الیکشن وقت پر، کوئی دباؤ قبول نہیں ……!

الیکشن وقت پر، کوئی دباؤ قبول نہیں ……!

اتوار کو وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کی لندن میں اپنے برادرِ اکبر  سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائدمیاں محمد نواز شریف سے ملاقات ہوئی۔ میاں شہباز شریف جو ان دنوں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے لیے اپنے پروگرام کے مطابق نیویارک پہنچ چکے ہیں، انھیں نیو یارک جانے کے لیے لندن کا راستہ تو اختیار کرنا ہی تھا لیکن اس بار انھیں اس وجہ سے بھی لندن کا راستہ اختیار کرنا پڑا کہ انھیں برطانیہ کی آنجہانی ملکہ الزبتھ IIکی آخری رسومات میں شرکت بھی کرنا تھی۔ اسی طرح میاں شہباز شریف کے لیے اچھا موقع بناکہ وہ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے قائد میاں محمد نواز شریف سے پہلے سے طے شدہ یا فوری طور پر ترتیب دیئے پروگرام کے مطابق ملاقات بھی کر لیں۔ چنانچہ میاں شہباز شریف نے اس موقع سے اچھا فائدہ اُٹھا لیا ہے اور ساڑھے تین گھنٹے تک میاں محمد نواز شریف سے ان کی ملاقات ہوئی جس میں مسلم لیگ ن کے اہم راہنما اسحاق ڈار اور میاں شہباز شریف کے فرزند سلمان شہباز بھی موجود تھے۔ میاں شہباز شریف کی میاں محمد نواز شریف سے ملاقات اس لحاظ سے اہم سمجھی جا سکتی ہے کہ انھیں ایسے وقت میں جب ملک اور حکومت گوناگوں مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں، اتحادی حکومت کو کئی طرح کے مسائل اور دباؤ  کا سامنا بھی ہے اور اس کے ساتھ اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں کچھ اہم معاملات کے بارے میں فیصلے بھی کرنے ہیں تو وزیرِ اعظم کو یقیناً اپنے  پارٹی کے قائد جو  ان کے بڑے بھائی ہیں اور جنہیں وہ والد جیسا احترام دیتے ہیں سے ضروری راہنمائی اور ہدایات لینے کا موقع ملا ہے۔ شریف برادران کی ملاقات کے بارے میں جو خبریں آئی ہیں ان کو سامنے رکھ کر اس ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں واضح طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، کسی سے بلیک میل نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی دباؤ قبول کیا جائے گا۔ انتخابات اگلے سال اپنے مقررہ وقت پر ہونگے۔ اتحادیوں کے ساتھ مل کر سیلاب متاثرین کی بحالی اور معیشت کی بہتری کو اہمیت دی جائے گی۔ ملاقات میں جہاں نئے آرمی چیف کی تقرری اور پنجاب حکومت کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا وہاں میاں شہباز شریف نے اپنے برادرِ اکبر کو اپنے بڑے اتحادیوں جناب آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سے گاہے گاہے ہونے والی مشاورت کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ خبروں کے مطابق میاں محمد نواز شریف نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو مہنگائی پر قابو پانے، عوام کو ریلیف دینے، سیلاب زدگان کی بحالی اور معیشت کی بہتری کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی بھی ہدایت کی۔ 
وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کی میاں محمد نواز شریف کی ملاقات اور اس میں سابقہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا موجود ہونا یقینا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اکثر جو اسطرح کی افواہ نما خبریں پھیلائی جاتی ہیں کہ مسلم لیگ ن کے اند اختلافات ہیں یا وزیرِاعظم میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کے خیالات، نقطہ نظر اور پالیسیوں میں کچھ اختلافات ہیں یقیناان تمام باتوں کی نفی ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ باہمی نقطہ نظر میں اختلافِ رائے ہونا یا ایک دوسرے سے مختلف مؤقف کا حامل ہونا ایک مثبت علامت ہے کہ اس سے باہمی صلاح مشورے اور اتفاقِ رائے کے حصول کی راہ کھلتی ہے تاہم اس ملاقات کے بارے میں جو خبریں آئی ہیں ان سے کسی طرح کے بھی نقطہ نظر کے اختلافات کی کوئی سن گن نہیں ملتی۔ اس ملاقات کے حوالے سے جو پہلو سب سے اہم ہے اور جس کا سامنے آنا انتہائی اشد ضروری تھا اور اب بھی ضروری ہے کہ دو ٹوک لفظوں میں مسلم لیگ کی 
اعلیٰ قیادت کی طرف سے یہ بیانیہ سامنے آ گیا ہے کہ میاں شہباز شریف کی حکومت کہیں جانے والی نہیں اور یہ اگلے اگست تک اپنی آئینی معیاد پوری کرے گی۔ اس ضمن میں حکمران اتحاد کسی بھی قسم کے دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔ اسی طرح اس ملاقات کے بارے میں آنے والی خبروں سے اس پراپیگنڈے کی بھی نفی ہوتی ہے کہ بڑے میاں صاحب حکومتی پالیسیوں کی تائید نہیں کرتے ہیں یا وہ حکومتی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔ 
