تقسیم در تقسیم قوم…

تقسیم در تقسیم قوم…

اس میں کوئی شک نہیں سیاسی وابستگی نے معاشرے میں جو تقسیم گزشتہ پانچ سال میں ڈالی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں بھی یہ تقسیم تھی لیکن یہ سیاسی مخالفت کی حد تک تھی۔ وقتی تلخی ضرور ہوتی تھی لیکن جلد ہی رات گئی بات گئی کے مصداق اس تلخی کو مسئلہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ لیکن آج کل یہ سیاسی مخالفت دشمنی میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے اور یہ نفرت اب گھر گھر پہنچ چکی ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ اس کی تازہ ترین جھلک ہم نے پنجاب اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں دیکھ لی۔ اسی سیاسی نفرت کی بدولت ملک کے سب سے بڑے ایوان کے کسٹوڈینز سپیکر چودھری پرویز الٰہی اور ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری پر تشدد ہوا بلکہ اسی اسمبلی کی ایک خاتون رکن آسیہ امجد بھی اسی اجلاس کے دوران تشدد کی بنا پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اس پر افسوس یہ کہ نو منتخب وزیراعظم یا ان کی کابینہ کے کسی رکن نے ان کی عیادت بھی کرنا گوارا نہ کیا واقعہ کی مذمت تو دور کی بات ہے۔ معاملات کو اس نہج تک پہنچانے میں ہماری جملہ سیاسی قیادت کا ہاتھ ہے۔ اگر وہ چاہتے تو اپنے کارکنوں میں رواداری پیدا کر سکتے تھے۔ لیکن جب ان کا بیانیہ اور وہ خود سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی کی طرف دھکیلیں گے تو ان کے کارکن تو اس میں چار ہاتھ آگے جائیں گے اور یہی ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کے بڑے ہوٹل میں ایک بزرگ شہری کو پی ٹی آئی کے منحرف رکن نور عالم کو لوٹا کہنے پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس میں پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی، مصطفی نواز کھوکھر اور حاجی افضل چن نے بھی حصہ ڈالا۔ بلکہ پوری پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحاد اس تشدد کی مذمت کرنے کے بجائے اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ مصطفی نواز کھوکھر اور مسلم لیگ ن کے 
عطااللہ تارڑ تو اس تشدد کو مزید ہوا دے رہے ہیں اس پر بھی ان کی اعلیٰ قیادت خاموش ہے جس کا مطلب ہے اعلیٰ قیادت کی انہیں آشیرباد حاصل ہے۔ تشدد کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بزرگ شہری کو نور عالم کو سرعام لوٹا نہیں کہنا چاہیے تھے۔ اسی لفظ کی وجہ سے انہوں نے ہتک محسوس کی اور ردعمل میں تشدد ہوا۔ سوال یہ ہے کہ نورعالم کو اس وقت ہتک محسوس نہ ہوئی تھی جب انہوں نے عوام کے دیے گئے مینڈیٹ کی توہین کی تھی۔ اب تو یہ الزام بھی لگ رہا ہے کہ انہوں نے پیسے لے کر وفاداری تبدیل کی ایسی صورتحال میں انہیں لوٹا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ گو کہ سپریم کورٹ میں لوٹوں کے مستقبل کے حوالے سے آئینی تشریح کا کیس زیر سماعت ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ایسا فیصلہ آئے گا جس سے اس ملک میں ضمیر فروشی کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے گا۔ اگر اس فیصلے میں لوٹا گردی پر بند نہ باندھا گیا تو یہ معاشرے میں سیاسی مخالفت کو نفرت میں بدلنے کے عمل کو مزید ہوا دے گا۔اس سیاسی مخالفت یا نفرت کا اثر معاشرے کے ہر طبقہ پر پڑا ہے اور ہماری روز مرہ کی زندگی اس سے شدید متاثر ہو رہی ہے اگر اسے روکنے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو خدانخواستہ ہم سول وار کی طرف نہ بڑھ جائیں۔
اس سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کرنے میں بعض میڈیا ہاؤسز کا بھی کردار منفی رہا ہے اور معاشرے کے باقی طبقات کی طرح میڈیا بھی تقسیم نظر آیا۔ کہتے ہیں کہ خلق خدا کو نقارہ خدا سمجھنا چاہیے آج اگر عام آدمی سے بات کریں تو وہ اپنے تجزیے میں صاف صاف بتا دیتا کہ کون سا میڈیا کس جماعت کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ بطور صحافی یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ایک عرصے سے میں خبروں کے حصول کے لیے جیو اور جنگ گروپ کے اخبارات دیکھتا تھا۔ لیکن حالیہ سیاسی تقسیم میں یہ میڈیا ہاؤس بھی نیوٹرل نہ رہ سکا اور اس کے تمام اداروں کی خبروں، تجزیوں اور پروگراموں میں آمیزش نظر آئی اب میں خبروں کے سچائی جاننے کے لیے دوسرے میڈیا ہاؤسز کو ترجیح دیتا ہوں۔ عام قاری اور ناظر بھی اسے سیاسی تقسیم یا نفرت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ میڈیا ہمارا اوڑھنا بچھوڑنا بن چکا ہے اور اس پر شائع یا نشر ہونے والا مواد عوام کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض میڈیا ہاؤسز کی پالیسیوں اور شائع یا نشر شدہ مواد سے عوام میں سیاسی نفرت روز بروز بڑھ رہی ہے جس کا ازالہ کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے میں وہ میڈیا ہاؤسز ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہیں جو کہ صحافت کے مروجہ اصولوں پر کاربند ہیں۔
سوشل میڈیا تو مادر پدر آزاد ہے اور یہ میڈیم سیاسی مخالفت کو نفرت میں بدلنے میں سب سے آگے ہے۔ ماضی میں بھی اس پر قانون سازی کے ذریعے قابو پانے کی کوشش کی گئی لیکن قانون ہی نہ بن سکا۔ میری رائے میں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد روکنے کے لیے انتظامی سے زیادہ اخلاقی اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ کام سیاسی قیادت اپنے اپنے پلیٹ فارمز سے رواداری کا پرچار کر کے کر سکتی ہے۔ میڈیا کا اس حوالے سے مثبت کردار بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے اگر ہم سمجھیں تو۔
فی زمانہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کو ایجنڈا نہیں اپناتے تو کم از کم جو ایوارڈ آپ کو ملتا ہے وہ غداری کا ہے یہیں سے اندازہ لگا لیں ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ کچھ بھی ہو اس کی بڑی ذمہ داری سیاستدانوں کی ہے کہ وہ اپنے اپنے جلسوں، پریس کانفرنس میں کارکنوں کو سیاسی مخالفت اور دشمنی سے ہٹ کر رواداری کی طرف لے آئیں وگرنہ ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔

مصنف کے بارے میں