ادارے اپنی اپنی سمت متعین کریں

ادارے اپنی اپنی سمت متعین کریں

اس بات سے صرفِ نظر ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کی تاریخ آئینی بحرانوں اور مارشل لاؤں سے بھری پڑی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا دور دورہ نہ ہو سکا اور نہ ہی پارلیمنٹ کی حکمرانی کو اس کی حقیقی روح کے مطابق تسلیم کیا جا سکا۔ کسی بھی ملک کا ہر ادارہ اپنی حدود کے اندر رہ کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے اور کسی بھی رنگ میں اپنی مقررہ حدود و قیود سے تجاوز نہ کرے تو مختلف ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی کی کوئی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی لیکن اگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا اس پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جائے تو پھر آپس کے تصادم اور ٹکراؤ کی یہ صورتحال کسی ایک ادارے کو کمزور کرنے کا باعث نہیں بنتی ہے بلکہ پورے ریاستی ڈھانچے کو متزلزل کر کے رکھ دیتی ہے۔ کوئی ملک بھی اس وقت تک شاہراہِ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں یکسوئی سے ادا نہ کر رہے ہوں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو صرف کسی ایک ادارے کا آزاد، متحرک اور فعال ہونا ہی کافی نہیں بلکہ تمام قومی اداروں کو بتدریج آزادی و استحکام کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔
بابائے قوم محمد علی جناح انہوں نے پاکستان کی جنگ آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے جیتی تھی اور ان کی یہ انتہائی خواہش تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے قائم کی جانے والی نئی مملکت قانون کی حکمرانی کی ایسی تصویر ہو کہ اس کے باشندے ایک طرف عہدِ جدید کی ان تمام سیاسی معاشی آزادیوں سے بہرہ مند ہوں جو دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے شہریوں کو موجودہ دور میں حاصل ہیں لیکن افسوس کہ بابائے قوم کے اس عالمِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف جلد رحلت فرما جانے کے بعد یہ سارے خواب تشنۂ تعبیر رہ گئے، لیکن اپنی حیات کے اس مختصر عرصہ میں بھی وہ ہمارے لیے ایسا راستہ ضرور متعین کر گئے جس پر چل کر ہم وطنِ عزیز کو ترقی کی اس منزل تک لے جا سکتے ہیں کہ وہ اقوامِ عالم کی برادری میں فخر سے کھڑا ہو سکے۔ قائدِ اعظم پارلیمانی سیاست و جمہوریت کے قائل تھے یہی ان کی سیاست کا منبع تھا اور ادارے اس کے ماتحت سمجھتے تھے لیکن ہم نے دیکھا کہ ادارے گزشتہ سات 
دہائیوں سے اپنے انداز میں چل رہے ہیں جیسے کہ وہ کسی کے ماتحت نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں آمرانہ حکومتوں کے طویل ادوار اور مفاد پرستانہ پارٹی سیاست نے تمام قومی اداروں کو بری طرح مضمحل کر دیا ہے اور کوئی ادارہ بھی ایسا نہیں جس کی کارکردگی کو مثالی قرار دیا جا سکے تاہم حالیہ کچھ برسوں میں سول سوسائٹی کی پُرزور جد و جہد کے نتیجے میں عدلیہ نے ایک آزاد ملک کے شانِ شایان اپنا کردار متعین کرنے کے لیے بلاشبہ قابلِ رشک کام کیا اور ملکی سطح پر بعض اتنے اہم اور بڑے فیصلے ہیں جن کا ماضی میں تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔
لیکن حالیہ دنوں میں اعلیٰ عدلیہ نے اداروں کے ایما پر غیر پیشہ ورانہ انداز میں پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کر کے اپنے کیے کرائے پر پانی پھیر لیا ہے اور ایک بار پھر سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ عدلیہ نے اپنی آزادی کہیں ایک بار پھر تو نہیں کھو دی ہے۔ ایک بار پھر سے دیکھا گیا ہے کہ تمام ادارے پھر سے اپنے اپنے داؤ آزمانے میں مصروف تھے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح اپوزیشن جماعتوں نے اکثریتی پارٹی کو اقتدار سے باہر کر کے اقتدار کی مسند تک رسائی حاصل کی۔ اس مقصد کے لیے اپوزیشن کا ہر سیاست دان خواہ وہ سیکولر ہے یا مذہبی امریکہ بہادر کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے اور بلا چوں و چرا سامراجی طاقتوں کے سامنے سرخم کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ ہے کہ ہمارے اکثر سیاست دان ضمیر کے سوداگر ہیں اور ان کے لیے سیاست اور اقتدار محض دولت کمانے عیاشیاں کرنے کا ذریعہ ہے یا پھر ماضی میں کیے گئے جرائم سے پوتر ہونے کا آسان راستہ۔ ملک و قوم کے درد کے نغمات صرف ان کی نوکِ زبان تک محدود ہیں۔ موجودہ حکمران ٹولے کا بھی یہی حال ہے محض اپنے اقتدار کی خاطر مسلمہ اصولوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے امریکی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے تمام حدوں کو پھلانگا گیا جس کی مثالیں مہذب دنیا کی تاریخ میں مفقود ہیں اور انہی مثالوں میں سے ایک مثال یہ بھی قائم کی گئی کہ اپنی قوم کو ببانگِ دہل فقیر قوم گردان دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بیگرز کبھی بھی چوزر نہیں ہو سکتے۔
گزشتہ 40 سال سے محض اپنے اقتدار کے حصول کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کرنے کا نتیجہ ہے آج وطنِ عزیز پاکستان بد ترین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ کئی اعتبار سے اس وقت ہم قومی تاریخ کے فیصلہ کن مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ایسے مواقع پر علمی اور فکری شعبوں میں جس تحقیق اور غور و فکر کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آتا۔ ملک کے ممتاز ترین ماہرینِ قانون جنہیں ایسے لمحات میں فکری رہنمائی مہیا کرنا چاہئے وہ بھی کشمکش میں مبتلا کے ساتھ فریق بنے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ بار اور ہائی کورٹ بار کے عہدیدار جس طرح اپوزیشن کے آلۂ کار بنتے ہوئے کیس لے کر عدالتوں میں جا رہے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ کیا عدلیہ کو پارلیمنٹ پر غالب آنا چاہئے؟ کیا وہ پارلیمانی امور میں مداخلت کر سکتی ہے؟ اس وقت تمام اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو فکری رہنمائی کی شدید ضرورت ہے۔
حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حالات کی کروٹ کے نتیجے میں معاملات عوامی عدالت میں چلے گئے ہیں اور اپوزیشن کو ایک بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب عوام ایک سیاسی قیادت کے کہنے پر سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار ہیں تو پھر حکومت کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ انتخابات کا اعلان کر کے عوام کے پاس جائے یہی بات آج سینئر سیاست دان جناب جاوید ہاشمی نے بھی وزیرِ اعظم کو کہی ہے کہ ان حالات میں حکومت کرنے کی کوئی تک نہیں ہے اور دوبارہ سے عوام سے رجوع کیا جانا چاہئے۔ اس وقت جو لوگوں کے دماغ میں ایک بات سمائی ہوئی ہے وہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے خلاف جاری قانونی عمل کو رکوانا چاہتی ہے۔ جس کا تعلق مبینہ طور پر ان کی ناجائز دولت کے ساتھ ہے۔اس کے علاوہ نواز شریف اپنی نااہلی اور سزا کو ختم کرا کر پھر سے وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ فوج کو اپنے آپ کو اپنے پیشہ ورانہ کردار تک محدود کر لینا چاہئے۔ فوج اور عوام کے درمیان ناقابلِ عبور خلیج حائل ہو جائے تو اس کی جو قیمت چکانا پڑتی ہے، دنیا میں شائد ہم سے بہتر کوئی اس امر کو نہ سمجھ سکے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے کے بعد بھی اگر ہم معاملے کو اس پہلو سے صرفِ نظر کریں تو پھر ہماری کوتاہ اندیشی پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس وقت انتخابات کا اعلان کر دیا جائے تو عوامی ناپسندیدگی کو حدود سے متجاوز ہونے سے خود ہی روک سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں