اب آگے بڑھیں

اب آگے بڑھیں

بھان متی کے کنبے کی طرح رنگ برنگی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ ہر کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ یہ کتنا وقت نکالے گی۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ ڈھانچہ کم ازکم اس سال نومبر تک قائم رہے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے جانشین کے آنے پر ہی حکومت کا اگلا مرحلہ شروع ہو گا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انہیں وقت سے پہلے گھر جانا پڑے گا۔ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی یک جان دو قالب تھے۔ عمران خان نے ہر ادارے کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھ رکھا تھا۔ اسی لیے اب اقتدار جانے کے بعد ان کو جو دھچکا لگا ہے اس سے باہر آنے کے لیے وقت لگ رہا ہے۔ دوران حکومت وہ جس ماحول رہ رہے تھے اب تک ان کے دماغ پر وہی چھایا ہوا ہے۔ اہل سیاست کو جوتے اور اہل صحافت کو بندوق کی نوک پر رکھنے کی عادت تو پہلے ہی تھی اب فوج، آئی ایس آئی اور سپریم کورٹ پر بھی برس پڑے ہیں۔ قومی اسمبلی کے بعد پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ اس بات کی کھلی عکاسی ہے کہ پی ٹی آئی آئین، قانون، عدالتی احکامات وغیرہ کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ بہت دلچسپ صورتحال ہے کہ عمران خان کی سیاست کو چمکا کر ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کر کے انہیں وزیر اعظم کے منصب پر بٹھانے والے اب اپنے محکمے کے حاضر سروس اور ریٹائر افسروں کو صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ ادھر عمران خان کی سر توڑ کوشش ہے کہ کسی طرح سے عوامی دباؤ اتنا بڑھایا جائے کہ اگلے ساٹھ سے نوے دنوں میں نئے انتخابات ہو جائیں۔ ان کا خیال ہے اس طرح وہ دو تہائی اکثریت سے جیت کر دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔ خواہشات پر کوئی پابندی نہیں مگر زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی حکومت میں شامل پارٹیوں کے آپس میں اختلافات ہیں مگر جب بھی عام انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا، دھاندلی سے پاک ووٹنگ سب کا مشترکہ مطالبہ ہو گا۔ پیپلز پارٹی سندھ میں مضبوط ہے، اس مرتبہ کراچی، حیدر آباد میں ایم کیو ایم کو روکنا بہت مشکل ہو گا، پنجاب میں مسلم لیگ ن کسی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹے گی۔ بلوچستان میں مینڈیٹ تقسیم ہو گا مگر یہ سوچنا کہ قاسم سوری کی طرح کے لوگ ایجنسیوں کے بل پر جیت جائیں گے خام خیالی ہو گی۔ کے پی کے یقیناً اب بھی بڑی حد تک پی ٹی آئی کے پاس ہے مگر 2018 کی طرح مخالف جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو گن پوائنٹ پر باہر نکال کر ٹھپے لگانے کی اجازت کوئی نہیں دے گا۔ جے یو آئی اور اے این پی ڈٹ کر الیکشن لڑیں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی میدان خالی نہیں چھوڑیں گی۔ مگر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ 2018 سے اب تک تمام سیاسی جماعتوں نے کیا سبق سیکھا؟ زیادہ دن نہیں گزرے جب راولپنڈی کے خود ساختہ ترجمان شیخ رشید بار بار کہا کرتے تھے کہ اب جیلوں سے نواز شریف اور آصف زرداری کے تابوت ہی آئیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ واقعی ایسا منصوبہ بنایا گیا ہو مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ دونوں شخصیات آج کنگ میکر بنی ہوئی ہیں۔ بڑے بول بولنے والا شیخ رشید ڈرا سہما پھر رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اب مل کر جو حکومت بنائی ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ اگر چند نکات پر اتفاق رائے پیدا کر لیا جائے تو اسٹیبلشمنٹ سے باعزت ڈیل ہو سکتی ہے۔ اگر الگ الگ ہو جائیں تو سب کو سو جوتے سو پیاز کھانا پڑتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہو چکا کہ چاہے وقتی طور پر ہی سہی اگر کسی مصلحت کے تحت سیاسی جماعتیں عدم فعالیت کا شکار ہو جائیں تو اس سے پیدا ہونے والی کمزوری کو مکمل طور پر دور کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ماضی قریب میں بار بار پیدا ہونے والی اسی عدم فعالیت اور کمزوری نے اسٹیبلشمنٹ کا شکنجہ اور مضبوط کرنے اور پی ٹی آئی کی حکومت کو تھوپے رکھنے کی راہیں ہموار کیں۔ سیاسی جماعتوں کے متحرک ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کر لی جائے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ ہر غلط کام کی نشاندہی کر کے اس پر اپنا موقف لازمی پیش کیا جائے۔ اپنے خلاف ہونے والے پراپیگنڈہ کا فوری طور پر جواب 
دیا جائے۔ کارکنوں کے ساتھ رابطے میں رہ کر ان کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ اسی لیے بہت سی نظریں اب اس جانب لگی ہوئی ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت دوران ہونے والی وارداتوں پر اس نئی حکومت کی حکمت عملی کیا ہوتی ہے، اب یہ تو کہنے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان نے اپنے دور میں سیاسی مخالفین کو بد ترین انتقام کا نشانہ بنایا۔ ان کی خواتین کو بھی نہیں بخشا۔ اب عمران خان نے ممکنہ خطرات کو بھانپتے ہوئے فرح گوگی اور اسکے شوہر کو پہلے ہی ملک سے باہر بجھوا دیا ہے، مارشل لا لگوانے میں ناکامی کے بعد اداروں پر حملوں کا جو سلسلہ شروع کیا اسکا مناسب جواب خود اداروں کی جانب سے سامنے آ گیا ہے، اگرچہ عمران اور انکے حامی اب تک ان جوابات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں مگر یہ بہت بھرپور اور منہ توڑ ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان کا یہ کہہ دینا عمران خان کے سارے دعوے جھوٹ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ 1۔امریکا نے اڈے نہیں مانگے، 2۔عمران نے اپوزیشن کو منانے کے لیے مدد مانگی، 3۔حکومت کے خلاف کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کی توہین کرنے پر چیف جسٹس نے واضح کر دیا ہے کہ گالیاں کھا کر بھی آئین کا تحفظ کریں گے، یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے، آج کل رواج بن گیا ہے کہ دس ہزار بندے جمع کر کے کہہ دو میں نہیں مانتا، آئینی خلاف ورزی چھوٹی بات نہیں، تعین کریں گے کہ ایسا کرنے والا ہنسی خوشی گھنٹی بنا کر نکل جائے گا یا قیمت چکانا ہو گی، اداروں کا یہی ردعمل ہے جس نے عمران خان کو مزید ’’خطرے ناک‘‘ ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب ان کا تازہ الزام یہ ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ کو اسٹیبلشمنٹ نے لگوایا۔ حالانکہ ابھی چند روز پہلے تک وہ اسی چیف الیکشن کمشنر کے گن گا رہے تھے۔ عمران کے اس الزام کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ وہ فارن فنڈنگ کیس میں اپنے خلاف فیصلے کو متنازع بنانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور زبردست یو ٹرن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر بھی لیا گیا۔ سابق وزیر اعظم کا دعویٰ ہے اس دیانتدار جج کے خلاف ریفرنس درست نہیں تھا انہیں ورغلا کر غلط کام کرایا گیا۔ انہی کے وزیر قانون رہنے والے فروغ نسیم نے اس موقف بکواس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سب کچھ عمران خان کی ہدایت پر ہی ہوا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر عمران خان کے دعوے کو درست مان لیا جائے تو اسکا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کو درست قرار دے رہے ہیں۔ جس کی لپیٹ میں کم ازکم دو جنرل فیض حمید اور آصف غفور بھی آ جاتے ہیں۔ ان دونوں افسروں کا شمار عمران خان کے بڑے محسنوں میں ہوتا ہے۔ عجیب تماشا ہے کہ اب عمران خان اپنے ہی بیانیہ کے اسیر بن چکے ہیں۔ اپنے ہی سفیر سے لکھوائے کے جعلی مراسلے اور حکومت کے خاتمے کا الزام اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر نہیں لگاتے تو بڑے بڑے دعووں میں جان نہیں رہ جاتی اور اگر ایسا کرتے ہیں خود اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے مشکلات کے نئے پہاڑ کھڑے کر لیں گے۔ دوسری جانب کئی جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے جو ابھی تک اس تمام صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں نہ صرف عمومی کرپشن میں بہت زیادہ اضافہ ہوا بلکہ اعلیٰ سطح پر لوٹ مار کے کئی میگا سکینڈل بھی سامنے آئے۔ توشہ خانہ کا صرف ایک معاملہ ہی نہیں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سمیت کئی افسروں کے پاس بدعنوانی کے کئی واقعات کے ثبوت موجود ہیں۔ نئی حکومت نے مقدمات بنائے تو اور لوگ بھی شواہد لے کر سامنے آ جائیں گے۔ کرپشن کا کھرا بنی گالہ تک جاتا ہے۔ اگر حکومت کسی مصلحت کی بنا کر کیس نہیں بناتی تو پھر پی ٹی آئی کو یہ پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ ہمارے ہاتھ صاف ہیں۔ وفاقی کابینہ بن چکی، ممکن ہے اب اس حوالے سے کارروائی کا آغاز کر دیا جائے۔ اور عین ممکن ہے کہ اسی دوران عمران خان بھی احتجاج کی کال دے دیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں جماعت اسلامی جیسی پارٹی کو بھی ساتھ ملایا جائے۔ پچھلے چند دنوں سے ملک میں جلسوں اور بیرون ملک احتجاجی مظاہروں سے انہیں یقیناً حوصلہ ملا ہے۔ مگر اب بھی دو امتحان باقی ہیں۔ حکومت نے ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں روکنے کی کوشش کی تو پھر کیا ہو گا۔ سسٹم جام کرنے کی کوشش کی گئی تو حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے کارکن خاموش بیٹھے رہیں گے کیا۔ ابھی چند روز پہلے تک پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ذریعے قومی اسمبلی کا اجلاس رکوانے کی کوشش کی گئی تو اکیلے جے یو آئی نے ہی ارکان اسمبلی کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کر کے عملی طور بھی کر دکھایا تھا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے کارکن بھی اسلام آباد میں آ گئے تھے۔ سنجیدہ تجزیہ کار اس امر سے انکار نہیں کرتے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو اب تک سرکاری خزانے سے تنخواہ وصول کرنے والے بعض عناصر کی حمایت حاصل ہے۔ ماضی کی طرح ساری منصوبہ سازی بھی یہی گینگ کر رہا ہے۔ فرض کریں اگر پی ٹی آئی کی حکومت کو لانے اور چلانے والا پورا گروہ متحرک ہو کر اسی قسم کی حرکات دوبارہ شروع کر دے تب بھی بہت مشکل صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ چار سال تک زیر عتاب رہ کر اب حکومت میں آنے والے زیادہ دیر تک صبر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ فوری ردعمل سامنے آئے گا۔ جہاں تک ملک میں خانہ جنگی کی دھمکیاں دینے کا معاملہ تو پی ٹی آئی اور اسکے موجودہ سرپرستوں کے لیے اتنا ہی کافی ہو گا کہ ایک تنظیم لاہور سے اپنے مارچ کا اعلان کرے اور اپنے ساتھ پچھلے مارچ میں پیش آنے والے واقعات کا حساب پچھلی حکومت سے مانگے گی۔ یہ مارچ جیسے ہی شروع ہو گا پی ٹی آئی کی خانہ جنگی کی دھمکیوں، جلسے جلوسوں، دھرنوں وغیرہ کا فی الفور مارچ ہو جائے گا۔ اور بڑے بڑے بول بولنے والوں کو محفوظ ٹھکانے تلاش کرنے کی فکر پڑ جائے گی۔ امید ہے ’’آپ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے‘‘۔ نئی حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ گڈ گورننس کے ساتھ احتساب کے عمل کے عمل کو بھی یقینی بنائے۔ اور یہ دونوں کام صرف ہونے ہی نہیں چاہئیں بلکہ ہوتے ہوئے نظر بھی آنے چاہئیں۔ اس کے لیے آج اور ابھی سے آگے بڑھنا ہو گا۔

مصنف کے بارے میں