ہوتی ہے۔ 
اس میں ایک مثبت پہلو بھی ہے کہ اگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسا کرنا چاہے تو اختلافی معاملات پر بھی سسٹم کو چیک اور بیلنس پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں اپوزیشن کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس وقت تک جب تک کہ ایک نیا قومی متبادل، خواہ شخصیت ہو، پارٹی یا نظریہ پر مبنی، سامنے نہیں آتا، عوام کی طرف سے حکومت کے سنگین اقدامات کی اپنے طور پر مخالفت کی جاتی رہے گی۔
2019 میں، انتخابات سے پہلے، اروند کیجریوال کے مجھے دیئے گئے ایک انٹرویو کی بات یاد آئی، ”لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شکست دیں گے، کسی سیاستدان کی ضرورت نہیں ہو گی۔“ جب یہ موقع آیا تو لوگوں نے، جس طرح کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے، وزیر اعظم کو شکست سے دوچار کرنے کے بجائے اس کو بھرپور ووٹوں سے نوازا۔ لیکن کیجریوال کی بات میں ایک دانشمندانہ حقیقت چھپی ہوئی تھی۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ ان کا مطلب اسی طرح تھا، لیکن بی جے پی کے سیاسی غلبے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت نے ہندوستان کو ایک جماعتی جمہوریت کی سمت میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک متبادل طاقت جس کی کسی بھی صحت مند جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے، اب ہندوستان کی کسی سیاسی جماعت میں نہیں بلکہ یہ ذمہ داری اب اس کے شہری نبھا رہے ہیں۔
یقینی طور پر، اپوزیشن پارلیمنٹ کے فلور پر کچھ سخت اور تند و تیز بیان بازی کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر ریلیاں نکالی اور گورنروں یا صدر کو درخواست کی جاتی ہے اور گورنرز یا صدر کو درخواستیں پیش کرتا ہے لیکن یہاں تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ آخری مرتبہ کب حزب اختلاف کے کسی بڑے رہنما نے کسی مسئلے پر پندرہ روز تک مسلسل احتجاج کیا تھا، جیسا کہ کسانوں نے کیا ہے؟ سیاسی رہنماؤں کے زیادہ تر احتجاج تصاویر بنوانے تک محیط ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرکزی دھارے کی سیاست میں منظر کشی اور علامت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن، ہم کہتے ہیں کہ ہیتھراس کا اجتماعی عصمت دری کیس اب کہاں ہے۔ مقتول دلت لڑکی کے اہلخانہ کے ساتھ گاندھی خاندان نے بے تحاشا تصویر بنوائیں مگر کیا انہوں نے توجہ مرکوز رکھی کہ اس مسئلہ میں کیا ہو رہا اور کیس کی تحقیقات کہاں تک پہنچی؟ یا اس سال تارکین وطن کے ساتھ کیا ہوا۔ راہول گاندھی نے عالمی معاشی ماہرین کے ساتھ زوم انٹرویو کرنے کے بجائے دیہاتوں کے مسائل کے لئے شہروں کی طرف بھاگتے ہوئے مردوں، خواتین اور بچوں کے ساتھ اپنا وقت صرف کیا ہوتا تو کیا وہ کہیں بہتر سیاسی مقام پر نظر نہ آتے بلکہ ان کے مخالفین بھی انہیں مختلف انداز میں دیکھتے؟ کسانوں کے احتجاج نے حزب اختلاف کی طرف سے چلائی جانے والی کسی بھی تحریک کے مقابلے میں زیادہ پُرعزم اور مستحکم رہ کر توجہ حاصل کی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کی اپوزیشن، خاص طور پر قومی دھارے میں شامل پارٹیاں، پارٹ ٹائم سیاستدانوں پر مشتمل ہے۔ ریاستوں میں، البتہ کچھ ایسے سیاستدان رہے ہیں جنہوں نے کل وقتی سیاست کے لئے عزم، ارادے اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا لیکن ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ، جیتنے کے بعد، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ مرکز سے واضح طور پر نکمے یا غیر سود مند سمجھے جاتے ہیں۔ اس فریم ورک کے اندر، وہ مرکزی حکومت کی حمایت کرنے کے دوران اپنی ریاستوں کے پیرامیٹرز سے باہر کام نکل جاتے ہیں اور عیش و عشرت میں وقت گزارنے لگتے ہیں۔ چاہے دہلی، آندھرا پردیش، تلنگانہ یا اوڈیشہ ہو، ہم نے اسی طرح کے نمونے دیکھے ہیں، مخالفانہ مقامی سیاست ریاستی انتخابات کے بعد کسی نہ کسی طرح کی مفاہمت میں بدل جاتی ہے۔ در حقیقت یہ بھی سچ ہے کہ تحریکیں جو سیاستدانوں کے بجائے لوگوں کے ذریعہ چلائی جاتی ہیں زیادہ مقبولیت حاصل کرتی ہیں۔ کسانوں کی تحریک پارٹی کے سیاستدانوں کو اپنے سٹیج پر نہ رکھنے کا اخلاقی فائدہ اٹھا رہی ہے۔
لیکن ابھی تک کی تلخ حقیقت یہ ہے کہدو سال قبل مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صرف دو ہی لمحے آئے ہیں جب وہ کسی بات چیت میں شامل ہونے یا انتظامیہ کی طرف سے کسی فیصلے کو روکنے پر راضی ہوئے۔ پہلی بار جب ہندوستان بھر کے طلبا نے نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنز (این آر سی) کے معاملہ پر اس قدر دباؤ بڑھایا کہ بی جے پی کو ووٹ ڈالنے والے گھرانے بھی ان کی تائید پر مجبور ہو گئے۔ اور اب، جب پنجاب سے سکھوں کے زہر اہتمام کسان تحریک کے نتیجے میں کم از کم وزرا اور مظاہرین کے مابین مذاکارت کے کئی ادوار ہو چکے ہیں۔
ان دونوں ہی واقعات میں، سڑکوں پر موجود مظاہرین کے حامیوں میں، وجہ چاہے غصہ ہو یا جذبات، مودی کے حمایتی بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ جب انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ اصل قانون سازی پر کہاں کھڑے ہیں، اس احتجاج میں اتنی شدت اور صداقت ہے کہ بی جے پی ووٹرز بھی چاہتے ہیں، حکومت کسانوں سے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کرے۔ حکومت کے لئے، کسانوں کا احتجاج ایک سبق ہے، اس سے قطع نظر کہ آپ کتنے ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں، پھر بھی روزنوں کے ذریعے لوگوں کی آواز اٹھتی ہے۔ اپوزیشن کے لئے، یہ اس کی بڑھتی ہوئی نااہلی اور ناقص کارکردگی کی یاد دہانی ہے۔
(بشکریہ: ہندوستان ٹائمز)