انتخابات متناسب نمائندگی کے طریق پر ہونے چاہئیں

انتخابات متناسب نمائندگی کے طریق پر ہونے چاہئیں

جمہوریت کا مطلب ہے وہ نظام حکومت جس میں عوام ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور وہ نمائندے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے قوانین بناتے ہیں۔ عوام کا اپنے نمائندوں پر مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان سے جواب بھی طلب کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں جمہوریت کا مطلب بالکل مختلف ہے۔ کارکردگی کے لحاظ سے یہ جمہوریت نہیں۔ صرف انتخابات کا ڈھونگ رچانے سے جمہوریت نہیں آ جاتی۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق نے وطن عزیز میں جمہوری نظام کی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کی تمام پارٹیاں لوٹا کریسی الیکٹیبلز کی بلیک میلنگ سے تنگ ہیں اور ان سے واقعی نجات چاہتی ہیں تو آج ہی متناسب نمائندگی کے طرز پر الیکشن اصلاحات کی طرف آئیں اور یہ اصلاحات کرائیں۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ مافیا اور الیکٹبلز سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن ہوں۔
متناسب نمائندگی نظام میں لوگ کسی اپنے علاقے کے کسی جاگیردار یا الیکٹبلز کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے منشور کو ووٹ دیتے ہیں۔ لوگ کسی بھی جماعت کے رہنما کو براہ راست ووٹ دیتے ہیں اور جتنے ووٹ اس رہنما کے صندوق میں جمع ہو جاتے ہیں وہ ایک کروڑ ہوں یا 2کروڑ ہوں، ووٹوں کے لحاظ سے ان کو اپنے ممبران اسمبلی میں لانے کی اجازت ملتی ہے پھر رہنما کا کام ہے کہ معاشرے کے کرپٹ جاگیر داروں وڈیروں اور جاہلوں کے بجائے باصلاحیت لوگوں کو اسمبلی میں بٹھائے۔ ایسے لوگ جو معیشت کے ماہر ہوں، جوزراعت کے ماہر ہوں، جو تعلیم کے ماہر ہوں، دیانتدار اور پاکباز ہوں۔ اس لیے ہمارے ملک کے مسائل کا حل متناسب نمائندگی ہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ایوانوں میں پڑھا 
لکھا طبقہ بہت کم ہے۔ زیادہ تر ارکان کا تعلق جاگیرداروں، صنعتکاروں اور بڑے بڑے سیاسی گھرانوں سے ہے۔ انہیں صرف اپنے اکاؤنٹ بھرنے کی فکر ہے۔ ان کے نزدیک عوام صرف ایک کٹھ پتلی ہے جسے ہر پانچ سال بعد وعدوں پر بہلا لیا جاتا ہے اور پھر پانچ سال انگلیوں پر نچایا جاتا ہے۔ ان افراد کو ایوان میں ہونے والے قانون سازی سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ زیادہ پڑھا لکھا نہ ہونے کے سبب ایوان میں پیش ہونے والا کوئی بھی بل، قانون یہ بخوبی پڑھ اور سمجھ نہیں سکتے صرف ہاتھ اٹھا کر بل پاس کر دے دیتے ہیں یا منسوخ کر دیتے ہیں۔ انہیں کچھ نہیں پتا ہوتا کہ بل میں عوام و ملک کی بھلائی کیلئے کیا ہے۔ کیا یہ قانون اسلام یا آئین سے متصادم تو نہیں۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم ساڑھے تین سال اپنی اتحادی جماعتوں اور الیکٹیبلز کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں ایسی صورتحال سے بچنا چاہتی ہیں اور واقعی تبدیلی چاہتی ہیں تو آئیں ہمارے ساتھ ان انتخابی اصلاحات پر ملکر کام کریں۔ اس سے لوٹا کریسی سے بھی نجات ملے گی۔ نااہلوں سے بھی نجات مل جائے گی اور ان منڈیوں سے بھی نجات مل جائے گی جہاں انسان بکتے ہیں۔ اور قابل اور پڑھے لکھے لوگ ہی ہماری اسمبلیوں میں بیٹھیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں عوام اپنے نمائندوں پر کوئی اختیار رکھتے ہیں؟ کیا ان نمائندوں سے پوچھ گچھ ہو سکتی ہے؟ ہمارے ہاں عوام کو مکمل اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔ ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے،کون سے قوانین پاس ہو رہے ہیں، بجٹ میں عوامی مفاد کتنا اور کیسا ہے، عوام اس سے بے خبر رہتے ہیں۔
حقیقی جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ پورے نظام میں شفافیت ہو۔ ہمارے یہاں کوئی شفافیت یا کھرا پن نہیں جبکہ مغربی اور جمہوری ملکوں میںمکمل شفافیت ہے کہ وہاں نمائندگان کیا کیا مراعات لے رہے ہیں، ان کے اخراجات کیا ہیں؟ اثاثہ جات کیا ہیں؟ اختیارات و کارکردگی کیا ہے؟ مغربی ملکوں کی جمہوریت میں پارلیمنٹ کی ویب سائٹس ہوتی ہیں جس پر ہر ایم پی اے اور ایم این اے کے بارے میں مکمل معلومات دست یاب ہوتی ہیں۔ ہر شہری کو حق ہے کہ وہ خود دیکھ سکے کہ اس کے حلقے کے ایم این اے نے کیا کمایا، کتنی مراعات لیں، کیا اخراجات کیے اور کیا اثاثہ جات جمع کیے۔ پاکستان میں کتنے لوگوں کو ان معلومات تک رسائی ہے؟
پاکستان میں جمہوریت کا جو ماڈل ہے اس کا نہ تو علامہ اقبالؒ کے جمہوری تصور سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی قائد اعظمؒ پاکستان ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں امیر و غریب میں امتیاز برتا جاتا ہو، جس نظام میں شہریوں کو مساوی حقوق و مواقع میسر نہ ہوں۔ہمارے ہاں متناسب نمائندگی کی جمہوریت چاہیے۔ ہر جماعت کو ملنے والے فیصد ووٹوں کے اعتبار سے اسمبلی کی نشستیں حاصل ہو جائیںگی۔ ہر جماعت الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کو اپنے نامزد ارکان کی ایک فہرست جمع کرائے گی۔ متناسب نمائندگی کے نظام کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ بہت سے سیاسی کارکن جو مال و دولت نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑ سکتے پارٹی کی طرف سے نامزد ہونے پر اسمبلیوں میں پہنچ سکیں گے۔
بہترین نظام حکمرانی میں ضروری ہے کہ ٹیکنیکل افراد اسمبلیوں میں بھیجے جائیں۔ ڈاکٹرز، معیشت دان، مذہبی سکالرز، قانون دان، زرعی ماہرین جیسے لوگ اگر اسمبلیوں میں ہوں گے تو بہتر انداز سے قانون سازی کر سکیں گے۔ اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر افراد اپنی وزارتوں میں بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے قوانین اور پالیسیاں بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایسے افراد کو اسمبلی میں نمائندگی دینی چاہیے جو کسی نہ کسی فیلڈ میں ماہر ہوں اور کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔

مصنف کے بارے میں