یہاں اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں لیکن اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ عمران خان کو آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق حکومت سے نکالنے کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے لے کر اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے تک اور پھر میاں شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت کا قیام وغیرہ سارے معاملات یقینا میاں محمد نواز شریف کی مرضی اوررضامندی سے سر انجام پائے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد حالات میں تیزی کے ساتھ جو تبدیلیاں آتی رہیں اور حکومت کو بتدریج جس طرح کے مصائب، مشکلات اور مسائل سے دوچار ہونا پڑا ان سے یہ ضرور عیاں ہوا اور اب بھی بعض حلقوں کی طرف سے یہ عیاں کرنے کی کوشش ہوتی رہتی ہے کہ عمران خان کے خلاف تحرک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد فوری انتخابات کے انعقاد کا راستہ اختیار کر لیا جاتا تو یہ زیادہ مناسب تھا لیکن ایسا بوجوہ نہیں ہو سکا تو اس کے لیے کسی کو ذمہ دار یا موردِ الزام ٹھہرانا کہ اس کی ہوس اور حرص ِ اقتدار نے ایسا نہیں ہونے دیا تو شائد یہ زیادہ مناسب بات نہیں ہو سکتی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے اور اپریل میں میاں شہباز شریف کا وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے اور مرکز میں اتحادی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک پُلوں کے نیچے سے جتنا پانی بہہ چکا ہے اس کو واپس نہیں لایا جا سکتا۔ اب واحد راستہ پورے عزم و یقین، مضبوط قوتِ ارادی اور بروقت فیصلہ سازی کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہے۔ اچھا ہوا کہ میاں برادران نے تین گھنٹے کی بیٹھک میں آگے بڑھنے اور کسی طرح کے دباؤ کو قبول نہ کرنے کے بارے میں اتفاقِ رائے کا اظہارکیاہے۔ اس سے عمران خان کے فی الفور انتخابات کے انعقاد کے مطالبے کے غبارے سے جہاں ہوا نکلے گی وہاں یہ پہلو بھی نمایاں ہو کر سامنے آئے گا کہ سب کچھ جناب عمران خان کی خواہشات اور ان کے شور مچانے کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ 
میاں برادران کی اس ملاقات کے حوالے سے آنے والی خبروں میں جیسے اوپر کہا گیا ہے کہ اس میں نئے آرمی چیف کے تقرر کے بارے میں بھی صلاح مشورہ ہوا ہے۔ ایسا ہونا ضروری تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگی وزیرِ اعظم اپنی جماعت کے قائد کے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ کرلے۔ تاہم اس بارے میں بعض مسلم لیگی حلقوں یا مسلم لیگ ن کی دوسرے درجے کی قیادت کی طرف سے جو بیانات سامنے آتے رہتے ہیں میرے خیال میں ان کو مناسب نہیں قرار دیا جا سکتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بارے میں ہر کس و ناکس کو کچھ نہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ صرف وزیرِ اعظم یا مسلم لیگ ن کے اہم راہنما جن میں سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی  اور موجودہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف وغیرہ شامل میں وہ اس بارے میں کسی نقطہ نظر یا مؤقف کا اظہار کریں تو وہ ہی قابلِ توجہ اور قابلِ قدر سمجھا جا سکتا ہے۔ اگلے دن جب وزیرِ اعظم شہباز شریف لندن جا رہے تھے تو وفاقی وزیرِ جناب خرم دستگیر یہ بتاتے پھر رہے تھے کہ آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں میاں محمد نواز شریف سے مشورہ کیا جائے گا۔ انجینئر خرم دستگیر صاحب کو کون بتائے کہ کیا یہ بات اظہر من الشمس نہیں ہے کہ ان دنوں جب آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ ایک بڑے Issue کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ تقرری آئین کے مطابق وزیرِ اعظم کا اختیار ہے جو GHQ(آرمی چیف) اور وزارتِ دفاع کی مشاورت سے عمل میں لائی جانی ہے تو پھر اس کے بارے میں غیر ضروری بیان بازی کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔اس کا آپ کو، آپ کی حکومت کو یا آپ کی جماعت کو کیا فائدہ پہنچا فواد چودھری جیسے ہمیشہ کے فتنہ پردازکو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ایک مجرم (میاں محمد نواز شریف) ملک کے سب سے بڑے، اہم اور منظم ادارے کے سربراہ کی تقرری کی ہدایات جاری کر رہا ہے۔  اس ضمن میں میرے خیال میں وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف کا لندن میں دیا گیا یہ بیان زیادہ موزوں اور مناسب سمجھا جا سکتا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی آئین اور قانون کے مطابق ہو گی۔ اس اہم تعیناتی کو سیاسی ایشو نہیں بنانا چاہیے۔ اس بارے میں وزارت دفاع، جی ایچ کیو اور وزیر اعظم کے مابین نومبر میں مشاورت کا آغاز ہوگا۔ نواز شریف سے ملاقات میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق گفتگو ایجنڈے میں شامل نہیں تھی۔ 

مصنف کے بارے میں